**سورۂ النّجم — حصہ اوّل (آیات 1–18)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سورۂ النّجم قرآنِ مجید کی اُن عظیم اور بے مثال سورتوں میں سے ہے جن کا آغاز ہی کائنات کی گواہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی مخلوق کی قسم کھاتا ہے تو وہ چیز اپنی حقیقت سے کہیں بڑھ کر ایک نشانی، ایک دلیل، ایک دروازہ بن جاتی ہے—وہ دروازہ جو ہماری عام آنکھیں نہیں دیکھتیں، مگر دل کے دروازے کھل جائیں تو حقیقتیں خود چل کر انسان کے اندر اترنے لگتی ہیں۔
سورۂ النّجم کی پہلی آیت میں اللہ نے قسم کھائی *گرنے والے ستارے* کی۔
یہ قسم ایک عجیب راز رکھتی ہے۔ ستارے ہمیشہ ہی انسان کو حیران کرتے رہے، کبھی رہنمائی کے طور پر، کبھی تقدیر کے نشان کے طور پر، کبھی رات کی خاموشیوں میں روشنی کے چراغ بن کر۔ مگر *گرنے والا ستارہ*—یہ صرف روشنی کا ٹکڑا نہیں، یہ زوال کا اشارہ بھی ہے، اور اعلانِ حق کا آغاز بھی۔
اللہ گویا فرما رہا ہے: اے انسان! جس ستارے کو تم آسمان پر بے مثال دیکھتے ہو، وہ بھی گر جاتا ہے… تو تم کیسے یہ گمان کر سکتے ہو کہ کوئی جھوٹی بات ہمیشہ قائم رہے گی؟ ستارے بھی جھوٹ کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں، مگر حق ہمیشہ چمکتا ہے، ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
یہاں ایک باریک نکتہ ہے: گرنے والا ستارہ، حیرت، ہیبت، لرزش، ایک لمحہ…
اور پھر اس لمحے سے ایک نئی دنیا کھلتی ہے۔ اب اسی لمحے کو اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کی صداقت کے ساتھ جوڑ دیا—کہ جس طرح ستارہ گرنے کی حقیقت تم دیکھتے ہو، اسی طرح *محمد ﷺ کا پیغام بھی سچائی کا ٹوٹ کر چمکنے والا اعلان ہے۔*
یہاں سے دوسری آیت دل کو پکڑ لیتی ہے: **”تمہارا ساتھی نہ راہ سے بھٹکا ہے، نہ بےراہ چلا ہے۔”** *ساتھی*—کیا خوب لفظ ہے! اللہ نے اپنے نبی کو “رسول”، “نبی”، “بندہ” یا کسی اور بلند منصب کے لفظ سے نہیں پکارا، بلکہ *تمہارا ساتھی* کہا۔ ساتھی یعنی وہ جو تم میں رہا، تمہارے ساتھ چلا، تمہارے سامنے جوان ہوا، تمہارے درمیان رہا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ نبوت کوئی اجنبی آسمانی آواز نہیں تھی، بلکہ وہ روشنی تھی جو قریش کی گلیوں میں خود ان کے سامنے چلتی رہی، مگر وہ اسے دیکھ نہ سکے۔
پھر اگلی آیت: **”اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔”** یہ وہ بنیاد ہے جس پر وحی کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ خواہش کا تابع نہیں، خواہش کو تابع بنانے والے ہیں۔ دنیا والے اپنی خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں، مگر اللہ کے رسول وہ ہستیاں ہیں جن کی خواہشیں بھی اللہ کے حکم میں فنا ہو چکی ہوتی ہیں۔ یہاں اللہ نے انسان کو یہ بھی سمجھایا کہ حق خواہش سے نہیں نکلتا، وحی سے نکلتا ہے۔ خواہشیں بدلتی ہیں، پھسلتی ہیں، بہکا دیتی ہیں—لیکن وحی قائم، روشن، اٹل، اور آسمانی ہوتی ہے۔
پھر فرمایا گیا: **”یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔”** گویا اللہ کہہ رہا ہے کہ اے انسان! تو گمان کرتا ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ کا کلام ہے؟ نہیں! یہ وہ کلام ہے جس کا ہر حرف، ہر سانس، ہر آہٹ آسمانوں کے خزانے سے اترتا ہے۔ یہ زمین کا پیغام نہیں—یہ آسمان کا فرمان ہے۔
اب وہاں سے ایک عظیم منظر شروع ہوتا ہے— **جبرائیلِ امین کا ظہور۔** قرآن کہتا ہے: **”اسے سکھایا ہے ایک بڑی قوت والے نے… جو خوب طاقتور ہے، کامل قدرت رکھتا ہے، پھر وہ اپنے اصلی مقام پر کھڑا ہوا۔”** *بڑی قوت والا*—یعنی جبرائیل۔ ایک ایسا نورانی وجود جسے اللہ نے عظمت، طاقت، بلندی اور کمند جیسی قوت عطا فرمائی۔
جبرائیل کا کام صرف پیغام لانا نہیں بلکہ وہ آسمانی سلطنت کے عظیم فرشتوں میں سے ہے۔ اسے دیکھتے ہی پہاڑ لرز جائیں، آسمان جھک جائے، انسان کی بینائی ختم ہو جائے، مگر وہ نبیٔ کریم ﷺ کے سامنے عاجزی سے کھڑا ہوتا ہے—یہ رسول کی عظمت ہے۔ پھر قرآن بتاتا ہے کہ نبی ﷺ نے جبرائیل کو *افقِ اعلیٰ* پر دیکھا۔ افقِ اعلیٰ وہ کائناتی کنارہ نہیں جسے ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں، بلکہ وہ ایسی حد ہے جو مادی اور روحانی دنیاؤں کے بیچ روشن پردہ ہے۔
وہاں نور کے سمندر بہتے ہیں، روشنی کی لہریں چلتی ہیں، اور فرشتے اللہ کے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ اب سورۂ النّجم ایک ایسا منظر بیان کرتی ہے جس میں انسان کا دل کانپ جاتا ہے— **”پھر وہ قریب آیا، پھر اور قریب…”** یہ قربِ جبرائیل ہے، مگر ساتھ ساتھ یہ قربِ وحی بھی ہے۔ یہ صرف دونوں ہستیوں کے جسمانی قریب آنے کا ذکر نہیں بلکہ یہ دو عوالم کے قریب آنے کا لمحہ ہے— آسمان کا پیغام زمین کے سینے سے جا ملتا ہے۔ پھر ایک جملہ آتا ہے جو دل کو ہلا دیتا ہے: **”فکان قاب قوسین او ادنیٰ”** یعنی دو کمانوں کے برابر، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب۔ یہ لفظی قرب نہیں، یہ روحانی قرب ہے— یہ وہ قرب ہے جس میں فاصلہ رہ ہی نہیں جاتا، صرف نور باقی رہ جاتا ہے۔
پھر وحی کا نزول ہوا۔ قرآن کہتا ہے: **”دل نے اس کی تکذیب نہیں کی جو اس نے دیکھا.”** یہاں اللہ رسول کے دل کی گواہی دے رہا ہے— دل جھوٹ نہیں بولتا، دل دھوکا نہیں کھاتا، دل روشن ہو جائے تو اس کے سامنے کوئی پردہ باقی نہیں رہتا۔
نبی ﷺ نے جو دیکھا، وہ حقیقت تھی، وہ خواب نہیں تھا، خیال نہیں تھا، وہ معراج کی روشنی کا پہلا جلوہ تھا۔ اس کے بعد سورہ ایک اور عظیم مقام کا ذکر کرتی ہے: **سدرة المنتہیٰ** یہ وہ حد ہے جہاں فرشتے بھی قیام نہیں کرتے، جہاں جبریل بھی رک جاتے ہیں، جہاں مخلوقات کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے صرف رسولِ اکرم ﷺ کو جانے دیا گیا۔ سدرة المنتہیٰ کا منظر قرآن بیان کرتا ہے کہ: **”جب اسے نور نے ڈھانپ لیا جو ڈھانپ لینے والا تھا.”** وہ نور کوئی عام نور نہیں—وہ وہی نور ہے جس کی ایک تجلی نے کوہِ طور کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ وہ نور جب سدرة المنتہیٰ پر چھایا تو سب کچھ سجدے میں گر گیا، سب کچھ خاموش ہو گیا، صرف نور اور بندگی باقی رہی۔
اور پھر ایک فیصلہ کن جملہ آتا ہے: **”نہ نگاہ بہکی، نہ حد سے بڑھی.”** یہ رسول ﷺ کی عظمت ہے کہ اس غیرمعمولی، ناقابلِ بیان، ناقابلِ برداشت منظر میں بھی آپ کی نگاہ میں اضطراب نہیں تھا۔ انسان جتنی بڑی سچائی دیکھتا ہے، اس کی سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں— مگر محمد ﷺ نے جو دیکھا، اسے سنبھال لیا۔ یہی وہ قربِ الٰہی ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آخر میں فرمایا: **”بیشک انہوں نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ لیں.”** یہ صرف معراج نہیں، یہ حقیقت کا وہ دروازہ ہے جو صرف رسول کے لیے کھولا گیا۔ یہاں انسانیت کو بتایا گیا کہ نبی ﷺ کوئی معمولی انسان نہیں، کوئی شاعر، کوئی کاہن، کوئی خطیب نہیں— بلکہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے وہ دیکھا ہے جو کائنات میں کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔
**سورۂ النّجم — حصہ دوّم (آیات 19–32)
تفصیلی، روحانی، علامتی، تفسیرانہ بیان
سورۂ النّجم کا حصہ دوّم وہ مقام ہے جہاں کائنات کی بلند روحانی بلندیوں سے گفتگو اچانک زمین پر اترتی ہے۔ پہلے حصے میں وحی، معراج، جبرائیل، نور، قربِ الٰہی اور سدرة المنتہیٰ کے دئیے گئے مناظر انسان کو حیرت میں ڈالتے ہیں۔ وہ حصہ آسمانی تھا، نورانی تھا، روحانی تھا۔ مگر اب قرآن اچانک بات بدل دیتا ہے۔ اللہ گویا کہتا ہے: اے انسان! تو آسمانوں کی باتیں سن کر حیران ہوتا ہے، لیکن کیا تو نے کبھی اپنے معاشرے کے جھوٹے خداؤں کو دیکھا ہے؟ کیا تو نے کبھی سوچا کہ یہ پتھر، یہ نام، یہ رسمیں، یہ وہم—کسی حقیقت پر قائم ہیں؟ یا یہ صرف وہ سایے ہیں جنہیں تم نے اپنے خوف اور خواہش سے بنایا ہے؟
یہاں سے سورۂ النّجم انتہائی شدت کے ساتھ تین بتوں کا نام لیتی ہے—جو قریش کے بڑے معبود تھے: **لات، عُزّیٰ، اور مناة۔** یہ تینوں بت عرب کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ یہ مذہبی بھی تھے، سیاسی بھی، معاشرتی بھی، قبیلائی بھی۔ ان بتوں نے لوگوں کی ذہنیت، رسم و رواج، فیصلوں، خون، تجارت، سب پر گرفت رکھی ہوئی تھی۔
**آیات 19–20: لات، عزّیٰ اور مناة کا اعلان**
قرآن سوال کرتا ہے: *“کیا تم نے لات اور عزّیٰ کو دیکھا؟ اور مناة کو جو تیسرا ہے؟”* یہ سوال نہیں، چیلنج ہے۔ یہ صرف “دیکھا” نہیں— بلکہ “کیا تم نے غور کیا؟ سمجھا؟ سوچا؟ پرکھا؟” یہاں قرآن انسان کی عقل کو جھنجھوڑتا ہے: تم آسمانوں کی حقیقت پر شک کرتے ہو، مگر زمین کے پتھروں کو خدا مان لیتے ہو؟ تم محمد ﷺ کی تعلیم کو وہم سمجھتے ہو، مگر اپنے ہاتھوں تراشے ہوئے پتھروں میں تقدیر کا راز ڈھونڈتے ہو؟
لات کا بت طائف میں تھا—ایک عوامی مرکز، عورتوں کا لگاؤ، رواج کا دباؤ۔ عزّیٰ کا بت مکہ اور نخلة کے بیچ تھا—ایک طاقت کا مرکز، سرداروں کا غرور۔ مناة کا بت مدینہ کے قریب—قبیلائی سیاست کا نشان۔ اللہ ان تینوں کے ذکر سے انسان کو بتانا چاہتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے خوف اور خواہش کے بیچ نیا خدا تراشتا ہے۔ لات—خواہشوں کا محور۔ عزّیٰ—طاقت کی علامت۔ مناة—قسمت اور تقدیر کا خوف۔ آج بھی انسان یہی تین بت پوجتا ہے—خواہش کا، طاقت کا، اور تقدیر کے وہم کا… بس شکلیں بدل گئی ہیں۔
**آیات 21–22: مرد تمہارے لیے، بیٹیاں اللہ کے لیے؟**
اب قرآن ایک عجیب نکتہ اٹھاتا ہے— بالکل طنز کے انداز میں: *“کیا تمہارے لیے بیٹے، اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی ناہمواری کی تقسیم ہے۔”* یہ جملہ کسی فلسفیانہ دلیل سے زیادہ قریش کے رویّوں کا ایک آئینہ ہے۔ وہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے تھے— اور اللہ کے لیے بیٹیاں مان لیتے تھے! یہ دوہرا معیار قرآن کہتا ہے کہ عقل کو دھتکارنے کے برابر ہے۔
یہاں قرآن انسان کو اس کی اپنی ہی سوچ سے پکڑتا ہے: تم بے انصافی کرتے ہو، پھر دلیل چاہتے ہو! تم خواہش کی بنیاد پر خدا تراشتے ہو، پھر دلیل مانگتے ہو! تم جذبات سے فیصلے کرتے ہو، پھر عقل کی طلب رکھتے ہو!
**آیات 23–24: یہ نام تم نے گھڑ لیے ہیں**
اب قرآن اصل حقیقت کھول دیتا ہے: *“یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری۔”* یہ جملہ ایک ایسا چراغ ہے جو آج تک ہر باطل کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ نام بناتا ہے: تہذیب کا نام، ثقافت کا نام، سیاست کا نام، ترقی کا نام، روایت کا نام— اور پھر انہی ناموں کو مقدس بنا کر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: یہ سب نام ہیں! یہ سب وہمی دیواریں ہیں! ان کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں، کوئی دلیل نہیں۔ پھر فرمایا: *“وہ لوگ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔”*
یہاں قرآن انسان کی ساری ذہنی بیماری کا علاج بتا دیتا ہے— انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کا **گمان** ہے، اور اس کی سب سے بڑی جیل **خواہش** ہے۔ گمان عقل کو دھندلا دیتا ہے، خواہش روح کو قیدی بنا دیتی ہے۔
**آیات 25–26: آخرت اللہ کے ہاتھ میں ہے**
اب ایک نیا رخ— قرآن کہتا ہے: *“آخرت اور دنیا اللہ ہی کی ملکیت ہے۔”* یعنی تمہاری مرضیاں، تمہارے بت، تمہاری دعائیں، تمہارے وہم— یہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے۔
زیادہ سے زیادہ ایک نام، ایک کہانی، ایک رسم… مگر نہ رزق دے سکتے ہیں، نہ عزت، نہ حفاظت، نہ زندگی، نہ موت۔ پھر آسمان کی ایک حقیقت بیان ہوتی ہے— فرشتوں کا ذکر۔ فرشتے، جو نور کے بنے ہیں، جو قواں رکھتے ہیں، جو آسمانوں کی حفاظت کرتے ہیں… قرآن کہتا ہے: *“آسمان میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی، مگر اللہ جس کے لیے چاہے اور جس سے راضی ہو اس کی سفارش قبول کرتا ہے۔”* یہاں انسان کے اعتماد کو توڑا جا رہا ہے۔ قریش فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے— اور سمجھتے تھے کہ یہ انہیں فائدہ پہنچائیں گی۔
قرآن کہتا ہے: کوئی فرشتہ، کوئی بزرگ، کوئی ولی، کوئی بت— کچھ نہیں کر سکتا…
جب تک اللہ خود نہ چاہے۔ یہاں توحید کی بنیاد ہلکی نہیں کی گئی—بلکہ پتھر کی طرح مضبوط رکھی گئی۔
**آیات 27–30: قیامت کا انکار کرنے والوں کی نفسیات**
اب سورہ ایک نئی بات کرتی ہے: *“جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ فرشتوں کے لیے عورتوں کے نام رکھتے ہیں.”* یعنی وہی لوگ جو آخرت سے بے فکر ہیں، وہ دنیا میں اپنے بنائے ہوئے خداؤں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ یہ آیت انسان کی نفسیات کھول دیتی ہے:
جس کے دل میں آخرت نہ ہو، وہ دنیا میں ہر جھوٹ کو سچ بنا لیتا ہے۔ پھر ایک بڑی حقیقت— *“وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، حالانکہ گمان حق کے مقابلے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا.”* یہ آیت آج کی دنیا پر بھی صادق آتی ہے: گمان کی دنیا—
رائے کی دنیا— وہم کی دنیا— جعلی خبروں کی دنیا— اندرونی ڈر کی دنیا— خواہش کے فیصلوں کی دنیا۔ پھر ایک فیصلہ: *“پس تم ان سے منہ پھیر لو جو ہماری یاد سے روگردانی کرتے ہیں اور دنیا ہی کی زندگی کے طالب ہیں.”* یہ بات نبی ﷺ کو نہیں، ہر انسان کو سکھائی جا رہی ہے: اے انسان! اگر کوئی شخص حقیقت سے بھاگتا ہے، اگر کوئی دل گمان کا اسیر ہے، اگر کوئی دنیا کی رنگینی میں مست ہے— تو اس کے پیچھے مت جا۔ اسے چھوڑ دو۔ اسے وقت سمجھائے گا، نصیحت نہیں۔
**آیات 31–32: اللہ کی قدرت، علم، معافی، اور بڑے گناہوں سے بچنے والوں کا ذکر**
یہاں سورہ اپنے حصہ دوّم کا اختتام ایک عظیم حقیقت سے کرتی ہے: *“آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ ہی کی ہے—تاکہ وہ برے کاموں والوں کو بدلہ دے، اور نیکی کرنے والوں کو بہترین جزا عطا فرمائے.”* یہاں اللہ عدل اور رحمت کا توازن بیان کرتا ہے— دنیا ظلم کو سہتی ہے، انسان ظلم کو بھول جاتا ہے، مگر اللہ نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہے۔ پھر اللہ ایسے لوگوں کا ذکر کرتا ہے: *“جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں، مگر چھوٹی لغزشوں کے بغیر…”* یہاں اللہ انسان کو معاف کر رہا ہے— کہ چھوٹی غلطیاں فطرت ہیں، بڑے گناہ مرض ہیں۔ چھوٹی لغزشیں انسان کی کمزوریاں ہیں، بڑے گناہ دل کی بیماری ہیں۔ مزید فرمایا: *“بیشک تمہارا رب بہت وسیع معافی والا ہے، تمہیں خوب جانتا ہے جب وہ تمہیں مٹی سے پیدا کر رہا تھا، اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے.”*
یہ آیت انسان کو اس کی اصل دکھاتی ہے— کہ اللہ ہمیں اس وقت بھی جانتا تھا جب کوئی ہمیں جانتا ہی نہیں تھا۔ جب ہم مٹی کے ذرات میں گم تھے، جب ہم ایک ننھا سا وجود تھے،
جب ہماری آنکھیں نہیں تھیں، ہاتھ نہیں تھے، دل نہیں تھا— تب بھی اللہ ہمارے حال سے پوری طرح آگاہ تھا۔ پھر سب سے اہم حصہ: *“پس تم اپنے آپ کو پاکیزہ مت جتاؤ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے.”* یہ آیت بدن کو کانپ دیتی ہے۔ پاکیزگی دکھانے کی بیماری— ظاہری دینداری— نمائش— ریاکاری— سب ایک لمحے میں بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ اللہ کہتا ہے: اپنی پاکیزگی کی خود تعریف نہ کرو، تمہاری حقیقت اللہ جانتا ہے، تمہارا دل اُس کے سامنے کھلا ہے، تمہاری نیت اُس سے چھپی نہیں۔ انسان دوسروں کے سامنے نیک دکھ سکتا ہے، لیکن اللہ کے سامنے اپنی اصل حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔
**سورہ النّجم — حصّہ سوّم** *(آیات 31 تا 62)*
سورہ النّجم کا آخری حصہ دراصل انسان کی پوری روحانی کائنات کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ یہاں محض جزا و سزا کا ذکر نہیں، بلکہ وہ پورا باطنی نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں انسان کی نیت، ارادہ، کوشش، گناہ، بخشش، غرور، عاجزی، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اشاروں کی طرح کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس حصّے میں اللہ تعالیٰ انسان کو بتاتا ہے کہ *زندگی صرف ظاہری شکل کا نام نہیں، بلکہ ہر دل میں چلنے والا راز، ہر قدم کے پیچھے چھپی نیت، ہر سوچ کے اندر چھپا اندھیرا اور روشنی—سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور اسی بنیاد پر انسان کا انجام طے ہوتا ہے۔*
یہ حصہ انسان کو اس یقین تک لے جاتا ہے کہ کوئی عمل ضائع نہیں جاتا اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی بھلائی بھی بے قیمت نہیں ہوتی۔
**آیات 31–32: جزا و سزا کا قانون، عدلِ الٰہی کی مکمل تصویر**
یہ آیات انسان کو بتاتی ہیں کہ:
* اللہ ہی کے پاس *آخرت اور دنیا* دونوں کا اختیار ہے
* ہر عمل کا بدلہ ملے گا
* کسی پر ظلم نہیں ہوگا
* اور سب سے بڑھ کر: *انسان وہی پائے گا جو اُس نے کوشش کی*
یہاں ایک بنیادی روحانی راز کھلتا ہے: کائنات میں کوشش ہی اصل کرنسی ہے۔ انسان کی نیت، اس کی محنت، اس کی خواہش، اس کا سفر—سب مل کر اس کی تقدیر کا راستہ چنتے ہیں۔ یہ بات سورہ کے پہلے حصوں سے خوب جڑتی ہے، جہاں اللہ نے بتایا کہ وحی سچی ہے، نبی ﷺ گمراہ نہیں، ستاروں کی قسمیں اس شہادت پر ہیں کہ کائنات کا ہر ذرّہ اللہ کے حکم میں ہے۔ اب یہاں، دنیاوی اعمال اور باطنی ارادوں کا تعلق بتا کر ایک مکمل دائرہ بند کر دیا گیا۔
**نیت کا وزن، عمل کا رنگ**
انسان بعض عمل ایسے کرتا ہے جنہیں وہ بڑا سمجھتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ معمولی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جڑ کھوکھلی ہوتی ہے۔ اور کبھی وہ چھوٹا سا عمل کرتا ہے—کسی غریب کو نظر بھر کر دیکھ لینا، کسی کو برا بھلا نہ کہنا، دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز کر دینا، کسی کے لئے دل میں اچھی دعا رکھ لینا—اور یہی معمولی سا عمل اللہ کے ہاں پہاڑ بن جاتا ہے۔ یہاں انسان کو جھنجھوڑتے ہوئے بتایا گیا کہ: “جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے رہتے ہیں، ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشیں اللہ بخش دیتا ہے…”
یہ دین کی روحانی نفسیات ہے: انسان سے *کامل فرشتہ بننے* کا تقاضا **نہیں** کیا گیا، بلکہ *باطنی سمت درست رکھنے* کا۔
**آیات 33–35: اُس انسان کی تصویر جو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ بیٹھتا ہے**
یہ آیات فطرتِ انسانی کے ایک انتہائی خطرناک پہلو کو بیان کرتی ہیں: **خود پسندی**۔
جب انسان دنیا کی تھوڑی سی آسائش پا لیتا ہے، تھوڑی سی طاقت، تھوڑی سی دولت، تھوڑا سا علم—تو وہ خود کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ اسے لگنے لگتا ہے کہ اُس کے فیصلے ہی سچ ہیں، اس کی خواہشات ہی حق ہیں، اور اسے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا دائمی زوال شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو پیٹھ پھیر گیا، تھوڑا سا دیا اور پھر روک لیا؟” یہاں اس شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے:
* ایک لمحہ نیکی کی طرف قدم بڑھایا
* مگر پھر رُک گیا
* اپنے آپ کو دھوکہ دیا
* اور یہ سمجھ لیا کہ اب وہ کافی ہے
یہ روحانی کمزوری آج کی دنیا میں بھی سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ انسان چند اچھے اعمال کر کے سمجھ لیتا ہے کہ وہ *نیکی کے اعلیٰ مقام* تک پہنچ چکا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ نیکی ایک *مسلسل سفر* ہے—جس کی بنیاد عاجزی پر ہے۔
**آیات 36–42: حضرت ابراہیمؑ کی صحیفے، اور انسان کے سفر کا ابدی قانون**
یہاں اللہ نے پرانی کتابوں اور حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا، خصوصاً *صحفِ ابراہیمؑ* کی طرف۔ اس حصّے میں وہ عظیم اصول بیان کیے گئے جن پر ہر نبی نے دعوت دی، ہر وحی نے زور دیا، اور ہر قوم کی نجات اسی پر منحصر رہی:
-
**کوئی بوجھ اٹھانے والا، کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا**
-
**انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی**
-
**اور اس کی کوشش دیکھی بھی جائے گی**
-
**پھر اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا**
-
**اور سب کچھ اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے**
یہ پانچ اصول دراصل *روحانی میکانکس* کی بنیاد ہیں—کائناتی قانون۔ یہ نہ بدلتے ہیں، نہ قوموں کے بدلنے سے بدلتے ہیں، نہ وقت کے گزرنے سے۔
**وجدان: کوشش ہی تقدیر ہے**
یہاں انسان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اصل تقدیر اُس کی *محنت* ہے۔ جو راستہ وہ چنتا ہے، جو نیت وہ بُن لیتا ہے، جو سفر وہ اختیار کرتا ہے—وہی اس کی تکمیل، اس کی کہانی، اس کا انجام بنتا ہے۔ دنیا کے نظام میں ایک اصول ہے: *محنت کا نتیجہ اکثر دنیا میں نظر نہیں آتا۔* مگر اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے نظام میں کوئی کوشش چھپ نہیں سکتی۔ یہاں انسان کے لئے تسلی بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔
**آیات 43–49: سب کچھ اللہ کے قبضے میں ہے — موت و حیات، رزق و بھوک، ہدایت و گمراہی**
یہ آیات انسان کو کائنات کے راز سکھاتی ہیں:
* ہنسانا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے
* رُلانا بھی
* موت بھی وہی دیتا ہے
* زندگی بھی وہی
* دولت بھی وہی دیتا ہے
* اور محرومی بھی اسی کے اختیار میں
یہاں اللہ نے *شِعراء اور فلاسفہ کے تمام فلسفوں کو ایک جملے میں سمیٹ دیا*: **کائنات کا اصل مالک اللہ ہے۔**
یہ آیات انسانی غرور کو جڑ سے کاٹ دیتی ہیں۔
**زندگی کا اصل محرّک**
انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں سے سب کچھ حاصل کر لے گا۔ مگر یہ آیات اسے بتاتی ہیں کہ:
* رزق کا دروازہ اُسی کے حکم سے کھلتا ہے
* کامیابی اُسی کے اذن سے نصیب ہوتی ہے
* اور دل کا سکون بھی اُسی کی طرف سے ملتا ہے
یہاں *روحانی حقیقت* سامنے آتی ہے: انسان کی محنت اُس کے لئے بنیاد ہے، مگر نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
**آیات 50–55: قومِ نوح، عاد، ثمود، لوط—تاریخ کے گم ہوتے سبق**
یہ آیات ماضی کی قوموں کا ذکر نہیں—بلکہ انسان کو آئینہ دکھاتی ہیں۔
قومِ نوح نے غرور کیا قومِ عاد نے طاقت پر گھمنڈ کیا قومِ ثمود نے اپنی انجینئرنگ پر فخر کیا قومِ لوط نے اخلاقی حدود توڑ دیں
ہر قوم نے اپنے اندر ایک ایسی *کالی لکیر* کھینچ لی جس نے انہیں تباہی میں دھکیل دیا۔
اور انسان آج بھی انہی راستوں پر چل رہا ہے۔ یہ آیات دنیا کی ظاہری ترقی کو نہیں، *انسان کی باطنی تباہی* کو سمجھاتی ہیں۔
**آیت 56: انسان کی تخلیق کا مقصد — عبادت**
اللہ فرماتا ہے: **“اور میں نے جنّ و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.”**
یہ ایک ایسا روحانی دروازہ ہے جسے کھول کر انسان پوری کائنات کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے۔
عبادت کیا ہے؟
* یہ صرف نماز نہیں
* صرف روزہ نہیں
* صرف تسبیح نہیں
* عبادت *زندگی کے ہر لمحے* کی سمت کا نام ہے
* اللہ کے حکم کو سب سے اوپر رکھ کر چلنے کا نام
* اپنے دل کو اس کی طرف موڑنے کا نام
* دنیا کے دھوکے کو پہچان کر اس سے اوپر اٹھنے کا نام
یہ آیت انسان کی پوری زندگی کو ایک لکیریں دیتی ہے: اگر مقصد عبادت ہے، تو ہر چیز—علم، رزق، تعلقات، جذبات، فورسز، شہر، عمارتیں—سب اسی مقصد کے تحت معنی رکھتے ہیں۔
**آیات 57–62: قیامت کی تنبیہ، آخری جھٹکا، اور سجدے کا حکم**
یہ حصہ قیامت کی تصویر کھینچ کر انسان کو آخری بار جھنجھوڑ دیتا ہے: “قیامت اب بہت قریب آ گئی ہے، کوئی روکنے والا نہیں…” یہاں جملہ ایسا ہے جیسے اچانک کسی کے دل پر پتھر رکھ دیا جائے۔ انسان اپنی ساری دوڑ دھوپ، لالچ، خواہشیں، لڑائیاں—ایک لمحے میں بے معنی محسوس کرنے لگتا ہے۔
**آخری جملہ:**
“پس اللہ کی طرف جھک جاؤ اور سجدہ کرو۔” یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں انسان کو براہِ راست، بغیر کسی واسطے، حکم دیا گیا کہ فوراً سجدہ کرو۔ اس کا مطلب ہے:
* انسان کی حقیقت، اس کا غرور، اس کی طاقت، اس کا سفر—سب کا آخری مقام سجدہ ہے
* سجدہ انسان کی اصل پہچان ہے
* یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اللہ کے سب سے قریب ہو جاتا ہے
یہاں پوری سورہ اپنے عروج پر پہنچ کر مکمل ہو جاتی ہے—وحی کی صداقت، تاریخ کے سبق، انسان کی کوشش، اس کی عاجزی، اللہ کی طاقت، اور قیامت کی حقیقت—سب ایک سجدے میں سمٹ جاتے ہیں۔
![]()

