Daily Roshni News

**🌙 سورۃ الطُّور — حصہ اوّل (آیات 1 تا 28)

**🌙 سورۃ الطُّور — حصہ اوّل (آیات 1 تا 28)
گہرائی، روحانیت، تفسیر، جمالیات اور خوفِ آخرت کا ایک مسلسل دریا**

سورۃ الطُّور کی ابتدا ایسی عظیم قسموں سے ہوتی ہے جو انسان کی روح کو لرزا دیتی ہیں، سوچ کو جھنجھوڑ دیتی ہیں، اور اس کے اندر بسنے والے غرور، غفلت، خود اعتمادی اور خود ساختہ نظریات کی دیواروں کو ہلا دیتی ہیں۔ یہ سورہ کائنات کی گہرائیوں سے بات کرتی ہے۔ یہ پہاڑوں کے سینوں سے ابھرتی، آسمانوں کی وسعتوں میں گونجتی، سمندروں کی تہوں سے اٹھتی ہوئی، اور ازل سے جاری دن رات کے نظام میں رنگی ہوئی آیات کا تسلسل ہے، جو انسان کو اس کے آغاز اور انجام کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہیں۔
حصہ اوّل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی حقیقت یاد دلانے کے لیے چند ایسی قسمیں اٹھائیں جن کے مفہوم کو سمجھنا خود ایک روحانی تجربہ ہے۔ ان قسموں کا مقصد انسان کے اندر ایمان کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے، تاکہ وہ جان لے کہ اسے پیدا کرنے والا، اس کا حساب لینے والا، اور اس کی زندگی کی ہر دھڑکن پر قادر ایک ایسا رب ہے جس کے فیصلے اٹل ہیں۔ یہ فیصلہ چاہے رحمت ہو یا عذاب — دونوں اس کے حکم سے قائم ہیں۔

🌙 اوّل: طور پہاڑ کی قسم — عظمت کا اعلان**
“طور” کی قسم وہی پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ وہ جگہ جہاں اللہ کی تجلی نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا، اور موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو کر گر پڑے۔ یہ پہاڑ کائنات میں ایک مقام نہیں، بلکہ ایک علامت ہے — اللہ کے جلال کی علامت، اس کی گفتگو کی علامت، نبوت کے آغاز اور وحی کے نزول کی علامت۔ طور کا نام سنتے ہی ایک انسان محسوس کرتا ہے کہ کوئی عظیم راز کھلنے والا ہے۔ جب اللہ اس پہاڑ کی قسم کھاتا ہے تو وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ نظام جس پر یہ کائنات قائم ہے، وہ کسی انسانی فلسفے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک ایسی قدرت کے ارادے کا نتیجہ ہے جو نہ دکھائی دیتی ہے، نہ سمجھ میں آتی ہے، مگر ہر چیز پر حاوی ہے۔
یہ پہاڑ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ نبیوں کا راستہ ہمیشہ اللہ کے جلال کے سامنے جھکنے کا راستہ رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے دل کے سارے پردے ہٹا کر اللہ کی عظمت کے آگے سر جھکایا تھا۔ یہی پیغام اس سورہ کے آغاز میں چھپا ہوا ہے — *جو اللہ کے جلال کو نہ پہچان سکے، وہ کبھی اس کائنات کے راز کو نہیں سمجھ سکتا۔*

🌙 دوم: لکھی ہوئی کتاب کی قسم — تقدیر کا اٹل نظام**
اگلی قسم “لکھی ہوئی کتاب” کی ہے — وہ کتاب جو کھولی ہوئی ہے، محفوظ ہے، اور جس میں ہر چیز درج ہے۔ یہ کتاب صرف تقدیر کی نہیں، بلکہ کائنات کے تمام نظام کی تحریری شکل ہے۔ اس میں ہر روح کی ابتدا، ہر سانس کا شمار، ہر لمحے کا حساب، ہر عمل کی حقیقت اور ہر انسان کی آخری منزل لکھی ہوئی ہے۔ یہ کتاب انسان کو بتاتی ہے کہ کوئی حادثہ حادثہ نہیں ہوتا۔ کوئی آزمائش بلا مقصد نہیں آتی۔ کوئی رزق وقت سے پہلے یا بعد میں نہیں پہنچتا۔ کوئی موت اپنے لمحہ سے دیر یا جلدی نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہوتا ہے، اس کتاب میں لکھا جاتا ہے — اور جو لکھا جاتا ہے، وہ ضرور ہوتا ہے۔ یہی یقین ایمان کا مرکز ہے۔
انسان جب اس حقیقت کو مان لیتا ہے کہ اس کی زندگی کسی بے مقصد سفر کا نام نہیں، بلکہ ایک تحریر ہے، تو اس کے دل سے گھبراہٹ ختم ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر دکھ، ہر تکلیف، ہر نعمت، ہر خوشی سب کا ایک مقام ہے، ایک وجہ ہے، ایک انجام ہے۔
اسی تحریر کی شہادت سورہ الطور کے آغاز میں دی جا رہی ہے، تاکہ انسان سمجھ سکے کہ وہ کسی بے نظام دنیا میں نہیں جی رہا۔

🌙 سوم: بلند آسمان کی قسم — وسعتوں کا رب**

“بلند آسمان” کی قسم ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر شخص روز دیکھتا ہے مگر سمجھتا نہیں۔ آسمان کا پھیلاؤ، اس کی بلندی، اس کی خاموشی، اس کا قائم رہنا — سب اللہ کی قدرت کے نشان ہیں۔ انسان اپنی پوری تاریخ میں نہ اس کا آغاز جان سکا، نہ انجام۔ نہ اس کی دیواروں کو چھو سکا، نہ اس کے اندر پنہاں آگ کے سمندر کو سمجھ سکا۔ آسمان کی خاموشی انسان کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کے اوپر کوئی عظیم قوت موجود ہے جو اسے تھامے ہوئے ہے۔
اگر اللہ ایک لمحہ کے لیے اس آسمان کو ڈھیلا چھوڑ دے تو یہ چھت ٹوٹ کر زمین کو جلا کر راکھ کر دے، مگر ایسا نہیں ہوتا — یہ سب اس کے حکم سے قائم ہے۔ آسمان کا قائم رہنا قرآن کا ایک بار بار دہرایا جانے والا نشان ہے — جو دل کھول کر غور کرے، وہ ایمان کی روشنی سے بھر جاتا ہے۔

🌙 چہارم: بھری ہوئی سمندر کی قسم — ہلاکت اور زندگی کا راز**
اللہ نے “بھرا ہوا سمندر” کی قسم کھائی۔ یہ صرف پانی کا مجموعہ نہیں— یہ کائنات کا سب سے بڑا راز ہے۔
سمندر خود ایک کتاب ہے۔ اس کی تہوں میں وہ راز ہیں جنہیں انسان قیامت تک مکمل نہیں سمجھ سکتا۔ سمندر زمین کے آدھے سے زیادہ حصّے کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ یہ دھرتی کو متوازن رکھتا ہے، ہوا کو زندہ رکھتا ہے، بادلوں کو اٹھاتا ہے، بارشیں برساتا ہے، زندگی اور موت کا نظام چلاتا ہے۔ سمندر ایک لمحے میں رحمت ہے، اور اگلے لمحے ہلاکت۔ اللہ نے اس کی قسم کھا کر یہ بتایا کہ کائنات کے ہر بڑے عنصر میں اس کی قدرت کی گواہی چھپی ہوئی ہے۔ یہی سمندر جب غضب میں آئے تو پوری قوموں کو نگل لیتا ہے — اور جب رحمت میں ہو تو زندگی کے لاکھوں نظاموں کو سہارا دیتا ہے۔

🌙 پانچویں قسم — عذاب کا آنا لازمی حقیقت**
ان قسموں کے بعد اللہ اعلان کرتا ہے: **“تم پر جو عذاب آنا ہے، وہ اتر کر رہے گا۔
کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی۔”** یہاں “عذاب” کا لفظ صرف قیامت کا نہیں،
دنیا میں آنے والی ہر آزمائش، ہر انتقام، ہر اجتماعی پکڑ بھی اسی میں داخل ہے۔ یہ اعلان انسان کو بتاتا ہے کہ:
کوئی قوم ظلم کرے تو پکڑی جاتی ہے۔ کوئی قوم نبوت کا مذاق اڑائے تو تباہ ہوتی ہے۔
کوئی قوم حق کو جھٹلائے تو تباہی قریب آ جاتی ہے۔ یہ فیصلے اللہ کی کتاب میں پہلے ہی لکھے جا چکے ہوتے ہیں۔

🌙 قیامت کا منظر — آسمان کا لرزنا، پہاڑوں کا چلنا**
یہاں سورہ الطور انسان کی آنکھوں کے سامنے قیامت کے مناظر کھول دیتی ہے۔ آسمان لرزے گا، پہاڑ چلیں گے، زمین ہل جائے گی، کائنات کی ہر چیز بدل جائے گی۔ ان آیات میں قیامت کی حقیقت ایک منظر کی طرح کھولی جاتی ہے — جیسے کوئی پردہ ہٹایا جا رہا ہو، جیسے کوئی فلم نہیں بلکہ حقیقت آنکھوں کے سامنے کھل رہی ہو۔ یہ مناظر انسان کے اندر خوف پیدا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسے جھنجھوڑنے کے لیے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا راستہ درست کرے۔

🌙 منکروں کا انجام — حسرت، ذلت، پکار، مگر کوئی جواب نہیں**
قیامت کا ذکر آتے ہی سورہ سیدھا ان لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جنہوں نے دنیا میں جھٹلایا، مذاق بنایا، انکار کیا، تکبر کیا، ضد کی، اور آخرت کو کہانی سمجھا۔ ان کے لیے پہلا جملہ ہی کافی ہے: **“اس دن ان کے لیے تباہی ہے جنہوں نے جھٹلایا۔”** یہ لوگ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے، ان کے چہروں پر خوف ہوگا، دل کانپ رہے ہوں گے، اور ملا فرشتے ان کو کہیں گے: **“یہ ہے وہ چیز جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔
دیکھ لو، اب تمہارے پاس کوئی پناہ نہیں۔”** انسان کے لیے سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ جس چیز پر ہنستا تھا، آج وہی اس کے سامنے جلتی ہوئی حقیقت بن کر کھڑی ہو۔

🌙 جہنم کا سخت عذاب — کھولتا ہوا پانی، چلانا، چیخنا، مگر کوئی مدد نہیں**
جہنم کا ذکر صرف ڈرانے کے لیے نہیں، بلکہ حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہاں بتایا گیا کہ ان کے لیے ایک ایسا عذاب ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔
انہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، وہ چیخیں گے، چلائیں گے، لیکن انہیں کوئی سہارا نہیں ملے گا۔ ان کے دلوں میں حسرت ہوگی — لیکن حسرت بھی اس وقت بیکار ہو جاتی ہے جب انسان عمل کے وقت کو گنوا دے۔

🌙 اہلِ ایمان کا انجام — سکون، دل کا اطمینان، دائمی خوشی**
جہاں کفار کا انجام ذکر کیا، وہیں اہلِ ایمان کی عظیم خوش خبریاں بیان کیں: وہ جنت میں بیٹھے ہوں گے، نعمتوں میں رہیں گے، ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا، کوئی غم نہیں ہوگا۔ ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ ملا دی جائے گی۔ یہاں ایک عظیم راز ہے — دین میں خاندان کا مقام اللہ چاہتا ہے کہ ایمان والوں کے دل نہ ٹوٹیں۔ اس لیے اولاد کو بھی والدین کے درجے کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ یہ اللہ کی رحمت کا سب سے خوبصورت اظہار ہے۔

🌙 جنت کی محفلیں، شراب، سکون، خادم، خوشیاں**
جنت کی محفلوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ ایک ایسی شراب جو نہ نشہ دے، نہ دماغ خراب کرے، نہ تکلیف دے۔ ایسی شراب جو روح کو خوشبو کی طرح مہکا دے۔ خوبصورت خادم ان کی خدمت کریں گے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نہ بدن تھکتا ہے، نہ دل، نہ روح۔
یہ سب اس لیے ہے کہ دنیا میں انہوں نے صبر کیا، نماز قائم کی، حق پر ثابت قدم رہے۔

🌙 حصہ اوّل کا آخری پیغام — دنیا امتحان ہے، انجام اٹل ہے**
حصہ اوّل کا اختتام انسان کو یہ بتاتا ہے کہ:
دنیا ایک کھیل نہیں، موت ایک دروازہ ہے، آخرت حقیقت ہے، اور ہر نفس نے اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پانا ہے۔ جو ایمان میں، امید میں، صبر میں جیت گیا — وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب۔ اور جو غرور، تکبر، ضد اور خواہشات میں ڈوب گیا — وہ ہمیشہ کے لیے خسارے میں ہے۔

**سورہ الطّور — حصہ دوم
**(آیات 15 تا 28 کی تفسیرانہ، روحانی اور فکری وضاحت)**

سورہ الطّور کا دوسرا حصہ ایک ایسی گہری، تھرتھراہٹ پیدا کرنے والی اور انسان کو ہلا دینے والی کائناتی حقیقت بیان کرتا ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ حصہ جہنم کے دردناک انجام سے لے کر اہلِ جنّت کی نعمتوں، اُن کی گفتگو، اُن کی خوشی، اُن کی حیرت، اُن کے شکر اور اُن کی نجات کے لمحات تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن کی یہ آیات ایک ایسا منظر دکھاتی ہیں جیسے آنکھیں کھلی ہوں، جیسے انسان واقعی دیکھ رہا ہو، محسوس کر رہا ہو، سن رہا ہو۔ آئیے، اس حصے کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔

**۱ — انکار کرنے والوں کے سامنے کھلی ہوئی حقیقت (آیات 15 تا 16)**

قرآن کہتا ہے: **”کیا یہ وہ لوگ ہیں جو اس آگ میں داخل نہیں ہوں گے جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے؟”** یہ الفاظ صرف جملے نہیں، ایک لرزہ خیز جھٹکا ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آخرت میں کھڑے ہو کر سوال پوچھا جا رہا ہو۔ دنیا میں یہ لوگ مذاق بناتے تھے، آخرت کا انکار کرتے تھے، قیامت کو قصہ کہتے تھے، حساب کو وہم سمجھتے تھے۔ مگر آج… آج وہی حقیقت اُن کے سامنے کھڑی ہے — اور آگ اُنہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ قرآن پھر کہتا ہے: **”اب داخل ہو جاؤ اُس میں۔ پھر چاہے صبر کرو یا نہ کرو، برابر ہے۔”** یہاں انسان کا دل لرز جاتا ہے۔ اگر دنیا کی کوئی تکلیف ہو تو ہم کہتے ہیں: صبر کرو… وقت گزر جائے گا… لیکن یہ عذاب ایسا ہے کہ **صبر بھی بےکار، چیخ بھی فضول، بھاگنا بھی ناممکن۔**
یہاں قرآن صبر کا لفظ اس طرح لاتا ہے کہ ایک تہہ شدہ طنز سنائی دیتا ہے— تم کہتے تھے صبر کر کے زندگی گزار لیں گے، آج لو… صبر کر کے بھی کچھ نہیں بدلنے والا، اور نہ چیخنے سے کچھ ہوگا۔ یہاں اللہ کی عدل کی ایک عظیم مثال ظاہر ہوتی ہے: جنہوں نے حق سے منہ موڑا، جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا، جنہوں نے آخرت کو ہنسی بنایا — آج وہ انجام دیکھ رہے ہیں۔

**۲ — دنیا میں تکبر کرنے والوں کی موت کے بعد بے بسی (آیت 16 کی گہرائی)**

دنیا میں طاقت ور آدمی سمجھتا ہے: وہ جیتے گا، وہ بچ جائے گا، وہ کوئی راستہ نکال لے گا۔ لیکن جہنم کے منظر میں… کوئی طاقت، کوئی چال، کوئی بچاؤ، کوئی عیارانہ منصوبہ کام نہیں آتا۔ یہاں نہ وکیل، نہ سفارشی، نہ کوئی حکمتِ عملی۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ: دنیا کی آزادی دراصل آزمائش ہے، اصل قید تو وہاں ہے جہاں انسان کے پاس نہ اختیار، نہ قوت، نہ ارادہ باقی رہتا ہے۔

**۳ — اہلِ جنّت کی شان اور اُن کا ابدی مقام (آیات 17 تا 20)**

اب اچانک منظر بدلتا ہے۔ وہاں جہنم کا خوفناک نقشہ تھا، اور یہاں اللہ ایک مکمل مختلف دنیا دکھاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: **”پرہیزگار لوگ باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔”** یہاں “نعمتوں” کا لفظ کسی عام آسائش کا نام نہیں— یہ لفظ ایسی لذتوں کے لیے آتا ہے جو کبھی ختم نہ ہوں، جن میں دکھ کا سایہ تک نہ ہو، جن میں حسرت، خوف، ملال، تھکن، کمی — کچھ بھی نہیں۔
**“ربّ کے عطا کردہ نعمتوں کو پکڑ کر مزے لے رہے ہوں گے”** یہ جملہ جنّت کی کیفیت کا دل کھول دینے والا نقشہ ہے۔ انسان وہ وہاں چیزیں لے گا… جو اس دنیا میں صرف چاہت بن کر رہ گئی تھیں۔ وہ خوشیاں چھوئے گا، جنہیں یہاں صرف خوابوں میں محسوس کیا تھا۔ **اللہ کہتا ہے: “اُنہیں اُن آفات سے بچا لیا گیا جن کا وہ خوف رکھتے تھے”** یہاں *دنیا کے خوف* کی بات ہے: * رزق کی کمی * بیماری * خطرات
* مستقبل کا ڈر * موت * نقصان * رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ * حسد، بغض، عداوت
* ظلم سہنا * بے بسی * ناکامی
جنّت میں ان تمام خوفوں کو جڑ سے نکال دیا جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں: “انسان کی اصل تکلیفیں حقیقت سے زیادہ اس کے خوف سے جنم لیتی ہیں۔” جنّت ان خوفوں کا مکمل خاتمہ ہے۔ ایک ایسی زندگی جہاں دل ہر وقت مطمئن، ہر لمحہ روشن، ہر گھڑی محفوظ۔

**۴ — اہلِ جنّت کی آپس کی گفتگو (آیات 20 تا 23)**

جنّت کا سب سے خوبصورت پہلو اُس کے لوگ ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے بیٹھے ہوں گے، آرام سے، سکون سے، جیسے کوئی مجلس ہو، کوئی محفل ہو، کوئی خاندان جمع ہو کر خوشیوں کے گیت سنا رہا ہو۔

**”اور اُن کے پاس خوبصورت چاند جیسے چہرے والی حوریں ہوں گی”**

یہ جملہ دنیاوی جسمانی حسن کا بیان نہیں — یہ **روحانی پاکیزگی، نورانیت، سکون اور ابدی تعلق** کا نقشہ ہے۔ جنت میں نہ حسد، نہ مقابلہ، نہ تناؤ، نہ خوف — صرف محبت، سکون، اور ابدی دوستی۔

**۵ — اہلِ جنّت اپنے دنیا کے دن یاد کرتے ہیں (آیت 21 تا 23)**
یہ حصہ سورہ الطّور کے سب سے جذباتی مقامات میں سے ہے۔ اہلِ جنّت بیٹھ کر ایک دوسرے سے گفتگو کریں گے اور کہیں گے:
**”ہم پہلے اپنے گھروں میں ڈرے ہوئے رہتے تھے”**
یہاں وہ دنیا کے دِکھ بھری زندگی یاد کر رہے ہوں گے: * مشکلات * آزمائشیں
* پریشانیاں * لوگوں کا ظلم * نفس کی لڑائیاں * ایمان کی آزمائش * راتوں کی تپش * دن بھر کی تھکن * دِل کے خوف * تقدیر کی بے یقینی
اور پھر وہ کہیں گے:
**”پس اللہ نے ہم پر کرم کیا اور ہمیں جلتے ہوئے عذاب سے بچا لیا۔”**
یہاں انسان کے اندر کا خوف، بےبسیاں، اور اللہ کی رحمت — سب اکٹھے ہو کر ایک لذت بخش نجات کا احساس بن جاتے ہیں۔

**۶ — اہلِ جنّت کی عظیم خوشخبری (آیت 22)**

اللہ کہتا ہے: **”کھاؤ اور پیو مزے سے جو اعمال تم دنیا میں کرتے تھے اُن کے بدلے!”** یہاں دو پیغام چھپے ہوئے ہیں:
**1. جنّت جزا نہیں — کرم ہے۔** ہماری عبادتیں، ہماری نیکیاں… جنّت کے بدلے نہیں ہو سکتیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے کرم سے ملتا ہے۔
**2. انسان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے۔**
دنیا میں کیے گئے چھوٹے سے چھوٹے اچھے کام کا بھی بدلہ ملے گا— چاہے وہ ایک مسکراہٹ ہو، ایک آنسو ہو، ایک دعا ہو، ایک صدقہ ہو، یا دل کا اخلاص ہو۔

**۷ — اولاد کا والدین کے ساتھ مل جانا (آیت 21)**
یہ آیت انتہائی پُرنور حقیقت بتاتی ہے: **”اور جو لوگ ایمان والے ہوں اور اُن کی اولاد بھی ایمان میں اُن کے نقشِ قدم پر ہو، تو ہم اُن کی اولاد کو اُن کے ساتھ ملا دیں گے”** یہاں اللہ ماں باپ کے دلوں کی دھڑکنیں پڑھ رہا ہے۔ دنیا میں والدین کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟ کہ ان کے بچے کامیاب ہوں۔ لیکن آخرت میں والدین کی سب سے بڑی خواہش ہے: **“میرا بچہ مجھ سے الگ نہ ہو جائے۔”** اللہ اس محبت کا احترام کرتا ہے۔ یعنی: ماں کہیں اور، باپ کہیں اور، اولاد کہیں اور — ایسا نہیں ہو گا۔
اگر والدین کا درجہ اونچا ہوگا تو اولاد کو اُن کے پاس اٹھا دیا جائے گا۔ اگر اولاد کا درجہ اونچا ہوگا تو والدین کو اُن کے مقام تک پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن شرط ہے: **ایمان — اور اُس پر ثابت قدمی۔**

**۸ — ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار (آیت 21 کی آخری سطر)**

اللہ کہتا ہے: **”ہم کسی کے عمل میں کمی نہیں کریں گے، ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے”** یہاں اللہ ایک عدل کی لکیر کھینچتا ہے: * رشتے مل جائیں گے
* خاندان اکٹھے ہو جائیں گے * سب جنت میں جمع ہوں گے
لیکن: **ہر شخص اپنے اعمال کی بنیاد پر عزت پائے گا۔** یہ آخرت کی سب سے خوبصورت اور صاف ستھری حقیقت ہے۔

**۹ — اہلِ جنّت کی مزید نعمتیں (آیات 23 تا 24)**

قرآن مزید بتاتا ہے: * سونے کے پیالے * پاکیزہ شراب * خوشبودار مشروب
* دل لبر کر دینے والی لذتیں * خدمت کرنے والے خوبصورت نوجوان * ایسا ماحول جہاں نہ درد، نہ پریشانی، نہ غم کا سایہ
یہ انسان کا خواب نہیں — بلکہ خدا کی وعدہ شدہ حقیقت ہے۔

**۱۰ — اہلِ جنّت کا ایک دل ہلا دینے والا اعتراف (آیت 26)**
اہلِ جنّت کہیں گے: **”ہم پہلے اپنے گھروں میں اللہ سے ڈرتے تھے”**
یعنی: دنیا میں ہم نے تکبر نہیں کیا، ہم نے غرور نہیں کیا، ہم نے اللہ سے بےنیازی نہیں کی، ہم نے گناہوں کو معمول نہیں بنایا۔
یہ آیت اہلِ ایمان کے دل کو مضبوط کرتی ہے: ایمان والا جتنا ڈرتا ہے— اللہ اُتنا ہی اُسے امن دیتا ہے۔

**۱۱ — سب کچھ اللہ کی رحمت سے ملا (آیت 28)**
اہلِ جنّت کا سب سے بڑا جملہ: **”ہم تو دعا کیا کرتے تھے، اللہ بڑا مہربان، بڑا رحم کرنے والا ہے”** یہاں پورے حصے کا خلاصہ آجاتا ہے: * نہ ہماری عبادتیں جنّت خرید سکتی تھیں * نہ ہماری نیکیاں جنّت کی قیمت تھیں * نہ ہمارا صبر جنّت کے قابل تھا
اصل چیز کیا تھی؟

**دعا — اور اللہ کی رحمت۔**

یہ آیت بتاتی ہے: انسان دنیا میں جتنا بھی ٹوٹ کر دعا کرتا ہے، آخرت میں اُس کی دعاؤں کے پھول کھِلتے ہیں۔ جو اشک یہاں گرتے ہیں، وہاں نور بن جاتے ہیں۔

**حصہ دوّم کا مجموعی خلاصہ:**

یہ حصہ ہمیں تین حقیقتیں سکھاتا ہے:
**1. انکار کرنے والوں کے لیے انجام یقینی ہے۔** چاہے دنیا میں کتنی ہی طاقت ہو، آخرت کا انجام بدل نہیں سکتا۔
**2. اہلِ ایمان کی نجات اُن کے خوف، دعا اور صبر کی وجہ سے ہے۔**
وہ ڈرے، گرے، روئے، اٹھے، ٹوٹے — مگر اللہ کو نہ چھوڑا۔
**3. جنّت محبت، خاندان اور اللہ کی رحمت کا گھر ہے۔**
جہاں ہر آن شکر، ہر لمحہ سکون، ہر سانس اطمینان ہے۔

**سورہ الطّور — حصہ سوم (آیات 29 تا آخر)

حصہ سوم سورہ الطّور کا وہ مرحلہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ سیدھے الفاظ میں، بے پردہ انداز میں، نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کو، منکرینِ آخرت کو، اور حق کا مذاق اڑانے والوں کو جواب دیتا ہے۔ یہ حصہ وحی کے وزن، رسول کی صداقت، قرآن کی عظمت اور انسان کے اختیار کے بارے میں بہت بڑی حقیقتیں بیان کرتا ہے۔
اس پورے حصے میں ایک عجیب کمپن ہے— یوں لگتا ہے جیسے آیات اتر نہیں رہیں، بلکہ آسمان لرز رہا ہے۔

**۱ — نبی کو تسلی، دشمنوں کے اعتراضات کا جواب

(آیت 29)** آیت کہتی ہے: **“پس آپ نصیحت کرتے رہیے، اپنے ربّ کے فضل سے نہ آپ کسی کے کاہن ہیں اور نہ دیوانے۔”** یہاں سے سورہ کا آخری روپ شروع ہوتا ہے۔ زمانۂ مکہ میں کفّار نبی کریم ﷺ پر چار بڑے الزامات لگاتے تھے:
1. کاہن 2. شاعر 3. مجنون 4. جادوگر
یہ اُن کے پاس آخری حربہ تھا۔ جب دلیل ختم ہو جائے تو الزام شروع ہو جاتا ہے۔ آیت کہتی ہے: **آپ چلتے رہیں… آپ رکیں نہیں… آپ کا راستہ سچا ہے… لوگ جو کہہ رہے ہیں—وہ اُن کی شکست کی آواز ہے۔** یہ آیت نبی ﷺ پر وحی کے وقت برف سی ٹھنڈک بن کر اتری ہوگی۔ آج بھی جب کوئی اہلِ حق پر الزام لگاتا ہے— یہی آیت اُس کے دل میں نور دیتی ہے۔

**۲ — وہ قرآن کو شاعر کیوں کہتے ہیں؟

(آیت 30)** کفار کہتے تھے: **“اگر وہ شاعر ہے تو ہم وقت کا انتظار کریں گے، جیسے شاعر مر جاتے ہیں ویسے یہ بھی ختم ہو جائے گا”** یہ دنیا کا وہی پرانا چال ہے— حق کو ختم نہیں کر سکتے تو انتظار کرو، شاید خود بخود مٹ جائے۔ قرآن کہتا ہے: **یہ لوگ سچ میں سمجھتے ہیں کہ قرآن شاعری ہے؟ شاعر اپنی ذات سے لکھتا ہے… لیکن یہ کلام آسمان سے آتا ہے!**
دنیا کے کسی شاعر نے عرش کی خبر نہیں دی، کسی شاعر نے قیامت کے نقّارے کی گونج نہیں سنائی، کسی شاعر نے انسان کی روح کو یوں برہنہ نہیں کیا۔ قرآن شاعر کا کلام نہیں، یہ اس کائنات کا فرمان ہے جو **وجود سے پہلے بھی تھا، بعد میں بھی رہے گا۔**

**۳ — الزام ہمیشہ اُن کا ہتھیار ہوتا ہے جن کے پاس دلیل نہ ہو

(آیت 31)** اللہ پوچھتا ہے: **“کیا یہ لوگ شاعر کی موت کا انتظار کر رہے ہیں؟ آپ کہہ دیں: تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔”** یہ جملہ نہیں— یہ چٹان ہے۔
یہ اذان ہے۔ یہ اعلان ہے۔ یہ للکار ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے: **حق کبھی بے بس نہیں ہوتا،
صبر کرتا ہے، اور پھر پوری کائنات دیکھتی ہے کہ فتح کس کی ہوتی ہے۔**

**۴ — کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا؟

(آیات 35–36)** یہ حصہ انسان کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ اللہ ایک ایسا سوال پوچھتا ہے جس کا جواب تاریخِ انسان نہیں دے سکی:
**“کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا ہو گئے؟ یا یہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں؟
یا آسمان و زمین ان ہی کے بنائے ہوئے ہیں؟”** یہ سوال کائناتی فلسفے کی بنیاد ہے۔ دنیا کے تمام فلسفے، تمام علوم، تمام مذاہب، تمام سائنسیں— ان تین سوالوں کا جواب دینے میں ناکام ہیں۔

**۱ — کیا انسان بے سبب پیدا ہوا؟**
یہ ناممکن ہے۔ کائنات میں کوئی چیز بے سبب نہیں ہوتی— تو انسان کیسے ہو سکتا ہے؟

**۲ — کیا انسان نے خود کو پیدا کیا؟**
یہ متضاد جملہ ہے— جو چیز خود کو بناتی ہے، وہ پہلے موجود ہونی چاہیے، اور موجود ہونے کے لیے پہلے بننا ضروری ہے۔ یہ منطق کا پھندا ہے جس میں عقل قید ہو جاتی ہے۔
**۳ — کیا انسان نے آسمان و زمین بنائے؟**
کیا انسان ایک ذرے کو اپنی مرضی سے حرکت دے سکتا ہے؟ تو پھر آسمانوں کی کروڑوں روشنیوں کو کیسے بنا لے گا؟ اللہ خاموش نہیں، وہ دلیل مانگتا ہے— اور دنیا کے سب فلسفے جھک جاتے ہیں۔

**۵ — کیا یہ لوگ اللہ کے خزانے سنبھالتے ہیں؟

(آیت 37)** آیت کہتی ہے: **“کیا آپ کے ربّ کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ یا یہ سب کچھ کے مالک ہیں؟”** یعنی: کیا یہ اپنی تقدیر لکھتے ہیں؟ کیا یہ رزق بانٹتے ہیں؟ کیا یہ بارش برساتے ہیں؟ کیا یہ سورج چلاتے ہیں؟ کیا یہ موت دیتے ہیں؟ کیا یہ زندگی بناتے ہیں؟ یہ آیت انسان کا غرور چکنا چور کر دیتی ہے۔ کفار سمجھتے تھے: ہم طاقت والے ہیں، ہم سردار ہیں، ہماری چلتی ہے۔ اللہ کہتا ہے: تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں، ساری کائنات میرے قبضے میں ہے۔

**۶ — کیا یہ اللہ کے رازوں پر چڑھے ہیں؟

(آیت 38)** آیت کہتی ہے: **“یا کیا یہ لوگ آسمان پر چڑھ کر سن لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی ثبوت لائیں!”** یہ کفار کی جھوٹی کہانیوں کا جواب ہے— وہ کہتے تھے فرشتے ہمیں خبریں دیتے ہیں، یا ہم عالمِ بالا میں کچھ جان لیتے ہیں۔ آیت سب برداشت کر لیتی ہے— مگر جھوٹ نہیں۔ یہ آیت آج بھی اُن سب پر دلیل ہے جو ’روحانی علم‘، ’کائناتی راز‘، ’آسمانی تسخیر‘ کے دعوے کرتے ہیں۔

**۷ — نبی ﷺ کو حکم:

لوگوں کی باتوں سے دل نہ دکھاؤ (آیت 39–40)** اللہ کہتا ہے: **“کیا ان کے لیے لڑکی ہے اور تمہارے لیے لڑکا؟ کیا تمہیں اس بات پر کوئی اجر دے رہے ہیں کہ تم قرض دار بنو؟”** کفار نبی ﷺ کی بات نہیں مانتے تھے، الٹا طنز کرتے تھے، لیکن اللہ کہتا ہے: تم فکر نہ کرو— یہ سب باتیں بے وزن ہیں۔ یہ آیت ایک روحانی حقیقت بتاتی ہے: **نبی ﷺ کا دل توڑنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔**

**۸ — حق کو ردّ کرنے والا شخص دراصل خود تباہ ہوتا ہے

(آیت 43–44)** اللہ کہتا ہے: **“کیا ان کا کوئی معبود ہے اللہ کے سوا؟ ثابت کریں اگر سچے ہیں!”** یعنی: تم جن چیزوں کو پکارتے ہو— کبھی کوئی بول کر دکھاؤ، کبھی کوئی جواب دے، کبھی کوئی تمہیں بچا کر دکھا دے۔ یہ آیت انسان کی جھوٹی معبودیاں توڑتی ہے: * مال * طاقت * رشتہ دار * سردار * شخصیات * اقتدار * دنیا سب معبود بن جاتے ہیں… لیکن سب کمزور ثابت ہوتے ہیں۔

**۹ — قیامت کے منظر پر آخری ضرب

(آیت 45–47)** اللہ فرماتا ہے: **“پس انہیں چھوڑ دو یہاں تک کہ اپنے دن سے ٹکرا جائیں جس میں وہ گر پڑیں گے۔”** یہ آیت بتاتی ہے: **قیامت ٹلنے والی نہیں۔** یہ آیت تلوار کی طرح اُترتی ہے: جس وقت سب کے چہرے بدل جائیں گے، جس لمحے دنیا کی آوازیں بند ہو جائیں گی، جس گھڑی انسان سمجھے گا کہ: سب ختم ہو گیا— ساری آزادی، ساری طاقت، ساری چالاکی، سارا غرور… سب مٹی ہو گیا۔

**۱۰ — ہر چیز اللہ کے حکم سے ہے

(آیت 48–49)** آخر میں اللہ نبی ﷺ سے فرماتا ہے: **“پس آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجیے۔ آپ ہماری نگاہ میں ہیں۔ اور جب آپ اٹھیں تو اپنے ربّ کی حمد کرتے رہیں۔ اور رات کے ایک حصے میں بھی سجدہ کرتے رہیں، اور ستارے ڈھلنے پر بھی تسبیح کریں۔”** یہ آیت ایک خزانہ ہے۔ یہ نبی ﷺ کو کہتی ہے: * آپ تنہا نہیں * آپ کمزور نہیں * آپ بے سہارا نہیں * آپ دیکھے جا رہے ہیں * آپ سنبھالے جا رہے ہیں
* آپ پر ربّ کی نگاہ ہے یہ وہ محبت ہے جو آسمان سے زمین کو ملاتی ہے۔ **“آپ ہماری نگاہ میں ہیں”** اس جملے نے کتنے ٹوٹے دلوں کو جوڑا ہوگا! کتنے خوف زدہ لوگوں کو امن دیا ہوگا! کتنے لوگوں کو ہمت دی ہوگی! کتنے گناہ گاروں کو راستہ دیا ہوگا! یہ آیت اہلِ ایمان کا سارا سرمایہ ہے۔

**حصہ سوم — مجموعی خلاصہ**

حصہ سوم ہمیں یہ سکھاتا ہے:
**۱ — حق کو ردّ کرنے والوں کے پاس نہ دلیل ہوتی ہے، نہ انجام اچھا۔** وہ الزام لگاتے ہیں، طنز کرتے ہیں، انتظار کرتے ہیں— مگر انجام اُنہیں لے ڈوبتا ہے۔
**۲ — قرآن شاعر کا کلام نہیں— یہ عرش کا کلام ہے۔**
**۳ — انسان نہ خود بنا، نہ آسمان بنا سکتا ہے، نہ تقدیر لکھ سکتا ہے۔**
**۴ — ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا۔**
**۵ — نبی ﷺ کو حکم ہے کہ صبر سے چلیں—
کیوں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے۔**
**۶ — اہلِ ایمان کے لیے آخرت امن، اور منکرین کے لیے حسرت ہے۔**

Loading