Daily Roshni News

۔15 نومبر 1954ء کو ٹیلی کاسٹر، براڈکاسٹر، پروڈیوسر، مصنف اور صحافی مہ پارہ زیدی  لاہور میں پیدا ہوئیں

۔15 نومبر 1954ء کو ٹیلی کاسٹر، براڈکاسٹر، پروڈیوسر، مصنف اور صحافی مہ پارہ زیدی  لاہور میں پیدا ہوئیں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج ہی کے دن 15 نومبر 1954ء کو ٹیلی کاسٹر، براڈکاسٹر، پروڈیوسر، مصنف اور صحافی مہ پارہ زیدی  لاہور میں پیدا ہوئیں,  وہ 6 بہنیں ہیں اور ان کے والد کو ’بیٹیوں والے زیدی صاحب‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور بیٹیوں کی پیدائش پر ان سے افسوس کیا جاتا تھا۔ لیکن ان واقعات نے انہیں کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط بنایا. والد سید حسن عباس زیدی شاعر بھی تھے اور شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ بچپن میں ہی والدین کے ساتھ سرگودھا آ گئیں اور ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی۔ میٹرک، ایف اے اور بی اے بھی سرگودھا سے کیا۔ ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا.

ماہ پارہ زیدی کی حیثیت سے 1974ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پھر انہوں نے اپنے اگلے 15 برس، کبھی ریڈیو اور کبھی ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے گزارے۔ اسی دوران وہ مشہور شاعر صفدر ہمدانی سے رشتہِ ازدواج میں وابستہ ہوگئیں اور جس کے بعد وہ ماہ پارہ صفدر کہلوانے لگیں اور 1990ء تک وہ بی بی سی اردو سروس میں کام کرنے کے لیے لندن منتقل ہوچکی تھیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر کا اعلان ہونا تھا تب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ یہ خبر پڑھ سکیں گی, چونکہ خبریں پڑھنا ان کا کام تھا اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری پیشہ ورانہ انداز میں سرانجام دی۔ تاہم وہ اس بات پر پریشان تھیں کہ 9 سال بعد جب جنرل ضیاالحق کا طیارہ گر کر تباہ ہوا تب پی ٹی وی کے اسٹوڈیوز میں موجود ہونے کے باوجود انہیں یہ خبر پڑھنے سے روک دیا گیاتھا۔

ماہ پارہ صفدر نے متعدد مشہور شخصیات اور سیاستدانوں کے انٹرویوز کیے۔ ان میں  گلوکار مہدی حسن, فریدہ خانم، بولی وڈ اداکار دلیپ کمار اور سیاست دان سردار اکبر بگٹی سمیت بے شمار معروف شخصیات شامل ہیں۔

ماہ پارہ صفدر نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور یونیورسٹی آف لندن سے وومنز اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی.

مہ پارہ صفدر نے اب تک متعدد ایوارڈ حاصل کیے ہیں جن میں پی ٹی وی ایوارڈ 1984ء، نگار ایوارڈ، بولان اکیڈمی ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں ۔

مہ پارہ صفدر کی کتاب ’میرا زمانہ میری کہانی‘ ان لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے جو 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے واقعات سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔ یہ کتاب نوجوان نسل کی رہنمائی بھی کرسکتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جو میڈیا میں اپنا نام کمانا چاہتے ہیں.

ٹیم صداِے پشاور انکی صحت و سلامتی کیلئے دعاگو ہے۔

Loading