Daily Roshni News

نقد و نظر تنقید افکار پر کرنا چاہئے نہ کہ نام پر ۔۔۔ غلام نبی کشافی سرینگر

نقد و نظر

              تنقید افکار پر کرنا چاہئے نہ کہ نام پر

غلام نبی کشافی سرینگر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )    تقریباً پینتیس سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے مولانا شہاب الدین ندوی (1931ء -2002ء) کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا ، جن میں ایک کتاب کا نام یہ تھا ۔

     “قرآن مجید اور دنیائے حیات

جدید سائنس کی روشنی میں چند حقائق”

اس کتاب میں سورہ اعلیٰ کی ابتدائی 5 آیات پر زبردست علمی گفتگو کی گئی تھی ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی ، اور جو فہم قرآن کے حوالے سے انتہائی قابل غور کتاب تھی ۔ اگرچہ اس طرح کی کتابیں نایاب ہیں ، لیکن اگر یہ کتاب کہیں سے مل جائے ، تو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔

  دراصل آج صبح سوشل میڈیا پر کسی ڈاکٹر مصباح صاحبہ کا پوسٹ نظر سے گزرا ، جس کا عنوان یہ تھا ۔

 ” أبو الأعلى (ابوالاعلیٰ) نام درست نہیں “

موصوفہ فرماتی ہیں ۔

” آج صبح تفسیر کلاس میں سورۃ الأعلى پڑھائی..

مجھے تو یہ سمجھ آیا کہ ” الأعلى” اللہ تعالیٰ کی صفت ہے سب سے بلند، سب سے برتر۔ تو پھر ایک سوال دل میں اٹھا:

جو لوگ اپنے آپ کو “ابوالاعلیٰ” کہلواتے یا کہلاتے ہیں… کیا وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ نام اللہ کی خاص صفت  ہے؟ اور اللہ کی خاص صفات والے نام انسانوں کے لیے اختیار کرنا درست نہیں!

بعض اوقات ہم نام محض ذوق سے رکھ لیتے ہیں،

لیکن دین میں نام بھی عقیدہ اور ادب سے جڑے ہوتے ہیں۔

اصل عزت اس میں ہے کہ بندہ اللہ کی بڑائی تسلیم کرے، نہ کہ اس کی خاص صفات کو اپنے تعارف کا حصہ بنا لے “

یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ موصوفہ نے سورہ اعلیٰ کی تفسیر میں کیا پڑھایا ؟ وہ نہیں بتایا ، حالانکہ بتانا وہی چاہئے تھا کہ اس سورہ کا مرکزی پیغام کیا ہے؟ لیکن بدقسمتی سے جب ہم تفسیر قرآن میں ذہنی موشگافیاں اور آوارگیاں تلاش کرتے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ اس طرح کے افراد قرآن کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کے بجائے صرف سطحی چیزوں میں ایک طرح سے طفل تسلی کرتے ہیں ۔

میں بچپن میں زمانہ اہلحدیثیت میں مولانا ثناء اللہ امرتسری سے بہت زیادہ متاثر تھا ، لیکن ایک دفعہ میرے نانا جی خواجہ محمد سلطان گڈو مرحوم( سابق نائب صدر بزم توحید اہلحدیث) نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ایک کتابچہ ” خطاب بہ مودودی “دیا تھا ، آج کی تاریخ میں ستر اسی سال پرانا کتابچہ تھا ، اور وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ، اس کتاب کی جس بات سے مجھے اختلاف ہوا تھا وہ یہ تھی کہ مولانا مودودی کے نام میں ” ابو الاعلیٰ” صحیح نہیں ہے ، چونکہ لفظ ” الاعلیٰ ” خدا کی صفت ہے ، تو پھر خدا کی صفت پر کوئی شخص کنیت والا نام کیسے رکھ سکتا تھا ۔

اگرچہ میرا کبھی جماعت اسلامی سے تعلق نہیں رہا ، اور نہ مجھے جماعتی اور تنظیمی سسٹم سے کوئی دلچسپی ہے ۔ لیکن مولانا سید مودودی کا لٹریچر میں نے بہت زیادہ پڑھا تھا ، ان کی کئی کتابیں اچھی اور بہت سی کتابوں اور خاص کر ان کے تصور دین کی تعبیرات سے اختلاف بھی رہا ۔ لیکن ان کے افکار و نظریات پر کلام کرنے کے بجائے ان کے نام پر تنقید کرنا کسی بڑے عالم کے لئے شایان شان نہیں ہوتا ، اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ کیونکہ کئی محدثین ابو یعلی ہی کے نام سے تھے ، اور لفظ ” یعلی ” بھی ” الاعلی ” سے ہے ۔

 مولانا ثناء اللہ امرتسری پائے کے عالم ، مفسر اور مناظر تھے ، لیکن شاید ان کو قرآن کی اس آیت پر نظر نہیں گئی ہوگی ۔ جس میں اللہ تعالی سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے ۔

       قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى ۔

               ( طہ : 68)

ہم نے کہا (اے موسیٰ ! ) ڈرو مت بیشک تو ہی اعلیٰ ہوگا۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے حصر و تاکید کے ساتھ کہا

                 اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى

   بیشک تو ہی اعلیٰ اور بلند و برتر ہوگا۔

اور اسی صفاتی نام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے بارے میں بھی اس طرح بیان فرمایا ۔

              سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى

اپنے رب کے نام کی پاکی بیان کروجو سب سے بلند ہے۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے خود ہی صفاتی نام اپنے سوا ایک پیغمبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لئے استعمال کیا ہے ، تو پھر اس لفظ کے عام انسانوں کے استعمال کے بارے میں ممانعت کہاں سے ثابت ہوتی ہے ۔

قرآن کے مطابق رؤف اور رحیم اللہ تعالی کے دو صفاتی نام آئے ہیں ، مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتا ہے ۔

    إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ۔

                 ( الحج : 65)

بیشک اللہ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔

لیکن قرآن ہی میں یہی دو صفاتی نام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ۔ جیساکہ ارشاد خداوندی ہے ۔

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ ۔

                (التوبہ: 128)

یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آیا ہے، اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

اسی طرح ” علی ” بھی اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے ، لیکن یہ سیدنا علی بن ابی طالب کا بھی نام تھا ۔ اس لئے تنقید کرنے سے پہلے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ جس بات کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے ، آیا وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ غلط تنقید کی وجہ سے بہت بڑی ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس لئے تنقید وہی درست ہے ، جو علم اور دلیل کی زبان میں ہو ، لیکن اگر تنقید میں علم اور دلیل کے ذریعے استدلال نہ کیا گیا ہو ، تو پھر وہ تنقید ، تنقید نہیں ، بلکہ جہالت کہلاتی ہے ، جس کا ایک ثبوت خاتون موصوفہ نے دیا ہے ۔

                                               ___________________

Loading