Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔

لندن کے فیض میلے

تحریر۔۔۔فیضان عارف

ساقی فاروقی نے اپنی کتاب ”ہدایت نامہ شاعر“ میں فیض احمد فیض پر جو مضمون لکھاہے وہ اُردو کے اس عظیم شاعرکی لندن میں مصروفیات کے حوالے سے ایک بہت ہی عمدہ، معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے۔ اس مضمون میں ساقی فاروقی نے فیض اکیڈمی لندن کے ایک تعزیتی جلسے (1984) میں اپنی تقریر کا اقتباس رقم کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ”ایک اندازے کے مطابق کم از کم تیرہ کروڑ اسی لاکھ سولہ ہزار نو سو دو افراد فیض صاحب کے نام سے واقف ہیں ان میں سے پچاس فیصد ایسے ہیں جنہیں ان سے مصافحے کا شرف حاصل ہوا، دس فیصد ایسے ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ تصویر کھنچوائی، ان میں سے پانچ فیصد ایسے بھی ہوں گے جن کے کاندھے پرمرحوم نے اپنا دلدار ہا تھ رکھ دیا ہوگا، بڑا شاعر کیا کرتا ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم مگر جب بڑا آدمی جاتا ہے تو اپنے پیچھے کہانیاں ہی کہانیاں چھوڑ جاتاہے“۔ فیض احمدفیض نے لندن میں ایک گھر بھی خریدا تھا۔ فنچلی کا یہ گھر چند سال اُن کے تصرف میں رہا اس گھر کو فروخت کرنے کے بعد وہ جب بھی لندن آئے تو اپنے دوست محمد افضل کے گھر قیام کرتے بعد ازاں وہ زہرا نگاہ اور ماجد علی کے ہاں ٹھہرنے لگے جہاں ادبی محفلوں اور شاعر ادیبوں سے ملاقاتوں کی وجہ سے رونق لگی رہتی تھی۔ فیض صاحب کی بیگم ایلس جارج لندن میں پیدا ہوئیں تھیں اور اُن کی زندگی کا ابتدائی حصہ اسی شہر میں گزرا اس لئے فیض صاحب اور ان کی فیملی کے لئے لندن بہت اہمیت رکھتا تھا۔ایلس اور اُن کی بہن کرسٹوبیل نے اپنی ٹین ایج یعنی سن (30) کی دہائی میں ہی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کرلی تھی۔ایلس کو اس دوران انڈین دانشور اور سیاستدان کرشن مینن کے ساتھ کام کرنے اور فری انڈین لیگ کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایلس اور ان کی بہن کر سٹوبیل نے انڈیا جا کر بائیں بازو کی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور دوسری عالمی جنگ چھڑنے پر جو دونوں بہنوں نے انڈیا میں قیام کوہی ترجیح دی۔ کر سٹو بیل نے قیام پاکستان سے قبل ایم ڈی تاثیر (سلمان تاثیر کے والد) سے شادی کر لی جبکہ ایلس جارج نے 1941ء میں فیض احمد فیض سے نکاح کر لیا۔ اُن کی یہ شادی سری نگر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے پری محل میں ہوئی۔ ایلس فیض نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام کلثوم رکھا اور ان کا نکاح شیرکشمیر شیخ عبد اللہ نے پڑھایا تھا۔

 بی سی سی آئی یعنی بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹر نیشنل کے دنوں میں جب اُردو مرکز کا قیام عمل میں آیا تو یہ وہ زمانہ تھاجب ضیاالحق کی آمریت سے دلبرداشتہ پاکستان کے بہت سے ناموراہل قلم لندن میں پناہ گزین تھے۔ مشتاق یوسفی بی سی سی آئی سے وابستہ تھے جبکہ اُردو مرکزلندن کی سربراہی ممتاز شاعر افتخار عارف کے سپرد تھی۔ اس دوران فیض صاحب جب بھی لندن آتے تو اُن سے ملنے کیلئے مداحوں کا تانتا بندھ جاتا۔ اُردو مرکز اور بی بی سی اردو سروس نے ان دنوں فیض صاحب کے اعزاز میں جو تقریبات اور اانٹرویو کئے وہ آج بھی اُردو شعروادب کے قارئین اور ناظرین کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ فیض صاحب کے انتقال کے بعد لندن میں اُن کے لئے کئی تعزیتی جلسے ہوئے اور پھر فیض امن میلے اورفیض فسٹیول منعقد ہونا شروع ہوگئے۔ گزشتہ چند برسوں سے برطانوی دارالحکومت میں فیض صاحب کے حوالے سے جو میلے اور فیسٹیول منعقد ہو ر ہے ہیں اُن میں پاکستان سے فیض صاحب کی بیٹیوں سلیمہ ہاشمی یا منیزہ ہاشمی کے علاوہ فیض صاحب کے دوستوں اور احباب کومدعو کیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک لندن میں صرف ایک فیض امن میلہ منعقد ہوتا تھا جس میں پورے یونائیٹڈ کنگڈم اوریورپ کے کئی ممالک سے ترقی پسند اورروشن خیال پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوتی تھی، فیض صاحب کے مداح سال بھر اس جشن کا انتظار کرتے تھے لیکن پھر فیض میلے کے منتظمین کے درمیان پھوٹ پڑنے سے اس سالانہ فیسٹیول کی رونق ماند پڑتی گئی اور الگ الگ تقریبات نے میلے کی کشش کو کم کر دیا اس کے علاوہ جو چند مخصوص مہمان یا فیض صاحب کی بیٹیاں اس فیسٹیول میں مدعو کی جاتی ہیں اُن کے پاس اس عظیم شاعر کے بارے میں کہنے کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ہونا تویہ چاہیئے کہ فیض صاحب نے جن نظریات کا پرچار یا پیروی کی اُن کو میلوں اور فیسٹیولز کاموضوع بنایا جائے اور تجزیہ کیا جائے کہ عصر حاضر میں اُن نظریات کے فروغ کی کتنی ضرورت اور گنجائش باقی رہ گئی ہے یا پھر صرف دختررز سے لطف اندوزی ہی فیض صاحب کی مداحی اور ان کے نظریات کی پیروی اور ستائش کے لئے کافی ہے۔فیض احمد فیض اردو کے وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کا نام ایک فیشن بن چکا ہے اسی لئے سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی جب لندن آتی ہیں تو لوگ انہیں سرآنکھوں پربٹھاتے ہیں اور اُن سے شاعری کے اعلی ذوق اور اپنے والد کے حوالے سے عمدہ گفتگوکی توقع کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں منیزہ ہاشمی کی کتاب(CONVERSATION WITH MY FATHER) کی رونمائی کے سلسلے میں لندن کے علاوہ سویڈن، ڈنمارک، او سلو میں تقریبات منعقد ہوئیں۔ میں تو ان تقریبات میں شریک نہیں ہو سکا لیکن جو لوگ کسی ایک تقریب میں بھی شریک ہوئے وہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ منیزہ ہاشمی کی اپنے والد کے حوالے سے گفتگو اور مکالمہ شرکا کی توقع کے مطابق تھا یا نہیں؟

 اُردو شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے باذوق لوگوں کی اکثریت اپنے زمانے کے نامور شاعروں اور ادیبوں سے یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ بطور انسان بھی اعلی اور شاندار شخصیت کے مالک ہوں گے۔ ساقی فاروقی نے ن م راشد پر اپنے مضمون حسن کوزہ گر میں فیض اور راشد کی جن دو ملاقاتوں کی تفصیل تحریر کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض صاحب صرف عمدہ اور شاندار شاعر تھے۔ مہمان نوا زی اور میزبانی کے تقاضے اُن کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔فیض صاحب کی بے مثل شاعری کی تاثیر اپنی جگہ لیکن اُن کی شخصیت کے کئی پہلووں کو جاننے کے لئے محترمہ سرفراز اقبال کے نام فیض کے خطوط پر مشتمل کتاب دامن یوسف اور ساقی فاروقی کی کتاب ہدایت نامہ شاعرمیں شامل مضمون”فیض احمد فیض، زاد سفر کا ایک ورق“ کا مطالعہ ضروری ہے۔ دامن یوسف میں فیض کے بعض خطوط اپنے اندر بہت سی دلچسپیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ محترمہ سرفراز اقبال کے نام ان خطوط کے چند اقتباسات قارئین کی دلچسپی کے لئے حاضرہیں۔ فیض لکھتے ہیں

(1) جہاں تک بدعادتوں کا تعلق ہے، تمہاری عادت ہمیں بھی کچھ اتنی پڑ چکی ہے کہ آنکھ کھلتے ہی

 ؎ ”صباکے ہاتھ میں نرمی ہے اُن کے ہاتھوں کی“ کا مضمون ذہن میں آتا ہے۔ تمہارے لئے اچھی بات یہی ہے کہ ہم تمہیں ٹکٹ بھجوا دیتے ہیں، تم اپنے میاں سے مہینے بھر کی چھٹی لے کر ہمارے پاس آجاؤ اورہم ضمانت دینے کو تیار ہیں کہ تمہیں صحیح و سالم واپس کر دیں گے۔

(2) تمہیں نیا گھر مبارک ہو۔ یہ افسوس ضرور ہے کہ ہم نے نہیں دیکھا، اس میں ہماراکوئی کمرہ ہوگا خیر کبھی وہ بھی ہو جائے گا لیکن اگر تمہارا ریٹائر ہونے کا ارادہ نہیں تو اس دوران میں کیا ہوگا؟۔خالد سعید بٹ کو لکھتے ہیں کہ جاسوسی کے فرائض انجام دے۔

(3) تم نے ہمارے دوست میر صاحب(علی محمد تالپور) کو بھی دریافت کر لیا، بھلا تم سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔ لیکن کسی خوبصورت عورت کو میر صاحب کی رکھوالی میں دینا تو گوشت اور بلی والا معاملہ ہے۔

 غلط قسم کے دوست چننے میں جو مہارت تمہیں حاصل ہے اس کا کچھ علاج ضرور ہونا چاہئے مسکرا کر خیر مقدم کرنے تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر مسکرانے کا اندازہی ایسا ہو کہ کسی کے دل میں لڈو پھوٹنے لگیں تو اس میں کسی کی کیا خطا۔ اس کے جواب میں تم کہو گی کہ ہم کیا کریں ہماری صورت ہی ایسی ہے تو وہ بات بھی ٹھیک ہے۔

 بیگم سرفر از اقبال پہلی بار احمد فراز کے توسط سے فیض صاحب سے متعارف ہوئیں اس حوالے سے وہ اپنی بے تابی کا بھی اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ”فیض صاحب کا فون ریسیو کرنے کے بعدمیری اس روز کی کیفیت کوئی نہیں جانتا۔ اپنی باتوں اور اپنے انداز سے فیض صاحب مجھے کتنے معصوم لگے اور میرا جی چاہا کہ میں صحن میں بیٹھ کرشگفتہ پھولوں اور معصوم چڑیوں کو دیکھتے ہوئے ساری عمر گزار دوں یا پھراُڑتے بادلوں کی نرماہٹ سے اپنے مکان کی دیواروں پر اتنی بار فیض صاحب کا نام لکھوں کہ دیواریں اور بادل دونوں ختم ہو جائیں“۔

 ساقی فاروقی نے ایک بارلندن میں فیض صاحب کا نرم مزاجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن سے شکوہ کیا تھا کہ”آپ فرصت کا رونا روتے ہیں اصل میں آپ نے اپنے آپ کو بہت پھیلا رکھا ہے، لکھنے پڑھنے کا وقت آپ کے پاس نہیں رہا۔پچھلے دس پندرہ سال میں جو غزلیں نظمیں آپ نے لکھی ہیں وہ آپ کے معیار کی نہیں، آپ سے توقعات کچھ اورہیں۔ یہ سچ ہے کہ آپ نے جو طرز سخن ایجاد کی تھی وہی گلشن میں طرزفغاں ٹھہری ہے مگر آپ وقت کی کمی کے باعث اپنی سطح سے بہت نیچے اتر گئے ہیں،پھر آپ کی گفتگو اورآپ کی تحریرسے پتا چلتا ہے کہ کم از کم 20 سال سے آپ نے کوئی نئی کتاب نہیں پڑھی یہ اُردو ادب کے ساتھ بڑی زیادتی ہے“۔

 جواب میں فیض صا حب نے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھئی فرصت ہی نہیں ملتی نا، اب پڑھیں تو کیسے پڑھیں پھر ہم نے اپنا بہتر کام تو ختم کر دیا ہے اسی سے ہمیں پہچانو۔ یہ نئی چیزیں اگر معیار سے ذرا گر گئی ہیں تو ہم کیا کریں شاعر کو اس کے بہتر کلام سے ہی پر کھا جاتا ہے۔

 ساقی فاروقی لکھتے ہیں کہ فیض صاحب کی غیر معمولی فرشتہ صفتی پر صرف ایک داغ نظر آتا ہے۔ وہی تعلقات عامہ والا۔ اس کے کئی مناظر میری گہنگار آنکھوں نے دیکھے ہیں، کلیدی صحافیوں سے بنائے رکھنا، بعض احمقوں کو بار بار خط لکھنا ایک ہی طرح کی دیبا چہ بازی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سیاسی رویے کی کرشمہ سازیاں تھیں لیکن ایسے سجیلے شاعر پرسات خون معاف تھے۔ وہ شاعر تھے اور شاعر رہیں گے، نہ انہوں نے پیغمبری کا دعوی کیا نہ وہ پیغمبر تھے۔

٭٭٭

https://akhbar-e-jehan.com/detail/62122/londons-faiz-mela

Loading