Daily Roshni News

جن زاد ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ ارشد احمد۔۔ انتخاب  ۔  میاں عمران

جن زاد

تحریر :۔۔۔ ارشد احمد

انتخاب  ۔  میاں عمران

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ جن زاد ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ ارشد احمد۔۔ انتخاب  ۔  میاں عمران)کیا مطلب ہے اس بات سے تمھارا کنول..مطلب اپ جب مجھے بانہوں میں لیتے ہیں اور پیار کرتے ہیں تو مجھے بہت زیادہ سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے..

میں اپ کے قابل نہیں ہوں..

ناں ہی کبھی اپ کی ہمسفر بننے کی خواہش رکھی ہے..میں اپنی حیثیت جانتی ہوں..

مگر میں اپ کی زندگی میں رہنا چاہتی ہوں بس..

اپ ملازم بنا کر رکھیں, باندی بنا لیں یا کوئی بھی حیثیت دیں مجھے قبول ہوگا..

بس اپ سے صرف اپ کا ساتھ اور اپ کا پیار چاہئے..

کنول..مجھے سمجھ نہیں ارہی تمھاری بات کا کیا جواب دوں..

میرا باپ جنوں کے ایک قبیلے کا سردار تھا..

اس نے انسانوں میں سے ایک عورت سے شادی کی تھی جس کے نتیجے میں ہزاروں سال قبل میری پیدائش ہوئی تھی..

پیدائش کے وقت میری ماں اس تکلیف کو برداشت نہیں کر پائی اور جان ہار گئی..

مجھے بابا خامن نام کے ایک شخص نے پال پوس کر بڑا کیا..

میں نے ہزاروں برس کی دنیا دیکھی ہے..

جب میں جن کے روپ میں تھا تو جو حسین چہرہ مجھے بھاتا تھا میں اسے حاصل کرلیتا تھا..

ایسے ہی ایک چہرے کو دیکھ کر جب میں اسے حاصل کرنے پہنچا اور اس کے جسم میں داخل ہوا..

تو اس کے بدھ بھشکو باپ نے میری شکتیاں چھین کر مجھے انسانی روپ میں قید کردیا..

نیپال سے ہندوستان بھٹکتا ہوا کچھ عملیات کی مدد سے میں نے نادیدہ ہونے اور ایک ادھ شکتی اور حاصل کرنے میں کامیاب ہوا..

مگر میں ناں ہی اپنے اصلی روپ میں انے پر قادر ہوں اور ناں ہی اپنی طاقتیں واپس حاصل کرسکتا ہوں..

میرا قبیلہ بہت دور پہاڑوں کے دامن میں اباد ہے اور وہ اس وقت مشکل میں ہے..

دوسری طرف مجھے اپنی شکتیاں حاصل کرنے کے لئے افریقہ کے جنگلات کا رخ کرنا پڑے گا..

شاید تمھیں میری باتیں ناقابل یقین لگیں مگر اس کا ایک ایک لفظ بالکل سچ ہے..

تمھاری عمر چند سال ہوگی دس بیس پچاس سو سال بس..

پھر..اسکے بعد تم نہیں رہو گی مگر میری زندگی جاری رہے گی..

میں نے جس انسان سے محبت کی اسے اخرکار کھو دیا کیونکہ انسانوں کی عمر محدود ہوتی ہے..

اس لئے میں نے ایک طویل عرصے پہلے فیصلہ کیا تھا..

کہ میں اب کسی انسان کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کروں گا سوائے وقتی تسکین کے..

کنول حیرت اور بے یقینی سے میری باتیں سن رہی تھی..

ناقابل یقین ہے یہ سب کچھ شاشین مگر اپ کہ رہے ہیں تو یقینا یہ سب کچھ سچ ہوگا..

بہت انوکھا اور بہت خوفزدہ کردینے والا سچ..

پھر بھی اگر ایسا ہے تو بھی میں اپنی باتوں پر قائم ہوں جب تک میں زندہ ہوں..

اپ کی زندگی میں شامل رہنا چاہتی ہوں..

بے شک اپ وقتی تسکین کے لئے شامل رکھیں یا کسی اور حیثیت سے یہ کہتے ہوئے کنول کی انکھیں حیاء سے جھک گئیں..

میں نے اسے بازوئوں میں لے کر چوم لیا..

مجھے ایسا لگتا تھا کہ انسانی روپ میں انے کے بعد…

میری سوچ, خیالات حتی کہ ہر چیز میں تبدیلی ائی ہے اور میں انسانوں کی طرح ہی سوچنے اور زندگی گزارنے لگا ہوں..

مجھے نہیں پتہ تھا کہ اپنے اصلی روپ میں انے کے بعد کیا ان سب چیزوں میں کوئی تبدیلی ائے گی یا نہیں..

اس کا جواب انے والا وقت ہی دے سکتا تھا..

قسط… 21

جن زاد

کنول فوزیہ کو تم اپنے پاس سلا لینا اور ثناء کو امی کے ساتھ سونے دینا..

اگر کوئی مسئلہ ہو یا بات ہو تو تم اسے سنبھال سکتی ہو..

ہاں میں نے بھی یہی سوچا تھا کنول نے جواب دیا..

کنول کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کسی سے شادی کر لو اور..

میں اپ سے محبت کرتی ہوں شاشین..

میں کسی کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کنول نے میری بات کاٹ کر کہا..

اپ مجھے اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں مگر ائندہ یہ بات مت کیجئے گا..

اپ کے علاوہ میری زندگی میں کبھی کوئی نہیں ائے گا..

ارے یہ بات نہیں ہے کنول..میں تو بس..

اچھا ٹھیک ہے چھوڑو یہ موضوع وقت ائے گا تو فیصلہ کر لیں گے..

فیصلہ ہوچکا ہے شاشین..میں فیصلہ کر چکی ہوں بس..

اور میری بات کی کوئی اہمیت نہیں میں نے کہا..

اپ میری جان مانگ لیں شاید لمحہ بھی ناں لگائوں سوچنے میں..

مگر میرے دل میں میری روح کی گہرائیوں میں صرف اپ ہیں…

اور یہ جگہ میں کبھی کسی اور کو نہیں دوں گی ناں ہی میں ایسا کچھ چاہتی ہوں..

اچھا ٹھیک ہے..میں نے اسے چوم کر اپنے ساتھ لپٹا لیا..

کنول میرے ساتھ لپٹی دیر تک باتیں اور لاڈ پیار کرتی رہی..

رات کا کھانا کھا کر میں سونے کے لئے لیٹ گیا اور کنول بھی لاڈ پیار سے شب بخیر کہ کر سونے چلی گئی..

جانے کتنی دیر گزری تھی سوئے ہوئے کہ کنول نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا..

شاشین..شاشین..اٹھیں..فوزیہ کی حالت خراب ہورہی ہے..

میں کنول کے ساتھ بھاگتا ہوا نیچے کمرے میں پہنچا تو فوزیہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا جسم بری طرح جیسے مڑ تڑ رہا تھا..

اس کے حلق سے عجیب سی اوازیں نکل رہی تھیں..

میں نے اور کنول نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر اس کی کیفیت بڑھتی جارہی تھی..

 میں نے انکھیں بند کر کے ترکن کی انگوٹھی سے مدد لینے کی کوشش کی..

کنول بھاگ کر جائو اور برف لے کر ائو..

فوزیہ کے جسم کو اب جھٹکے لگنا شروع ہوگئے تھے اور میں تمام تر کوشش کے باوجود اسے کنٹرول کرنے اور سنبھالنے میں ناکام تھا..

کنول اس کے سینے پر جو نشان ہے اس پر برف سے ٹکور کرو..

جب تک وہ نشان ٹھنڈا نہیں ہوگا اس کی کیفیت تبدیل نہیں ہوگی..

کنول بھاگتی ہوئی گئی اور برف لے کر اگئی..

فوزیہ نے کھلے گلے کی قمیض پہنی ہوئی تھی کنول نے اسے نیچے کر کے نشان دیکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی قمیض کے نیچے ہونے کی ایک حد تھی..

اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا..

فوزیہ عمر میں کنول سے شاید ایک دو سال ہی چھوٹی تھی اور بھرپور جسمانی خدوخال کی مالک تھی..

کنول میرے اتنا پاس انے کے باوجود کبھی اتنا بے باک نہیں ہوئی تھی کہ بے لباس ہو اور یہ تو اس کی چھوٹی بہن تھی..

ثناء کو بلوا لو..مگر دیر مت کرو..فورا برف ملنا شروع کرو..

اپ دوسری طرف دیکھیں ذرا..

میں نے کنول کے کہنے پر اپنا منہ دوسری طرف کرلیا..

ٹھیک ہے چند لمحوں بعد کنول کی اواز ائی..

اس کا ایک ہاتھ فوزیہ کی قمیض کے اندر تھا اور وہ ہاتھ میں برف لئے اسے مسل رہی تھی..

میرے دوسری طرف دیکھنے کے دوران اس نے یقینا قمیض اٹھا کر اس کے نشان کی جگہ دیکھی ہوگی..

شاشین وہ نشان اگ کی طرح سرخ ہورہا ہے..کنول کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے..

کوئی بات نہیں بس کچھ دیر میں اس کی رنگت بدل جائے گی..

تم برف ملتی رہو اس پر..

فوزیہ کی حالت سنبھلنے میں ادھا پونا گھنٹہ گزر گیا..

اہستہ اہستہ دورے کی شدت کم ہونا شروع ہوئی اور فوزیہ اپنے حواس میں واپس انے لگی..

جب اس کی طبیعت مکمل طور پر سنبھل گئی تو میں کنول اور فوزیہ کو تسلی دے کر واپس اوپر اپنے کمرے میں اگیا..

ابھی مجھے اکر لیٹے ہوئےکچھ دیر ہی گزری تھی کہ مجھے محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی اور بھی موجود ہے..

میں نے انکھیں کھولیں تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا..

انتہائی خوبصورت اور حسین ایک لڑکی میرے بیڈ سے کچھ دور کھڑی مجھے گھور رہی تھی..

قسط نمبر : 22

جن زاد

میں اسے دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گیا..

مجھے اندازہ تو ہوگیا تھا پھر بھی میں نے سوال کیا..

کون ہو تم..

میرا نام ارشانہ ہے..

تم جان ہی گئے ہوگے کون ہوں میں اور کہاں سے ائی ہوں..

ہاں..تمھارے لباس, شکل اور قدکاٹھ سے اندازہ ہورہا ہے کہ جنوں میں سے ہو..

اور اگر میرے پاس ائی ہو تو زیادہ تر چانس ہے کہ میرے قبیلے کی ہو تم..

یہ کیسے جانا تم نے..

کہ میں تمھارے قبیلے کی ہوں..

ویسے تو میں اس انگوٹھی کی مدد سے بھی جان سکتا تھا میں نے انگلی میں موجود ترکن کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا..

مگر میں نے قبیلے کے حالات معلوم کئے تھے تو علم ہوا ہمارا قبیلہ مشکل میں ہے..

اس لئے میں نے اندازہ لگایا شاید کسی وجہ سے میری ضرورت ہو یا کوئی کام ہو..

ہاں..ٹھیک اندازہ لگایا ہے تم نے ارشانا نے کہا..

تم سردار کے بیٹے ہو مگر ان کے مرنے کے بعد تم واپس قبیلے میں نہیں ائے..

قبیلے کے بزرگوں نے تمھاری غیر موجودگی میں تمھارے چچا کو نائب سرداری پر فائز کردیا تھا..

اج تک کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوا کہ ہمیں سردار کی ضرورت پیش اتی…

دوسرا ہمارے بزرگوں نے اپنے علم سے یہ جان لیا تھا کہ ایک دن تم واپس اجائو گے…

اس لئے تم سے کوئی رابطہ نہیں رکھا گیا..

مگر اب حالات بدل چکے ہیں..

اگر تم نے حالات جان لئے ہیں تو تمھارے علم میں ہوگا کہ دوسرے قبیلے والے ہم سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں..

انھوں نے حتمی مذاکرات کے لئے پیغام بھیجا تھا کہ سردار اپس میں مل کر فیصلہ کرلیں دوسری صورت میں جنگ ہوگی..

سردار تم ہو اور ان کا سردار کسی صورت اپنے سے کمتر یعنی نائب سردار سے بات نہیں کرے گا..

اس لئے مجھے پیغام دے کر بھیجا گیا ہے اور تمھیں واپس لانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے..ارشانہ نے ساری باتیں وضاحت سے بتائیں اور خاموش ہوگئی..

کب ہیں دوسرے سردار سے مذاکرات  یعنی کب ملنا ہے مجھے اس سے..

دو سورج بعد..ارشانہ نے جواب دیا..

مگر میں اتنی جلدی نہیں جا سکتا میرے یہاں کچھ معاملات ہیں..

کیا معاملات ہیں مجھے تمام تر اختیارات اور طاقتوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے..

اگر تم مقررہ وقت تک ناں پہنچ سکے تو دونوں قبیلے تباہ ہوجائیں گے اور سینکڑوں خاندان مارے جائیں گے..

پہلا مسئلہ تو جس گھر میں یہاں میں رہ رہا ہوں یہاں کوئی بدروح ہے جو فوزیہ نامی لڑکی کے جسم میں ہے اس سے پیچھا چھڑوا کر گھر کو محفوظ کرنا ہے اور..

تم اس کو کام کہ رہے ہو ارشانہ نے حیرت سے میری طرف دیکھا..

ہاں تم جانتی ہو میں اپنی تمام شکتیاں کھو چکا ہوں..

چلو میرے ساتھ..ارشانہ نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے..

کہاں..یہ کام ختم کرنے اور کہاں..ارشانہ پلٹی..

ارے مطلب اس وقت..اور اس طرح..

تو کیا اس بدروح کے بلاوے کا انتظار کرنا ہے..اپنے معاملات سمیٹ لو جلد از جلد ہمیں چلنا ہے..

مجھے لگ رہا ہے سردار میں نہیں تم ہو..اپنا لہجہ اور حکمیہ انداز درست کرو..مجھے واقعی غصہ اگیا تھا..

نہیں میں تہ دل سے معذرت خواہ ہوں اگر تمھیں ایسا لگا تو..

مجھے صرف قبیلے کی پریشانی تھی میں صرف چاہ رہی تھی جلد از جلد کام سمٹ جائیں..

جیسا تم حکم کرو گے ویسا ہی ہوگا سردار..

ارشانہ دروازے کے پاس رک گئی تھی اور تعظیمی انداز میں سر جھکا کر کھڑی ہوگئی تھی..

میں اٹھ گیا اور چلتا ہوا اس کے پاس اگیا..

کوئی بات نہیں..چلو یہ کام ختم کرلیں..

اس کی فراخدلانہ معذرت نے میرے دل سے غصہ دور کر دیا تھا..

میں نے دروازہ کھولا اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا دئے..

نیچے اکر میں نے کنول کے کمرے کا دروازہ بجایا..ارشانہ میرے پیچھے تھی..

کچھ دیر میں کنول نے دروازہ کھولا تو اس کی انکھوں میں حیرانگی کے تاثرات ابھر ائے..

شاشین اپ..خیریت..کنول نے ایک طرف ہٹ کر مجھے اندر انے کا راستہ دیا..

میں نے بستر کی طرف دیکھا تو فوزیہ سکون سے سوئی ہوئی تھی..

کنول کچھ معاملات ایسے اگئے ہیں کہ مجھے فورا اپنے قبیلے جانا پڑے گا..

میں واپس اجائو گا مگر جانے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ فوزیہ کا مسئلہ حل ہوجائے اور گھر محفوظ ہوجائے..

میرے کمرے میں بستر کے نیچے پیسوں کا بیگ پڑا ہے سنبھال لینا وہ سب تمھارے لئے ہی ہیں..

شاشین..کنول میری طرف بڑھی..

میں جانتا تھا ارشانہ اسے نظر نہیں ارہی ہوگی..

کنول رک جائو ہم سکون سے بات کریں گے پلیز میں فوزیہ کا مسئلہ حل کر لوں..

کنول نے کچھ ناسمجھی کے انداز میں مجھے دیکھا..

اپ نے تو کہا تھا وہ خون..اور..

نہیں اس کے بناء ہی ہوجائے گا یہ مسئلہ حل..میں نے اس کی بات کاٹ دی اور ارشانہ کو اشارہ کیا..

ارشانہ نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کیا..

چند ہی لمحوں میں کمرے میں ایک مکروہ صورت مرد دھویں کے ہیولے کی صورت سامنے اچکا تھا..

اس کی انکھیں اگ کی طرح جل رہی تھیں اور بھیانک چہرہ غصے سے بھرا نظر ارہا تھا مگر ارشانہ پرسکون تھی..

میں کنول کو اپنے ساتھ لئے کھڑا تھا..

اس کے ظاہر ہوتے ہی ارشانہ نے اپنے ہاتھ کا رخ اس کی طرف کیا اور اگلے ہی لمحے اس کی انگلیوں سے اگ کی لپٹیں نکل کر اس مکروہ صورت بدروح کی طرف بڑھیں..

اس نے اس اگ سے بچنا چاہا مگر ارشانہ نے شاید کچھ پڑھ کر اسے ساکت کیا ہوا تھا اور وہ حرکت کرنے سے قاصر تھا..

اگ نے جیسے ہی اس کے جسم کو چھوا اس کا جسم سوکھی لکڑی کی طرح جلنا شروع ہوگیا..

اگ لگتے ہی کمرہ اس کی فلک شگاف چیخوں سے گونج اٹھا..

یہ سب کچھ کنول کی نظروں سے اوجھل تھا اس لئے وہ پرسکون کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی..

ارشانہ اپنا ہاتھ ہٹا چکی تھی مگر وہ بدروح بدستور اگ میں جل رہی تھی..

ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس طاقتیں ناں ہوں مگر ارشانہ یقینا کچھ خاص لائی تھی جس نے اسے ہلنے تک کی مہلت نہیں دی..

چند لمحوں میں اس کا جسم جل کر خاکستر ہوگیا..

ارشانہ اگے بڑھی اور جیب سے ایک شیشی سی نکال کر اس نے اس کا ڈھکن کھولا اور کوئی عمل پڑھا تو ساری راکھ اس شیشی می سما گئی..

ارشانہ نے وہ شیشی اپنے لباس میں واپس رکھ لی..

میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا..

بس نشانی..ارشانہ مسکرائی..

ٹھیک ہے تم اس گھرکو محفوظ کردو ائندہ کوئی چیز یہاں داخل ناں ہوسکے ناں ہی کسی کو نقصان پہنچا سکے..

کنول نے حیرانگی سےمجھے دیکھا میں کس سے مخاطب ہوں مگر میں نے انکھوں کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا کہا…

ارشانہ نے کچھ پڑھا تو اس کے ہاتھ میں ایک کیل نمودار ہوگیا جو اس بے میری طرف بڑھا دیا..

یہ کسی بھی دیوار کے کونے میں ٹھونک دیں گھر محفوظ ہوجائے گا..

ٹھیک ہے تم جائو ٹھیک ایک گھنٹے بعد اجانا ہم چلیں گے..

ٹھیک ہے ارشانہ نے کہا اور تعظیم دے کر رخصت ہوگئی..

یہ سب کیا ہورہا ہے شاشین..

بتاتا ہوں اوپر کمرے میں اجائو میں نے باہر کی طرف قدم بڑھا دئے کنول میرے ہمراہ تھی..

کمرے میں پہنچ کر میں نے کنول کو ساری صورتحال سے اگاہ کیا..

اسے یقین دلانا مشکل ہوگیا کہ اس کے سامنے کسی بدروح کو اگ سے جلا کر خاک کردیا گیا اور اسے علم نہیں ہوا..

میں نے کیل اس کیطرف بڑھا دیا یہ لو کسی بھی دیوار میں اوپر ٹھونک دینا تو یہ گھر ہمیشہ کے لئےمحفوظ ہوجائے گا..

کنول کی انکھوں میں اداسی نظر ارہی تھی..

اگلا ایک گھنٹہ کنول کو پیار کرنے میں گزرا..

اج وہ زیادہ بے تاب ہورہی تھی اور کچھ حد سے گزر رہی تھی..

مگر میں نے اسے روکا نہیں..

وقت پر لگا کر اڑ گیا..

ارشانہ کا چہرہ مجھے دوبارہ نظر ایا تو اندازہ ہوا گھنٹہ گزر چکا ہے..

میں نے پیار سے کنول کو الوداع کہا اس کی انکھوں میں نمی تھی..

کچھ دیر بعد میں نادیدہ حالت میں ارشانہ کے ساتھ فضاء میں بلند ہوچکا تھا ارشانہ نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا کیونکہ میرے پاس اڑنے کی شکتی نہیں تھی..

ہمارا رخ اپنے قبیلے کی طرف تھا جہاں نئے مسائل میرے منتظر تھے.

قسط نمبر : 23

جن زاد

ہم فضاء میں اڑ رہے تھے اور ارشانہ غیر محسوس طریقے سے میرے قریب اچکی تھی..

شاید وہ اپنی قربت کا احساس دلانا چاہتی تھی..

میرے سامنے موجود دوسرے مسائل ارشانہ سے زیادہ اہم تھے..

سب سے پہلا مسئلہ میری طاقتوں کا تھا اس کے بعد دونوں قبیلوں میں موجود چپلقلش..

ارشانہ میں نے یہ تو معلوم کر لیا تھا کہ ہمارے قبیلے کا کوئی جن زاد دوسرے قبیلے کی عورت کو بھگا کر لے گیا ہے..

ساتھ ہی دونوں کوئی ایسا عمل جانتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں قبیلوں کے لوگ بھی ان کو تلاش نہیں کر پارہے..

کم کیس ہی سہی مگر ایسا ہوتا ہے اس بات کو اتنا بڑھادیا گیا کہ دونوں قبائل میں جنگ کی نوبت اگئی..

کیا یہ عجیب بات نہیں ہے..

تم معاملے سے لاعلم ہو سردار ارشانہ نے جواب دیا..

وہ عام عورت نہیں تھی تاشمر قبیلے والوں کے سردار کی بیوی تھی..

اوہ..میں حیرانگی سے ارشانہ کو دیکھتا رہ گیا..مجھے تفصیل بتائو ارشانہ..

سردار..ہمارے قبیلوں میں اپنے قبیلے سے باہر شادی کا کوئی رواج نہیں ہے ناں ہی ایک دوسرے سے رشتے داری بناتے ہیں..

ہر قبیلے کا سال میں ایک تہوار کا دن ہوتا ہے..

اس دن دوسرے قبیلوں کے معزز لوگوں کو مہمان کے طور پر بلایا جاتا ہے..

ایسے ہی ایک موقعے پر تاشمر قبیلے کا سردار اپنی بیوی کے ساتھ ہمارا مہمان بنا تھا اور اس کی بیوی تھی بھی بہت حسین..

مگر اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ان کے سردار سے ہوئی تھی..

سردار طاقتور ہوتا ہے اور اسے یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی عورت کو بیوی کے طور پر چن سکتا ہے..

ان کے سردار نے بھی زبردستی اسے اپنی بیوی بنایا تھا…

مگر شاید وہ عورت خوش نہیں تھی کیونکہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی..

سردار کی طاقت سے سب ہی خوفزدہ رہتے ہیں اس لئے اس عورت کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے کسی قبیلے والے جن کو سردار کے خلاف کر سکتی اور ..

تمھارا مطلب ہے اس عورت نے  سردار کی ضد میں یہ حرکت کی..میں نے ارشانہ کی بات کاٹ کر پوچھا..

ضد بھی اور نیچا دکھانے اور اسے ذلیل کرنے کے لئے بھی کہ سردار اپنی عورت کی حفاظت نہیں کرسکا اس کے لئے یہ شرم کا مقام ہوتا..

وہ عورت جب سردار کے ساتھ ہمارے قبیلے میں ائی تو اس نے ہمارے قبیلے کے ایک نوجوان کو اپنے قابو میں کر لیا..

کیسے..سردار..مطلب اس کا شوہر کہاں تھا تب اور قابو کیسے کرلیا میں نے حیرانگی سے پوچھا..

یہی تو سارا اختلاف ہے ہمارا یہ کہنا ہے کہ اس عورت نے کسی عمل کے ذریعے ہی اس نوجوان کو قابو میں کیا تھا…

ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مہمان قبیلے کے سردار کی بیوی کی طرف انکھ اٹھا کر دیکھتا..

تو کیا اس بات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا..میں نے سوال کیا..

نہیں..وہ عورت تاشمر قبیلے کے کاہن کی بیٹی تھی..جو جادو کا بہت بڑا عامل ہے..

اس عورت نے اپنے باپ سے کچھ ایسے عمل سیکھے ہوئے تھے کہ ہم ناں ہی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں اور ناں ہی یہ جان پارہے ہیں کہ اس وقت دونوں کہاں ہیں..ارشانہ نے بات مکمل کی..

مگر تاشمر والوں کا کاہن تو یہ جانتا ہوگا یا کم سے کم جان سکتا ہوگا ناں..

اگر اس کاہن نے اپنی بیٹی کو سب کچھ سکھایا ہے تو یقینی بات ہے وہ خود اس سے زیادہ جانتا ہوگا..میں نے کہا..

ہاں ایسا ہونا تو چاہئے مگر وہ اپنی بیٹی کے خلاف کیوں جائے گا…

بلکہ ہم میں سےکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہی ان کو تحفظ بھی دے رہا ہے اور اس کی مرضی سے یہ سب معاملہ ہوا ہے..

تو تاشمر کا سردار کیا اتنا عقل سے پیدل ہے کہ وہ یہ سب باتیں نہیں سمجھ رہا اور جنگ پر امادہ ہے..میں نے سوال کیا..

مسئلہ صرف اس کے سمجھنے کا نہیں ہے اس کی عزت مٹی میں ملنے کا ہے…

اس کا ملبہ وہ ہم پر ڈالنا چاہ رہا ہے اور اس میں قصوروار بحرحال ہمارے قبیلے کا نوجوان بھی ہے..

کیا یہ کمال بات نہیں کہ ایسا خاص کوئی عمل ہے جس کا توڑ دونوں قبیلوں کے لوگ مل کر بھی نہیں کر پا رہے ہیں..

ہم انھیں تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں سردار..

وہ عمل جاننے کے لئے بھی ہم نے کئی قبیلوں کے بزرگوں اور کاہنوں سے رابطہ بھی کیا..

وہ عمل تو ہم جان گئے مگر اس کا توڑ کسی کے پاس نہیں ہے..ارشانہ نے وضاحت کی..

یعنی توڑ تو موجود ہوگا مگر ہم میں سے کوئی نہیں کر پارہا یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی عمل ہو اور اس کا توڑ ناں ہو..میں نے جواب دیا..

ہاں ایسا کہ سکتے ہیں سردار..مگر اگر ہم نہیں جانتے تو اس کا توڑ ہونا ناں ہونا کیا معنی رکھتا ہے..

معنی رکھتا ہے ارشانہ..اس عمل کا توڑ کر کے ان دونوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے..

ابھی دو سورج کا وقت ہے ناں ہمارے پاس..

ابھی قبیلے جانے کا فائدہ نہیں رک جائو کہیں اور چلو..

مگر..سردار..کیا بہتر نہیں کہ ہم قبیلے چل کر بزرگوں کے مشورے سے کوئی قدم اٹھائیں..

ان کے پاس کوئی ایسا مشورہ ہوتا تو جنگ کی نوبت ہی کیوں اتی..میں نے جو کہا ہے وہ کرو..میں نے سختی سے ارشانہ کو کہا..

ٹھیک ہے سردار..ارشانہ نے اپنا رخ بدل لیا اور کچھ دیر بعد میرا ہاتھ تھامے زمین پر اتر گئی..

یہ  بہت وسیع جنگل ہے سردار اس کے بعد پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے…

بہت فاصلے پر ہمارا بھی اور دیگر قبیلے بھی اباد ہیں ارشانہ نے زمین پر اترنے کے بعد کہا..

تم نے کہا تھا کہ تم تمام اختیارات اور طاقتوں کے ساتھ ائی ہو..اس کا کیا مطلب تھا..میں نے پوچھا..

ہمارے قبیلے کے کاہن کی انگوٹھی میرے پاس ہے…

سردار تمھارے علم میں ہوگا کہ اگرچہ سردار سب سے طاقتور ہوتا ہے..

مگر کاہن جادو وغیرہ کے معاملے میں کہیں زیادہ مہارت رکھتے ہیں..

اس انگوٹھی میں کاہن کی بیشتر طاقتیں ہیں یعنی اس کی مدد سے کوئی بھی کام کیا جاسکتا ہے..

ہم جنگل میں ایک مناسب جگہ دیکھ کر رک گئے تھے وہاں گھاس پھونس موجود تھی جس پر ارشانہ میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھی..

لائو مجھے دو وہ انگوٹھی..

ارشانہ نے ایک زنجیر سے بندھی انگوٹھی گلے سے اتار کر میری طرف بڑھا دی جسے میں نے انگلی میں پہن لیا اور اپنے اصل روپ میں انے اور اپنی شکتیاں واپس حاصل کرنے کا تصور کیا..

جن زاد

قسط نمبر : 24

اگلے ہی لمحے میں اپنے اصلی روپ میں اچکا تھا..

اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ..

جن زاد..شاشین..یہی میرا اصل تھا..

ارشانہ ستائشی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی..

میں نے انکھیں بند کیں اور اپنے ابائو اجداد کا تصور کیا..

جہاں سے ہماری قوم اور ہماری نسل کی ابتداء ہوئی تھی..

کروڑوں برس قبل کے مناظر میری انکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے..

زمین اگ کا گولا تھی.

ہر طرف پگھلا ہوا لاوا ابل رہا تھا..

پھر اہستہ اہستہ وہ لاوا ٹھنڈا ہونا شروع ہوا..زمانے گزرتے چلے جارہے تھے..

پھر اگ کے شعلوں سے ہماری نسل کی ابتداء ہوئی..اود ہم دنیا بھر میں پھیلنے لگے..

تب انسانوں کا کوئی وجود نہیں تھا ہر طرف صرف جنات کی نسلیں تھیں جو بڑھ رہی تھیں..

میں نے قبیلوں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا..

دنیا کےمختلف حصوں میں پھیلتے ہوئے دیکھا..

مگر میری تلاش ابھی بھی جاری تھی..

بہت دیر بعد میں اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرپایا..

ہرطرح سے تسلی کر کے میں نے اخرکار انکھیں کھول دیں..

ارشانہ منتظر نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی..

کیا میں جان سکتی ہوں سردار اپ کس چیز کی تلاش میں تھے..

ارشانہ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میں کاہن کی انگوٹھی اور اپنی طاقتوں کی مدد سے کسی خاص چیز کی تلاش کر رہا تھا..

ہاں..ہمیں بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ارشانہ..مجھے یقین ہے میں اپنے مقصد میں کامیاب رہوں گا..

صبح کا اجالا نمودار ہوگیا ہے کچھ کھانے کا انتظام کرو پھر ہم سفر پر روانہ ہونگے..

ہم نے پھل کھا کر پانی سے پیاس بجھائی اس کے بعد میں اور ارشانہ فضاء میں بلند ہوگئے..

میرا رخ کوہ ارارات کی طرف تھا..

اس کے نزدیک ترکی, ایران اور روسی ارمینیا کی سرحدیں ملتی ہیں..

کوہ ارارات دو چوٹیوں پر مشتمل ہے…

دونوں چوٹیوں کے درمیان سات میل کا فاصلہ ہے…

بڑی چوٹی کی انتہائی بلندی 16945 فٹ ہے…

چھوٹی چوٹی کی ڈھلوان ہموار اور مسلط ہے اور اس کی انتہائی بلندی 12877 فٹ ہے…

ان دونوں چوٹیوں کے قریب دور دور تک کوئی اور چوٹی اتنی بلند نہیں ہے..

دونوں چوٹیاں لاوے اور آتشی چٹانوں سے بنی ہیں…

کسی زمانے میں یہاں آتش فشانی کا عمل ہوتا تھا مگر اب اس پر ہر وقت برف جمی رہتی ہے..

میری منزل وہی بڑی چوٹی تھی..

طویل سفر کے بعد میں اور ارشانہ اس بڑی چوٹی پر پہنچ گئے..

ارشانہ کو میں نے ابھی تک کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی اس لئے وہ حیران تھی..

مگر میرے ایک بار کہنے کے بعد اس نے دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا تھا..

چوٹی برف سے مکمل ڈھکی ہوئی تھی..

میں نے اپنی طاقت کو استعمال کرنا شروع کیا تو برف درمیان سے پھٹ گئی اور اس میں ایک دراڑ نمودار ہوگئی..

ہم دونوں فضاء میں معلق ہوکر اس دراڑ میں داخل ہوگئے..

چوٹی سے چند سو فٹ نیچے پہنچ کر میں رک گیا اور اپنے دائیں طرف کے پتھروں کی دیوار میں موجود ایک کھوہ کی طرف بڑھ گیا..

چند لمحوں بعد ہم اس کھوہ میں داخل ہوچکے تھے..

یہاں ملگجا سا اندھیرا تھا..

چند قدم چلنے کے بعد وہ کھوہ دائیں طرف مڑ گئی..

مزید کچھ دیر اگے بڑھنے پر ہم ایک وسیع غار نما جگہ پر پہنچ گئے..

اس غار کے عین درمیان میں ایک تابوت موجود تھا جو ہوا میں معلق تھا..

میں نے ارشانہ کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور چلتا ہوا اس تابوت کی طرف بڑھ گیا..

یہ پتھر کا ایک بہت بڑا تابوت تھا جو پتھر ہی کے تراشے ہوئے ایک ڈھکن سے بند تھا..

میں نے کاہن کی انگوٹھی سے مدد لی اور ایک عمل پڑھنا شروع کردیا…

چند لمحوں بعد اس تابوت کا ڈھکن ایک طرف سرک گیا..

میں وہیں کھڑا انتظار کرتا رہا..

کچھ دیر میں اس تابوت میں ایک شخص اٹھ کر بیٹھ چکا تھا جس کی داڑھی برف کی طرح سفید اور چہرہ جھریوں بھرا تھا..

اس نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور تابوت سے باہر نکل ایا..

خوش امدید باباطارانوس..میں تعظیما جھک گیا اور سر اور نظریں جھکا لیں..

تو اخر تم اگئے اور تم نے مجھے جگا دیا…بابا کی گھمبیر اواز غار میں گونجی..

میں خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑا رہا..

جب میں اس تابوت میں سویا تھا تب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے..

میرے علم نے مجھے بتایا تھا کہ ایک دن تم ائو گے اور مجھے اس تابوت میں جگا دو گے..

بابا میں…میں نے بولنا چاہا مگر بابا نے میری بات کاٹ دی..

میں جانتا ہوں تمھارے یہاں انے کا مقصد شاشین..

مگر کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے..

تم جو چاہتے ہو تمھیں مل جائے گا…مگر…بابا نے بات ادھوری چھوڑ دی..

مگر کیا بابا..میں نے نظریں اٹھائیں..

جب تم اپنا کام ختم کر لو تو تم یہیں میرے پاس واپس ائو گے اور میرا وہ مقصد پورا کرو گے جس کے لئے میں نے ہزاروں برس انتظار کیا ہے شاشین…

اگر میں اپ کے کسی کام اسکا تو میری خوش نصیبی ہوگی بابا..

نہیں شاشین..شاید جب تم واپس ائو تب تمھاری سوچ اس سے مختلف ہو..

اس لئے تم مجھے وعدہ دو تم اپنا کام مکمل کر کے لوٹ کر ائو گے اور میرا کام مکمل کرو گے..

میں وعدہ کرتا ہوں بابا..میں نے انکساری سے کہا..

میں جانتا تھا اس وعدے کا کیا مطلب اور حیثیت ہے..

اگر میں اسے توڑتا تو جل کر راکھ ہوجاتا..

ٹھیک ہے میرے پاس ائو..بابا نے کہا..

میں نظریں جھکائے چلتا ہوا بابا کے پاس پہنچ گیا..

منہ کھولو..انھوں نے کہا تو میں نے اپنا منہ کھول دیا..

بابا نے اپنے تیز ناخن سے سیدھے ہاتھ کی تیسری انگلی پر کٹ لگایا اور وہ انگلی میرے منہ میں ڈال دی..

نمکین خون کا ذائقہ مجھے زبان پر محسوس ہوا..

میں نے وہ خون زبان سے چاٹ کر اپنے حلق میں اتار لیا تو بابا نے انگلی میرے منہ سے نکال دی..

جائو اب اور اپنا کام ختم ہوتے ہی واپس پلٹ انا یاد رکھنا…

دیر مت کرنا..میرے پاس وقت بہت کم ہے..

میں نے بابا کی بات سن کر ان کا ہاتھ تھام کر بوسہ دیا اور الٹے قدموں چلتا ہوا پیچھے ہٹتا چلا گیا….

قسط نمبر : 25

جن زاد

  سر اور نظریں جھکائے الٹے پائوں چلتا ہوا اس غار سے نکل ایا…

ارشانہ جو پیچھے کھڑی تھی میری تقلید میں اسی طرح تعظیما چلتی ہوئی میرے ساتھ باہر اگئی..

طارانوس بابا کی طرف میں پشت نہیں کر سکتا تھا ان کی عمر, ان کا مقام ان کا مرتبہ ایسا تھا کہ ان کی تعظیم فرض تھی..

ان کے خون کے ایک قطرے نے مجھ پر حقیقتوں کے نئے جہان وا کردئے تھے..

ہر چیز کا ہر راز  میرے سامنے کھل گیا تھا..

ہر پردہ میری نظروں کے سامنے سے ہٹ گیا تھا..

تاشمر کے سردار تو کیا پورے قبیلے کی اب مجھ اکیلے کی طاقتوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی..

مگر میری طاقتیں ابھی ادھوری تھیں..

بابا نے جو دان دیا تھا اسے مکمل طور پر حاصل کرنے اور اپنے وجود کا حصہ بنانے نیز ان کے ادھورے کام کو انجام دینے کے لئے مجھے واپس لوٹنا تھا..

میں جان گیا تھا وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں..

میں نے ان سے عہد کیا تھا واپس لوٹنے کا میں چاہتا بھی تو اس عہد کو نہیں توڑ سکتا تھا اور میں نہیں ہماری نسل سے کوئی اپنا عہد توڑنے کی ہمت نہیں کرسکتا..

ایسا کرنے کی صورت میں اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اس لئے عہد ہمارے لئے زندگی موت کا معاملہ ہوتا ہے..

سردار..ارشانہ نے مجھے پکارا تو میں اپنے خیالات سے باہر اگیا..

یہ کون تھے اور یہ سب کیا تھا..اس کی انکھوں میں حیرت اور ستائش تھی..

یہ بابا طارانوس تھے..

ہمارے ابائواجداد میں سے ایک..

جن سے ہماری نسلیں چلیں..

روئے زمین پر انکی عمر سے ادھی عمر بھی کسی جن زاد کی نہیں ہے ارشانہ..

میری خوش نصیبی تھی یا شاید وقت نے یہی لکھا تھا کہ مجھے ان کی قربت نصیب ہو..

میں نے کاہن کی انگوٹھی اور اپنی طاقتوں سے یہی جاننے کی کوشش کی تھی کہ زمین پر کوئی ایسا جن زاد موجود ہے جو سب سے زیادہ عمر کا ہو..

ایسا ہی کوئی جن زاد میری مدد کرسکتا تھا..

ان کی طاقتوں کا تمھیں ذرہ بھر اندازہ نہیں ہے..

انھوں نے مجھے جو دان کیا ان کی طاقتوں میں سے تھوڑا سا حصہ ہے اور صرف اس کے بل پر تاشمر کا سردار تو کیا پورا قبیلہ بھی مل کر میرا مقابلہ نہیں کرسکتا..

میری باتیں سن کر ارشانہ کی انکھیں حیرت سے زیادتی سے پھٹنے کے قریب تھیں..

مجھے عہد دو ارشانہ کہ جو کچھ تم نے دیکھا جو کچھ تم نے جانا اخری سانس تک تم تک محدود رہے گا اور تم بابا کا راز افشاء نہیں کروگی..

ارشانہ میرے سامنے جھک گئی اور اس نے اس بات کا عہد کرلیا..

یہ بہت ضروری تھا اگر میں چاہتا تو ارشانہ کی یادداشت سے سب کچھ ختم کردیتا…

مگر مجھے واپس لوٹنا تھا اور قبیلے میں مجھے کسی ایسے قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت تھی جو میرے معاملات کو جانتا ہو..

ہم اس وقت پہاڑ کی چوٹی پر تھے..

میں نے انکھوں سے اشارہ کیا تو برف کی دراڑ بند ہوگئی اور ہم دونوں فضاء میں بلند ہوگئے..

ہمارا رخ اب اپنے قبیلے کی طرف تھا..

وہ قبیلہ جو میرا قبیلہ تھا اور اپنے سردار کا منتظر تھا..

ہمارا سفر قبیلے کی طرف جاری تھا اور اخرکار ہم قبیلے میں پہنچ گئے جہاں میرے لوگ میرے اور ارشانہ کے منتظر تھے..

میں اپنے چچا سے ملا قبیلے کے بزرگوں سے ملا سب لوگوں کے چہرے پر خوشی تھی مگر وہاں ایک شخص ایسا بھی تھا جو میرے انے سے خوش نہیں تھا نائب سردار یعنی چچا کا بیٹا تاشین..

اگر میں کسی وجہ سے مرجاتا تو سرداری کے حقدار میرے چچا ہوتے اور یقینا ان کے بعد ان کا بیٹا تاشین..

ہماری عمریں ہزاروں برس تک ہوتی ہیں چچا بوڑھے ہوچکے تھے اور تاشین ان کی جگہ سنبھالنے کے لئے تیار تھا..

مگر ایسے میں قبیلے کے حالات اور میری واپسی نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا..

اگرچہ وہ انتہائی ذہین اور قبیلے کا سب سے طاقتور جنگجو تھا مگر سرداری کی لالچ نے اسے حسد کرنے پر مجبور کردیا تھا..

میں اس سے نظریں ملاتے ہیں سب کچھ جان گیا تھا مگر میرا دنیا میں کوئی نہیں تھا..

یہی ایک دو خون کے رشتے بس اور میری خواہش تھی یہ قائم رہیں مگر انے والا وقت مجھے بتارہا تھا کہ تاشین میرے لئے مشکلات کھڑی کرے گا..

اس وقت میرے لئے دوسے مسائل ضروری تھے اس لئے میں نے تاشین کا معاملہ بعد کے لئے چھوڑ دیا..

یہ بابا طارانوس کی عطا تھی ان کا دن تھا جو ہر ایک کا ظاہر اور باطن میرے سامنے عیاں نظر اتا تھا..

میری رہائش کے لئے الگ جگہ کا انتظام کردیا گیا تھا مگر میں نے اپنے بابا کے رہائش کو اپنانے پر ترجیح دی..

میری خواہش پر اس جگہ کو میرے لئے تیار کروا دیا گیا اور میں وہاں اگیا..

یہاں بابا رہتے بھی تھے اور یہیں بزرگوں اور قبیلے کے بڑوں سے مشاورت کے لئے ایک وسیع جگہ موجود تھی..

میں فی الحال ارام کرنا چاہتا تھا اس لئے میں نے تمام کاموں اور لوگوں کو اگلے دن پر رکھ لیا حتی کہ چچا اور قبیلے کے بزرگ مجھ سے مشاورت کرنا چاہتے تھے انھیں بھی میں نے اگلے دن پر ٹال دیا..

ارشانہ میری خواہش پر میرے ہمراہ تھی..

میں اپنے بابا کی مسند پر براجمان تھا یہ لکڑی اور چمڑے سے بنا تخت تھا جس کے سامنے چمڑے سے بنی فرشی نشتوں کا اہتمام کیا گیا تھا..

ارشانہ میرے سامنے دائیں طرف زمین پر براجمان تھی..

ارشانہ..سب سے پہلا کام یہ کرو کہ تمام نو قبیلوں کو پیغام بھجوا دو کہ پرسوں ہمارے قبیلے میں دعوت عام ہے اور سردار اپنے سارے قبیلے کے ساتھ تشریف لائیں..

پیغام دینے کے لئے جو لوگ جائیں ان میں ہمارے قبیلے کےمحترم لوگ شامل ہوں اور اپنے ساتھ تحائف بھی لے کر جائیں..

مگر سردار..نو قبیلے..ان کے تمام لوگ..ارشانہ میری بات سن کر پریشان ہوگئی تھی..

اتنا بڑا انتظام پھر ان سب کی دعوت وہ بھی صرف ایک دن میں یقینا یہ مشکل تھا مگر میرے ذہن میں کچھ اور تھا اور میں اس پر عمل کرنا چاہتا تھا..

ہاں ارشانہ اس قبیلے کے سردار کی حیثیت سے یہ میرا پہلا حکم ہے اور اسے ہر صورت لفظ بہ لفظ پورا کیا جانا چاہئے..

میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے اور وقت بہت کم ہے یہ سب انتظامات کے لئے مگر پھر بھی اسے ممکن بنانا ہے…

قبیلے کے تمام لوگوں کو کاموں پر لگا دو اور سب میں ذمہ داریاں بانٹ دو..

دعوت کے انتظامات تم چچا اور تاشین کے ذمے لگا دو کہ وہ اپنی نگرانی میں اس سلسلے کے سارے کام کروائیں..

تمام قبیلوں میں پیغامات بھجوانے کے لئے ہمارے کاہن ہاموس کو ذمہ داریاں سونپ دو وہ اس سب کا انتظام کریں..

تمام انتظامات میں کسی قسم کی کمی نہیں رہنی چاہئے..

اور تمھاری لئے ایک خاص کام ہے تم وہ کرو گی میں نے اسے کچھ ہدایات دیں..

کھڑی ہوجائو..اور اپنا اوپری لباس اتار دو..

ارشانہ نے میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی اور کھڑی ہوگئی..

چند لمحوں میں اس نے اوپری لباس کی بندشیں کھول دیں تھیں..

میں اپنی نشت سے کھڑا ہوا اور چلتا ہوا ارشانہ کے پاس پہنچ گیا..

میں نے اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا اس کے سینے کے درمیان رکھ دیا..

درد کی شدت سے ارشانہ کی چیخ نکل گئی مگر وہ ضبط کئے کھڑی رہی..

میں نے انگوٹھا ہٹایا تو وہاں میرے نام کی مہر لگ چکی تھی..

اج سے تم میری نمائندہ ہو اور ہمیشہ کے لئے صرف میری دسترس میں رہو گی ناں تو تم کسی اور جن زاد سے کوئی جسمانی تعلق رکھو گی اور ناں ہی شادی کرو گی اور اخری سانس تک میری خدمت کے لئے مامور رہو گی..

میں نے انگوٹھا اس کے ماتھے پر رکھ کر وہاں بھی اپنے نام کی مہر ثبت کردی..

اب ہر دیکھنے والا یہ جان لیتا کہ ارشانہ سردار کی نمائندہ اور پیامبر ہے اور اس کی ہر بات جو وہ کہے سردار کی بات ہے..

میں نے ارشانہ کے لئے کچھ خاص سوچا ہوا تھا..

میں اپنی طاقتوں کے مدد سے یہ جان چکا تھا کہ ارشانہ وفادار اور بھروسے کے قابل ہے اور میرے لئے جان دینے کی حد تک پرخلوص بھی اس لئے میں نے اسے اپنے ساتھی کی حیثیت سے چن لیا تھا..

اب جائو ارشانہ..میں نے جو ہدایات دیں ہیں ان پر عمل کروائو میں کل صبح سب سے ملاقات کروں گا..

ارشانہ نے اپنے لباس کی بندشیں کس لیں اور میرے ہاتھ پر بوسہ دے کر الٹے پائوں چلتی ہوئی باہر نکل گئی..

ارشانہ کے جانے کے بعد میں اندرونی طرف اپنی رہائش گاہ میں اکر بستر پر دراز ہوگیا..

لیٹنے کے بعد مجھے کنول کا خیال ایا تو میں نے اس کے حالات جاننے کا تصور کیا تو مجھے جھٹکا لگا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا..

قسط نمبر : 26

تحریر : ارشد احمد

کنول کا جسم شعلوں میں گھرا ہوا تھا اور وہ بری طرح چیخ و پکار کر رہی تھی..

اس کا لباس جل کر راکھ ہوچکا تھا اور وہ برہنہ کھڑی تھی اور اس کے گرد اگ کا ایک دائرہ تھا جو اسے جلا  نہیں رہا تھا صرف خوف سے وہ چیخ رہی تھی..

میں اسے گھر کی حفاظت کے لئے کیل دے کر ایا تھا..

اس نے میری بات کو اہمیت نہیں دی شاید یا بھول گئی اور وہ کیل دیوار میں پیوست نہیں کیا..

اس کا نتیجہ بھیانک نکلا تھا ایک اور بدروح اس پر مسلط ہوگئی تھی..

میں نے اپنی طاقتوں کے ذریعے معلوم کیا جس جگہ یہ مکان تھا کسی زمانے میں یہاں جنگل ہوتا تھا..

پھر وہ جنگل صاف کر دیا گیا اور اس کی جگہ مکانات نے لے لی..

برسوں پہلے یہاں موجود مکان میں ایک ہندو میاں بیوی رہتے تھے..

شوہر دینا ناتھ اور بیوی کا نام کامنی دیوی تھا..

دینا ناتھ کالے علم کے چکروں میں اپنی زندگی برباد کرچکا تھا مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں ایا..

ایسے میں ایک دن اچانک کسی جوگی کا وہاں سے گزر ہوا..

دینا ناتھ بھی اس دن گھر پر موجود نہیں تھا…

صدا لگانے پر دروازے پر جاکر اس کی بیوی نے اس جوگی کو کھانا دیا وہیں سے ان کی بربادی کا اغاز ہوگیا..

وہ جوگی کے بھیس میں ایک کالے علم کا ماہر تھا جو کامنی پر عاشق ہوگیا..

دینا ناتھ اور کامنی دیوی کی کوئی اولاد نہیں تھی اور یہ کامنی کی کمزوری تھی..

اس نے اس جوگی سے اولاد کے لئے دعا مانگنے کا کہا..

جوگی نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اسے اپنی باتوں میں اور کچھ عمل کے زور پر قابو کر کے یقین دلا دیا کہ دینا ناتھ نامرد ہے اور وہ کبھی اولاد حاصل نہیں کر پائیں گے..

مگر اگر کامنی چاہے تو وہ ایک عمل کر سکتا ہے جس سے کامنی کی گود ہری ہوجائے گی..

جوگی نے اسے کہا کہ عمل کرنے کے لئے اسے گھر میں انا پڑے گا اور اس کے لئے کامنی کی موجودگی بھی لازمی ہے..

مگر کامنی کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ دینا ناتھ کو رات کو کسی بھی بہانے سے کہیں بھیج سکتی..

اس کا حل جوگی نے یہ نکالا کہ کامنی کو ایک سفوف دیا کہ اسے چائے میں ملا کر شوہر کو کھلا دو تو وہ گہری نیند سوجائے گا..

جب جوگی کو یقین ہوگیا کہ کامنی پوری طرح اس کے جال میں پھنس گئی ہے تو وہ اگلی رات انے کا کہ کر چلا گیا..

کامنی شش و پنج میں مبتلا رہی مگر اولاد کی خواہش کچھ جوگی کی باتیں اور کچھ اس کے عمل کی طاقت سے وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوگئی..

اگلی رات کامنی نے دینا ناتھ کو وہ سفوف چائے میں ملا کر دے دیا اور وہ بیہوشی کی نیند سو گیا..

جوگی اپنے مقررہ وقت پر ایا اور کامنی اسے گھر کے اندر لے ائی..

کچھ دیر میں ایک کمرے میں دونوں موجود تھے جہاں جوگی کو عمل کرنا تھا..

جوگی نے کامنی کو پانی اور دو پیالے لانے کو کہا اور پانی انے کے بعد اس نے کامنی کی نظر بچا کر ایک پیالے میں ایک دوا شامل کردی…

وہ اج کے دور کے حساب سے ویاگرا کی قسم کی دوا تھی یعنی سرخ جنسنگ نامی جڑی بوٹی اور دیگر کچھ جڑی بوٹیوں سے اس جوگی نے ایک دوا تیار کی تھی جو اس نے کامنی کو کھلا دی..

اس دوا میں اس اثر کے ساتھ مدہوشی کی دوا بھی شامل تھی اور کامنی جس نے کبھی کسی نشے کو چکھا تک نہیں تھا اس دوا کے زیر اثر مدہوشی کی کیفیت کے زیر اثر اگئی..

جوگی اسے سامنے بٹھا کر منتر پڑھنے کا ڈراما کرتا رہا کچھ دیر گزری تو اس دوا کا اثر ہونا شروع ہوا..

کامنی کے تن بدن میں اگ لگ گئی اور ہیجانی کیفیت سے وہ بے قرار ہونے لگی اس پر مدہوشی سونے پر سہاگہ تھی..

..

اس کے بعد حوس کا ننگا کھیل اس کمرے میں کھیلا جانے لگا..

وقت گزرتا رہا مگر اس دوا کے زیر اثر کامنی کی اگ سرد ناں ہوئی اور جوگی اس کا ساتھ دیتا رہا..

دونوں کی قسمت کی خرابی تھی کہ دینا ناتھ کی انکھ کھل گئی اور وہ کامنی کو تلاش کرنے اپنے کمرے سے باہر اگیا..

کمرے کی کھلی کھڑکی سے اس نے دونوں کو دیکھا تو اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا..

جس بیوی کو وہ جان سے عزیز رکھتا تھا اور بے پناہ محبت کرتا تھا وہ خود شیرنی کی طرح جوگی کو بھنبھوڑ رہی تھی..

غصے نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا اور اس نے کمرے کو باہر سے کنڈی لگائی…

اور گھر میں موجود مٹی کے تیل کا گیلن اٹھا کر کھڑکی کے راستے سارا تیل کمرے میں الٹ دیا اور دیا سلائی سے اگ دکھا دی..

کامنی دیوی اور جوگی کے ساتھ شاید دینا ناتھ کا بھی برا دن تھا یا اس کی موت ائی ہوئی تھی..

اس کا پائوں پھسلا اور گرتے ہوئے اس کا سر چارپائی کے کونے سے ٹکرا گیا..

کامنی کے پلائے ہوئے سفوف کے زیر اثر وہ پہلے ہی دماغی طور پر کمزور تھا اس پر اس چوٹ نے اسے ہوش و حواس کی دنیا سے بیگانہ کردیا..

دینا ناتھ کی لگائی ہوئی اگ نے کامنی دیوی اور جوگی کے ساتھ ساتھ پورے گھر کو جلا کر راکھ کردیا اور ساتھ ہی دینا ناتھ بھی اس اگ میں اپنی زندگی ہار گیا..

کئی برسوں تک وہ مکان کھنڈر کی شکل میں موجود رہا اخر کار اس کو ایک شخص نے خرید کر نئے سرے سے بنوایا مگر اسے بھی اس مکان میں رہنا نصیب نہیں ہوا..

اس شخص کے بعد کئی لوگ اس مکان میں ائے مگر کوئی پراسرار بیماری سے مرتا رہا کوئی ان بدروحوں کے خوف سے چھوڑ کر جاتا رہا..

میں نے جلد بازی میں وہ مکان خریدتے ہوئے اس کے بارے میں تحقیق نہیں کی تھی جس کا نتیجہ مجھے اب بھگتنا پڑ رہا تھا..

فوزیہ کے جسم میں سمانے والی بدروح اس جوگی کی تھی جسے ارشانہ نے جلا کر راکھ کیا تھا اور اب دینا ناتھ کی بدروح کنول پر مسلط ہوچکی تھی..

میں اگر وہاں موجود ہوتا تو چٹکی بجاتے اسے راکھ کردیتا مگر قبیلے کے اور دیگر معاملات اس سے زیادہ ضروری تھے..

دوسرا دینا ناتھ کی بدروح اس کا لباس جلا سکتی تھی اسے خوفزدہ کرسکتی تھی مگر اس کی جان لینے یا ایسا کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت اس میں نہیں تھی..

میں نے اپنی طاقت سے کام لیتے ہوئے لیٹے لیٹے ارشانہ کو اواز دی اور اسے اپنے کمرے میں حاضر ہونے کا حکم دیا..

کچھ دیر بعد ارشانہ میرے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے چہرے پر حیرانگی اور تجسس تھا..

وہ سوچ رہی تھی کہ رات کے وقت سردار کے اپنے کمرے میں بلانے کا مقصد شاید اسودگی ہے..

میں نے اسے کنول کی بابت سارا معاملہ بتایا اور اسی وقت اسے وہاں جاکر کنول اور اس گھر کو کو ان بدروحوں سے نجات دلانے کا حکم دیا اور ساتھ میں تاکید کی کہ اپنی نگرانی میں وہ حفاظتی کیل دیوار میں لگوا کر واپس ائے..

ارشانہ کے جانے کے بعد میں نے سکون کا سانس لیا مجھے یقین تھا ارشانہ اسانی سے اس معاملے کو انجام دے لے گی..

اس طرف سے بے فکر ہوکر میں نے انکھیں موند لیں اور نیند کی وادی میں ڈوب گیا

قسط نمبر : 27

جن زاد

اگلی صبح میں نے اٹھ کر اپنی طاقتوں کی مدد سے کاموں کا جائزہ لیا..

چچا اور تاشین کی نگرانی میں دعوت کے انتظامات زورو شور سے جاری تھے..

عام مہمانوں کے لئے میدان میں پیچھے الگ انتظام کردیا گیا تھا اور قبائلی سرداروں, کاہنوں اور خاص مہمانوں کے لئے اگلی طرف نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا..

ہمارے قبیلے کے کاہن نے معزز بزرگوں کی نو ٹولیاں بنا دی تھیں اور انھیں تحائف دے دئے گئے تھے..

ہر ٹولی الگ الگ قبیلے میں جا کر دعوت کا پیغام دے کر اتی..

میں نے ارشانہ پر نظر دوڑائی..

ارشانہ اپنا کام مکمل کر کے واپس اچکی تھی…

اس دینا ناتھ اور کامنی دیوی کی بد روحیں اس نے جلا کر راکھ کر دی تھیں اور اپنی نگرانی میں گھر کو محفوظ بنا کر ائی تھی..

اب وہ میرے دوسرے اور سب سے اہم کام پر جانے کی تیاری کر رہی تھی اور اپنی مدد کے لئے وہ قبیلے کے دو جنگجوئوں کو بھی ساتھ لے کر جارہی تھی..

وہ پورا دن میں نے انتظامات کرنے میں گزار دیے…

جاری ہے

#everyonefollowers #highlightseveryone

Loading