Daily Roshni News

جہنمی_دروازا۔

جہنمی_دروازا۔
مکمل کہانی

دسمبر 1980 وقت رات دو بجے
بری طرح بارش ہورہی تھی۔ لگتا تھا سارا شھر جل تھل ہو جائے گامیں پانی سے تر تھا اور بہت بھوک لگی تھی
کیونکہ صبح ناشتے میں میں نے صرف ایک سینڈ وچ کھایا تھا اور اسٹیشن سے یہاں تک پیدل آنے کی وجہ سے تھکن سے نڈھال تھا میرے پاس اور کوئی جگہ نہ تھی جہاں چلا جاتا اس لئے ایک گھنٹے تک پیدل سفر کرنے کے بعد میں
مورگن بیڈفورڈ فلیٹوں پر مبنی تین منزلہ عمارت میں پہنچا
میں دروازا کھول کر اندر داخل ہوا اور کاؤنٹر کی طرف بڑھا
کاؤنٹر خالی دیکھ کر میں انتظار کرنے لگا اور اس پاس نظر دوڑائی ایک بوڑھا جو شاید وہاں کا سوئیپر تھا مجھے
ناگواری سے دیکھ رہا تھا کیونکہ میرے جوتوں پر کیچڑ
لگی ہوئی تھی جس سے فرش خراب ہوچکا تھا
جواب میں میں نے بھی اسے معذرت نظروں سے دیکھا
اچانک مجھے اوپر کی منزل سے کجھ شور محسوس ہوا
میں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا تو کجھ بندے ایک
تابوت اٹھاتے ہوئے نیچے اتر نے کی کوشش کر رہے تھے
سیڑھیاں بہت چھوٹی تھیں اس لئے انہیں تابوت اتارنے
میں دقت ہورہی تھی۔ ایک آدمی جو تابوت کا ایک سرا
پکڑے ہوئے تھا اس نے مجھے مدد کے لئے پکارا تو میں
نے بھی آگے بڑھ کر تابوت کا ایک سرا پکڑ لیا
اور تابوت کو نیچے اتارنے میں ان کی مدد کرنے لگا
تابوت کا ڈھکن نہیں تھا اور میں لاش کو دیکھ کر چونک
اٹھا۔ ھماری حرکات کی وجہ سے لاش ڈول رہی تھی
اور اس کا سر تیزی سے ادھر اُدھر گھوم رہا تھا
وہ کسی دپلی پتلی عورت کی لاش تھی اور ۔۔۔۔۔۔ اس کا چہرا سپید نیلا ہورہا تھا۔ہونٹوں تک کا یہی حال تھا۔
اس کے بند پپوٹوں تلے سے اس کی آنکھوں کی سیاہی
نظر آرہی تھی۔
تابوت اٹھاتے ہوئے ھم عمارت سے باہر نکلے تو باہر
میت گاڑی کھڑی جو شاید ابھی آئی تھی۔
تابوت کو گاڑی میں رکھنے کے بعد ایک نیلی آنکھوں والے
شخص نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا
“بھائی تمہارا بہت شکریہ تم نے ایک نیک کام کیا”

“کوئی بات نہیں۔” میں نے جواباً کہا “آج میں نے پہلی بار
کوئی لاش دیکھی ہے”

“کیا۔۔؟” اس شخص نے حیرت سے میری طرف دیکھا
“‘پہلی بار؟” میں نے گردن ہلائی اور میں واپس عمارت
میں داخل ہوا
کاؤنٹر میں اب ایک عورت کھڑی تھی جس کی عمر کوئی پچاس سال ہوگی۔ میرے خیال میں بیس سال کی عمر میں وہ یقیناً خوبصورت رہی ہوگی۔ اب اس کا چہرا بیضوی ہوگیا تھا اور اس کے نقوشِ تیکھا پن کھو چکے تھے
اس کے جسم پر کجھ اسی رنگ کا کوٹ تھا جو فوجی
کوٹوں کا ہوتا ہے۔ اس کے سفید ہوتے ہوئے بالوں میں
پنیں لگی ہوئی تھیں اور وہ سگریٹ پی رہی تھی۔

“مسز مورگن؟” میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور
کہا “میرا نام جیک ہے”

اس نے مجھے گھورا۔۔۔۔۔۔ پھر سگریٹ کا کش لیا اور کہا
“ہاں ۔۔۔ فادر ڈینیل نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا
اور تم خوش قسمت ہو کے ابھی ایک فلیٹ خالی ہوا ہے”
پھر اس نے سگریٹ کا کش لیا اور کہا ” تم کافی بھیگ
چکے ہو اور تمہارا سامان کہاں ہے؟”

“میرے پاس صرف یہ کپڑوں کا بیگ ہے سامان نہیں ہے۔
میرا مطلب ہے میرا خیال تھا روم فرنشڈ ہوگا” میں نے کہا

اس نے کش لیا اور دھواں اگلا “ٹھیک ہے ” پھر اس نے
ٹائٹ ڈریس کو بدن سے لپیٹا کھولا اور پھر لپیٹا اور بولی
“کیا تم کمرا دیکھوگے؟”

“ہاں” میں نے کہا اور بسورے مونہ کے ساتھ مسکرایا

مسز مورگن مڑکر چلی تو میں نے دیکھا کہ اس کے کولہے
بہت چوڑے ہیں۔ وہ مجھے اوپری منزل کی سیڑھیوں
پر لے گئی
اس عمارت میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جیسے دیکھ کر طبیعت میں خوشی محسوس ہو۔ یہاں رہنا میری مجبوری
تھی کیونکہ میری اتنی حیثیت نہیں تھی کہ میں کوئی
اچھی اور مھنگی بلڈنگ میں کوئی کمرا افورڈ کرسکتا۔
زینوں پر لگا وال پیپر مٹ میلا ہوچکا تھا
پینٹروں پر دھبے پڑے ہوئے تھے اور سیڑھیاں بوجھ سے
چرچرا رہی تھیں اور مسز مورگن کسی کوہ پیما کی طرح
منزلِ کی سیڑھیاں چڑھ رہیں تھیں
اوپر پہنچ کر وہ ایک کمرا نمبر 15 کا لاک کھولنے لگی تو مجھے اس کمرے کے تھوڑا سا آگے ایک اور کمرا نمبر 19 نظر آیا جس کا دروازا کھلا ہوا تھا اور سوئیپر لڑکے صفائی کر رہے تھے
” یہ کمرا کس کا ہے ؟” میں نے پوچھا

“یہ ھمارا سب سے اچھا کمرا ہے. کیونکہ یہاں سے سمندر
دکھائی دیتا ہے اور کچن بھی ہے اس میں اور یہ مسز جینی کے مرنے کے بعد ابھی خالی ہوا ہے
یہ کمرا یہاں کی کرائے دار لڑکیوں میں بہت مقبول ہے
لیکن جب تک مسز جینی ژندہ تھی انہونے یہ کمرا نہیں
چھوڑا ۔ وہ تو کہتی تھیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری
ایام اسی کمرے میں گزارنا چاہتی ہیں”

“تو ان کی یہ آخری خواہش پوری ہوگئی” میں نے کہا

یہ سن کر مسز مورگن نے گردن گھما کر مجھے دیکھا
“دیکھو تم سوچ سمجھ کر بولا کرو” اس نے سرزنش کی
“کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کے وہ ھمارے کمرے کی وجہ سے مری”
“ارے نہیں۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں تو سوچ رہا تھا وہ کمرا کافی خوبصورت ہوگا”

میں نے بات بدلتے ہوئے کہا اور اس دھویں سے بچنے کی کوشش کی جو وہ بولتے ہوئے مسلسل میرے مونہ پر ہی اگل رہیں تھیں

“اچھا ۔۔۔ لیکن وہ کمرا میں تمہیں نہیں دے سکتی. کیونکہ کوئی لڑکی اسے پہلے سے بک کروا چکی ہے” اس نے مسکراتے
ہوئے کہا

“نہیں ۔۔۔ مجھے اس کمرے کی کوئی ضرورت نہیں میرے لئے تو یہ چھوٹا کمرا ہی ٹھیک ہے” میں نے لاپرواہی سے
اپنے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس میں ایک سنگل بیڈ جس پر میلا سا بستر بجھا ہوا تھا

“ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہاں پر رہنے کے لئے تمہیں یہاں کے
قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔ تم یہاں کوئی پارٹی نہیں کروگے
رات میں تمہارا کوئی دوست یہاں نہیں ٹھہرے گا
اور دوسروں کے آرام کا خیال رکھنا پڑے گا”

میں نے فرماں برداری سے سر ہلایا۔ میرے جیب میں صرف
آدھا پونڈ پڑے تھے اور وہ پارٹیوں کی بات کر رہی تھی
اس رقم سے تو میں پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتا تھا۔

“تمہیں دو ہفتوں کا کرایہ ڈپازٹ کرانا ہوگا اور ایک ماہ
کا کرایہ ایڈوانس میں ” اس نے کہا “کل رقم 13 پونڈ”

“ھمم ۔۔۔۔ام۔ ” میں نے تھوک نگلا ” مسز مورگن کیا یہ ممکن ہے کہ کرایہ اس ھفتے کہ آخر میں لیں؟ کیونکہ میرا
بیروزگاری وضیفے کا چیک آنے ہی والا ہے”

مسز مورگن نے مونہ سے بہت سا دھواں اگلا اور کھانسی
“میں ایسی رعائتیں عام طور پر نہیں دیتی”

“میں بہت ممنون ہوں گا” میں نے کہا

“چلو ۔۔۔۔ ٹھیک ہے” اس نے حاتم طائی کی قبر کو لات مارنے والے انداز میں کہا اور مڑ کر سیڑھیوں کی طرف چل دی
پہلی سڑھی اُترتے ہوئے اس نے پھر مڑ کر آواز لگائی
“مگر جمعہ کو رقم ملنی چاہیے”

اس کے جاتے ہی میں نے کمرے کا دروازا لاک کیا
مجھے یہاں تنہائی کا احساس تو ہو رہا تھا پر میں مطمئن تھا کہ مجھے لندن میں سر چھپانے کی جگہ مل گئی تھی
اور میں یہاں روزگار کے سلسلے میں آیا تھا
میرا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا کیونکہ میری پرورش
یتیم خانے میں ہوئی تھی اور اب میں آزاد تھا
حکومت کی طرف سے مجھے وضیفا تو ملتا تھا پر وہ
میرے لئے ناکافی تھا فادر نے مجھے لندن جانے کا مشورہ
دیا اور مسز مورگن کے بارے میں بتایا تھا۔
میرا بھی خیال تھا یہاں شاید مجھے ملازمت مل جائے گی
کسی مال یا کسی پیزا شاپ وغیرہ میں۔
میں نے اے لیول تک ک پڑھ رکھا تھا اور مجھ انگلش اور فرنچ بھی آتی تھی۔ اسکول اور کالج میں ھمیشہ
میرے نمبر کم ہی آتے تھے کیونکہ میں ایک کاہل لڑکا تھا
بس چھوٹے چھوٹے کام کرنا ہی پسند تھے مجھے
اور کجھ مزہبی بھی تھا۔
کمرے میں دروازے کے پیچھے ایک پرانا سا تولیہ لٹکا
ہوا تھا میں نے اپنے جسم کو اس سے خشک کیا اور عمارت سے باہر نکل آیا بارش اب رک چکی تھی
باہر آکر میں نے صرف ایک خالی بن اور دودھ کا ڈبہ لیا
کیونکہ میں رقم بچانا چاہتا تھا پھر کمرے میں آکر میں اپنے مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے سوگیا۔

صبح دیر تک میں سوتا رہا اچانک مجھے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر گڑگڑاہٹ کی آوازیں آنے لگی اور کجھ شور بھی سنائی دیا۔ میں نے اٹھ کر دروازا کھولا دیکھا تو کمرا نمبر 19 میں سامان رکھا جارہا تھا شاید وہاں کوئی شفٹ ہو رہا تھااچانک اس کمرے سے مسز مورگن نکلی اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی دکھائی دی اس کی آنکھیں زرا بڑی بڑی اور سبز تھیں اس نے کاٹن کی ایک منی اسکرٹ پہن رکھی تھی
اور اس کی گود میں ایک کیوٹ بچہ بھی تھا جو تین سال کا معلوم ہورہا تھا۔

“گڈ مارننگ مسٹر جیک” مسز مورگن نے مسکراتے ہوئے کہا
“بیلا ۔۔۔۔ ان سے ملوں یہ مسٹر جیک ہیں جو کل ہی یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ “

میں نے بیلا سے ہاتھ ملایا تو اس نے مسکرا کر کہا
“تم سے ملکر خوشی ہوئی مسٹر جیک ۔ یقیننا ھم اچھے پڑوسی ثابت ہونگے ۔

بیلا سے مل کر میں واپس اپنے کمرے میں آیا اور فریش
ہوکر اپنے بیگ سے شرٹ نکالی اس کو پہنا۔ اس کے بعد
میں نے اپنے پاس موجود رقم گنی کل تین پائونڈ اور سات
پنس تھے پھر میں نے طے کیا کہ باہر جاکر کجھ کھا لینا
چاہیے۔۔۔
میں درمیانی لینڈنگ پر تھا کہ میں نے بیلا کو دیکھا
جو اپنا کمرے کا دروازا اپنے پیچھے بند کر رہی تھی
“ہیلو جیک ۔۔۔۔۔ کیا مارکیٹ جارہے ہو؟”

“جی ہاں۔۔۔۔ کسی حد تک ، شاید میں کوئی چادر وغیرہ
لے لوں۔” میں نے کہا

“کیا صرف اس لئے جارہے ہو؟” بیلا نے مسکراتے پوچھا

“نہیں ۔۔۔ کھانے کے چکر میں ہوں” میں نے کہا

بغیر کسی تذبذب کے وہ بڑھی اس نے میرا ھاتھ تھام لیا
اپنی اونچی ایڑی کے باوجود وہ قد میں مجھ سے بہت چھوٹی تھی جبکہ میں پھرپور جسم کا مالک تھا
“ٹھیک ہے میرے لئے بھی کجھ لے لینا”

“پر میرے جیب میں بس تین پائونڈ ہیں”
میں نے معصومیت سے کہا

“کیا تم مزاق کر رہے ہو؟” اس نے بھویں اچک کر پوچھا

“ارے نہیں ” میں نے اپنی جیب سے نکال کر اپنی کل متاع
دکھائی جس پر بیلا ھنس دی پھر مجھے شرمندہ دیکھ
کر بولی” چلو میں ادائیگی کردوں گی”

پھر اس نے اپنی چھتری اٹھائی اور ھم دونوں ہلکی سی
بارش میں نکل پڑے ایک بوتھ میں بیٹھ کر ھم نے بھنے ہوئے گوشت کا آرڈر دیا۔ بیلا ایک بے تکلف لڑکی تھی
اس نے پہلی ملاقات میں ہی ماحول کو بدل دیا تھا
وہ کھا رہی تھی بول رہی تھی اور ہنس رہی تھی
وہ ایک زور دار لڑکی تھی میں تو بس اسے دیکھے جارہا تھا
بچو جیسا اس کا چہرا تھا خوبصورت بڑی آنکھیں۔
مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ بھی مجھ میں دلچسپی لے رہی ہو ۔۔

“مجھے ولسن سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی”
بیلا نے کولڈ ڈرنک کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا
“میں احمق تھی ۔۔ مگر وہ وجہہ تھا اس لئے اس کے پاس لڑکیوں کی کمی نہیں تھی ۔ سائمن کے پیدا ہونے کے بعد
اس نے مجھے طلاقِ دیدی اور اب میرے سر سائمن کی
ذمےداری ہے”

“سائمن کہاں ہے” میں نے پوچھا

“کمرے میں ہے سورہا ہے۔ وہ دوبجے تک سوتا ہے”
اس نے مجھ سے پوچھا “تم لندن میں کیا کروگے؟”
میں نے اسے اپنے حالات بتائے تو اس نے ھمدردی کے ساتھ
نیک تمناؤں کا اظہار کیا
بیلا نے لنچ کی رقم خود ادا کی جو تین پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی۔ پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی
” پروا مت کرو۔ولسن ایک معاملے میں اچھا ہے
وہ ہر ہفتے سائمن کے لئے سات پائونڈ بھیجتا ہے مجھے”

کھانے سے فارغ ہوکر ھم دونوں واپس بیڈفورڈ عمارت
میں پہنچے ھم دونوں جیسے ہی اندر داخل ہونے تو میری نظر کاؤنٹر پر موجود مسز مورگن پر پڑی
مجھے محسوس ہوا جیسے وہ مجھے ناگواری سے دیکھ
رہی ہو وہ سیگریٹ پھونک کر دھواں اگل رہی

ہم اسے نظر انداز کر کے اوپری منزل پر آئے اور جیسے ہی میں اپنے کمرے کے دروازے پر رکا تو بیلا نے آواز دی
” اگر کافی پینی ہو تو میرے روم میں آسکتے ہو”

کمرا نمبر 19 میرے کمرے سے چار گنا بڑا تھا
سائمن اپنی کاٹ پر مونہ میں انگوٹھا ڈالے سورہا تھا
وہ ایک پیارا سا بچہ تھا۔ میرا جی چاہا یہ میرا بیٹا ہوتا
بیلا قریب کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی
“کیا تمہیں بچے اچھے لگتے ہیں؟” بیلا نے مسکراتے پوچھا

“ہاں ۔۔۔۔ میں یتیم خانے میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے
ہی جوان ہوا ہوں۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے”
پھر میں کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگا
“مسز مورگن کہتی ہے یہ کمرا بہترین ہے؟” میں نے کہا

“ایسی تو کوئی خاص بات نہیں۔ انہیں بس اس کمرے سے
لگاؤ ہے اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس نے بتایا تھا
کہ پہلے یہ کمرا شادی کے بعد ان کے اور مسٹر مورگن کے
زیر استعمال تھا” بیلا نے لاپرواہی سے کہا

میں کھڑکی کے قریب آیا جہاں سے سمندر کا نظارہ تھا کھڑکی کے پاس ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی
ایک قوس جیسا آئینہ بھی لگا تھا اور ایک ڈبل بیڈ جس
کے پیچھے ایک دروازا تھا “کیا یہ اسٹور روم ہے؟”
میں نے دروازے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا جس کا رنگ
کچن اور باتھ روم کے دروازے سے تھوڑا مختلف تھا

“مجھے نہیں پتا ۔۔ یہ مقفل دروازا ہے۔ مسز مورگن نے
کہا تھا کہ اس کو بند ہی رہنے دو” بیلا نے کہا

میں نے آگے بڑھ کر دروازے کے ہینڈل کو آزمایا مگر وہ مضبوطی سے بند تھا ” ہوسکتا ہے اس کے پیچھے کوئی
اور کمرا ہو جو کسی کے استعمال میں نہ ہو یا پھر مسز مورگن کی کجھ ذاتی چیزیں ہوں” میں نے کہا

“ہوسکتا ہے ۔۔۔ پر ھمیں کیا” بیلا نے لاپرواہی سے کہا اور
کچن میں کافی بنانے چلی گئی
تھوڑی دیر میں ننھا سائمن اپنی پلنگڑی پر کسمسایا۔۔ اور
اس نے آنکھیں کھول دیں میں اس کے قریب گیا تو
وہ گول گول آنکھوں سے حیرت سے مجھے دیکھنے لگا

دو دنوں میں فادر نے مجھے میرا چیک نئے ایڈریس پر بھیج
دیا جسے کیش کروانے کے بعد رات کو میں ڈائری میں
اپنا بجٹ بنانے لگا اور یہ میری عادت تھی۔

بجٹ بناکر میں سوگیا اچانک کجھ عجیب آوازوں سے
میری آنکھ کھلی میں نے اٹھ کر دیکھا تو کجھ چوہے تھے
جو میرے کمرے میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے
میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے میں چوہوں
کو نظر انداز کر کے کروٹ بدل کر سوگیا
لیکن چوہوں کا شور مسلسل بڑھنے لگا تھا جو پھدک کر ٹیبل پر چڑھ رہے تھے کھانے کی کوئی چیز تو میرے کمرے میں تھی نہیں یہ ضرور واش روم کے سوراخ سے آئے ہونگے
اور میں تو اتنا سست تھا کہ بتی جلا کر دیکھنا بھی
گوارا نہیں کیا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ چوہوں کا
شور تھم سا گیا ہے ایک دم چھا جانے والے سکوت سے میں تھوڑا گھبراگیا اچانک مجھے غرانے کی آواز آئی
میں نے چونک کر اٹھ بیٹھا اور بتی جلائی دیکھا تو
ٹیبل پر ایک کالا اور موٹا بلا بیٹھا ہوا تھا جو اپنی لال لال
آنکھوں سے مجھے گھورے جارہا تھا
شاید اسے دیکھ کر چوہے بھاگ گئے تھے
وہ ٹیبل پر بلکل ساکت بیٹھا ہوا تھا مگر انداز ایسا تھا
کہ ابھی مجھ پر جھپٹ پڑے گا
کمرے کا دروازا بند تھا یہ ضرور روشندان سے آیا تھا
میں نے اسے ڈرانے کے لئے ھاتھ ہلایا تو وہ خوفناک انداز میں غرانے لگا تو پہلی بار مجھے خوف محسوس ہوا
وہ اپنے لمبے اور سفید دانت نکوستے ہوئے مجھے
گھور رہا تھا اس کی لال آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی
تومیرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی
میں اس کے حملے سے بچنے کے لئے اھستہ سے ھاتھ بڑھا کر تکیہ اٹھا لیا اور تیزی سے اٹھ کر دروازے کی طرف لپکا
اور دروازا کھول کر باہر نکل آیا اور گہرے سانس لینے لگا
باہر ایک لوہے کی سلاخ پڑی تھی جسے اٹھا کر میں دوبارہ
اپنے کمرے میں آیا پر اب وہ بلا غائب ہوچکا تھا
شاید وہ روشندان سے بھاگ گیا تھا ۔۔

صبح میں فریش ہوکر مسز مورگن سے ملنے کے لئے کاؤنٹر
پر آیا میں انہیں پےمنٹ کرنے اور اس روشندان پر جالی
لگانے کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا تھا
سوئیپر نے مجھے بتایا کہ مسز مورگن اپنے کمرے میں ہیں
آپ وہاں جاکر ان سے مل لیں۔
میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا تو وہ ڈائننگ
ٹیبل پر بیٹھی ناشتے میں مصروف تھیں
“گوڈ مورننگ مسٹر جیک ۔۔۔ کیا آپ ناشتہ کریں گے؟”

“بہت شکریہ میم ۔۔۔ میں دراصل کرائے کی ہے منٹ کرنے
آیا تھا ۔ اور ایک شکایت تھی کہ رات مجھے ایک خوفناک
بلے ۔۔۔۔۔۔۔ ” میں رک گیا کیونکہ میری نظر سامنے دیوار پر
لگی ایک بہت بڑی تصویر پر پڑی ۔
مسز مورگن مجھے حیرت میں پاکر مڑ کر تصویر کی طرف
دیکھتے ہوئے بولیں ” یہ مسٹر مورگن کی تصویر ہے”

تصویر میں مسٹر مورگن نے سرخ رنگ کے کپڑے پہن رکھے
تھے ان کا چہرا سخت اور بے رحمانہ نظر آرہا تھا
آنکھوں میں سفاکی جھلک رہی تھی لمبی ناک جو کسی
شکرے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی تھی
اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی
وہ ایک خوبصورت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے
اور ان کی گود میں ایک کالا بلا تھا جس کی آنکھیں بلکل اسی طرح لال تھیں جیسے رات کو میں نے
اپنے کمرے میں آنے والے بلے کی دیکھیں تھیں۔

“کیا رات کو تمہیں کسی بلے نے پریشان کیا تھا؟”
مسز مورگن نے مجھے حیرت میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا

“ہاں۔۔۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ میں اس روشندان
میں جالی لگانا چاہتا ہوں

“اس کی کوئی ضرورت نہیں مسٹر جیک ۔۔
میں نے تمہارے لئے نیچے فلور پر کمرا منتخب کیا ہے
وہ آپ کے لئے کمرا نمبر 15 سے وسیع اور بہتر رہے گا”

“نہیں ۔۔۔۔ شکریہ میرے لئے وہی کمرا ٹھیک ہے”
میں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا

“کیوں؟… ایسی کیا بات ہے اس کمرے میں کیا وہ
مس بیلا کے کمرے کے نزدیک ہے ۔۔ اس لئے؟”
مسز مورگن نے معنی خیز انداز میں کہا

“دیکھو مسز مورگن… آپ مجھ سے بڑی ہیں اس لئے میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔ لیکن آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ میری
زاتی زندگی پر بات کریں”

میں نے رقم ان کی ٹیبل پر رکھی اور خاموشی سے نکل آیا وہ مجھے دیکھتی رہ گئی۔

میں نے مارکیٹ کا رخ کیا اور کجھ ضروری سامان لیا
ایک چادر لی اور روشندان بند کرنے کے لئے ایک جالی لی
میں نے سائمن کے لئے کجھ کھلونے بھی لئے اور واپس
بیڈفورڈ بلڈنگ آگیا اپنے کمرے میں آکر میں نے ہتھوڑے
سے روشندان پر ہوادار جالی لگادی اور چوہوں کے سوراخ بھی بند کر دئے پھر فریش ہوکر میں کھلونے لیکر
بیلا کے کمرے میں اگیا۔

اگلے دو ھفتے تک میں اور بیلا ساتھ گھومتے رہے
ھم اکثر ساحل پر آجاتے جہاں ننھا سائمن ریت کے گنبد
بناتا رہتا تھا اور ھم گپ شپ کرتے رہتے تھے
سائمن مجھ سے مانوس ہوتا جارہا تھا اور ھم ایک فیملی
کی طرح بنتے جارہے تھے لیکن ھمارے تعلقات کے درمیان
ایک حد تھی جیسے پار کرنے کی میں نے کبھی کوشش
نہیں کی اور نہ ہی کبھی میں نے اسے دل کی بات کی
بیلا کا رویہ میرے ساتھ بہت ہی اچھا مہربان اور پرسکون تھا پھر اچانک کجھ دنوں سے میں نے اس کے رویہ میں
تبدیلی محسوس کی وہ اکثر خاموش اور کھوئی کھوئی
رہنے لگی تھی میں کجھ پوچھتا تو وہ معصوم صورت بناکر ٹال جاتی لیکن مجھے لگتا تھا کوئی بات ہے
جو وہ مجھ سے چھپا رہی تھی

ایک رات میں نے فیصلہ کیا کے اس سے میں اپنے دل کی بات کروں گا میں نے اس کے لئے انگوٹھی خریدی
اور تیار ہوکر اس کے کمرے تک آیا
میں نے دروازے پر دستک دی اس وقت رات کے 9 بج رہے
تھے ہوسکتا ہے سائمن سوچکا ہو
بیلا نے خاصی دیر میں دستک کا جواب دیا
اور بند دروازے سے پوچھا ” کون ہے؟”

“میں” میں نے کہا “دروازا کھولو

“میں کپڑے پہن رہی ہوں” اس نے اندر سے جواب دیا

مجھے اس کا یہ جواز بوندا سا لگا اور میں سوچ میں پڑگیا
“میں سوچ رہا تھا رات کا کھانا باہر کھائیں” میں نے کہا

“میرے پاس رقم نہیں ہے جیک” اس نے جواب دیا

“کھانا میری طرف سے ہوگا بیلا تم دروازا تو کھولو”
میں گھبرا گیا کہ وہ دروازا کیون نہیں کھول رہی

“خدا کے لئے جیک ابھی تم یہاں سے چلے جاؤ کل بات کریں گے” اس نے چیختے ہوئے کہا

میں نے دروازے کو کئی بار تھپکا پر فضول اس نے نہیں کھولا مجھے محسوس ہورہا تھا کوئی اور بھی اس کے ساتھ موجود ہے کیونکہ مجھے اس کی سسکاریاں سنائی دے رہی تھی۔ کہیں اس کا شوہر تو واپس نہیں آگیا تھا
یا پھر اس نے کسی کے ساتھ دوستی تو نہیں رکھ لی
شاید میرے کنگال ہونے کی وجہ سے
اس کا دل مجھ سے بھر گیا ہو
مجھے عجیب سے خیالات آنے لگے
میں واپس اپنے کمرے میں آگیا اور دروازا بند کردیا
میرا دل ڈوبنے لگا تھا میں مایوسی ہوچکا تھا

دوسرے دن مجھے سمندری مچھلی کے ایک بار میں جانا تھا جہاں کے مالک نے مجھے انٹرویو کے لئے بلایا تھا
میں نے کمرے سے باہر نکل بیلا کے کمرے کی طرف دیکھا
جو بند تھا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں
میں نے اھستہ سے دروازے کو تھپکا
“میں نوکری کے لئے جارہا ہوں بیلا” میں نے پکار کر کہا
لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا
میں مایوسی ہوکر بیڈفورڈ سے باہر نکل ایا

آخرکار مجھے بار میں ملازمت مل گئی اس کا مالک بہت
اچھا انسان تھا یہ بار نوٹینگ اسٹریٹ پر تھا
تنخوا بھی اچھی تھی اور رہنے کے ایک کمرا بھی تھا
لیکن میں بیڈفورڈ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا
اس لئے میں نے باس کو چھوٹ بولا کے وہاں میری فیملی ہے
بار میں مجھے حساب کتاب کی ڈیوٹی پر رکھا گیا
میں یہ خوشخبری بیلا کو سنانے کے لئے بیتاب تھا
شام کو میں فارغ ہوکر بیڈفورڈ اگیا
اپنے کمرے میں آکر میں نے سوچا چل کر دوبارہ بیلا سے ملوں بتا نہیں اس کی بے رخی کا سبب کیا ہے
کل رات اس کے کمرے میں جو بھی تھا
ہوسکتا ہے وہ اب جا چکا ہو
میں اس کے کمرے کی طرف آیا
مجھے کمرے سے ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی
ریڈیو بج رہا تھا۔ پھر کسی کے باتوں کی آواز کان میں آئی
مگر یہ بیلا نہیں تھی۔ یہ کسی مرد کی آواز تھی
خاصی بھاری سی اور ہانپتی ہوئی سی۔

اچھا تو اس نے کسی اور سے یارانہ کر لیا تھا
کسی معمر آدمی سے شاید یہ کوئی مالدار ہوگا
یہ اس کا شوہر تو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو طلاق دے چکا تھا۔ پھر میں نے بیلا کی آواز سنی مکر الفاظ سمجھ نہ آئے
میں نے جھک کر دروازے کے قفل سے چھانکا تو
ہوا سے الفاظ میرے کان تک آئے
“ھمیشہ ۔۔ تم نے کہا ھمیشہ؟ مگر میں یہاں ھمیشہ
کیسے رہ سکتی ہوں” بیلا نے کہا

“کیوں میں یہی چاہتا ہوں تم یہاں ھمیشہ رہو”
بھاری آواز نے کہا۔ میں نے اسے صاف سنا ” میں تمہیں
چاہتا ہوں۔ اب تمہیں یہاں رہنا ہوگا

“مگر سائمن کا کیا ہوگا؟” بیلا نے پوچھا

“یہ بچے ۔۔۔۔ سب کے سب لعنتی ہوتے ہیں۔ تم یہ بات سمجھ
لو” بھاری آواز نے جواب دیا

“مگر اس کی دیکھ بھال تو کرنی ہوگی۔ کون کریگا”

“اس کی تقدیر۔۔۔ میری نظر میں اس کی کوئی اھمیت نہیں”
لہجے میں خود غرضی بھری تھی

میں آہستگی سیدھا ہوگیا مجھے یقین ہوگیا کہ وہ اس کا شوہر نہیں بلکہ کوئی اور تھا۔
خاصا سفاک اور کھردرا سا آدمی
مجھے اس پر غصہ آنے لگا۔ اس کی ایسی کی تیسی
میں نے دروازے پر دو تین مکے مارے “بیلا” میں چیخ پڑا
اندر ایک دم سناٹا چھا گیا
“بیلا” میں نے دوبارا تیز لہجے میں آواز دی

مجھے سخت حیرت ہوئی کہ دروازا کھول دیا گیا
مگر صرف تین انچ اندر بیڈ روم لیمپ سے روشنی ہورہی تھی بیلا کی جلد پسینے سے چمک رہی تھی
اس کے بال پیشانی پر چھول رہے تھے
“کیا بات ہے؟” بیلا نے پوچھا “تم شور مچا کر سائمن
کو جگا رہے ہو

“دیکھو مجھے بتاو اندر کون ہے؟”
میں سانپ کی طرح پھٹکارا

اس نے مجھے حیرت سے گھورا ۔
اس کی آنکھوں میں میرے لئے اجنبیت تھی

“یہاں اور کوئی نہیں ہے” بیلا نے سادگی کہا

“جھوٹ مت بولو” میں نے مشتعل لہجے میں کہا
“میں نے اچھی طرح سنا تھا. وہ بچوں کو لعنتی کہ رہا تھا”

“یہ ریڈیو کی آواز سنی ہوگی تم نے ۔۔ میرے کمرے میں
کوئی نہیں ہے”
پھر اس نے دروازے کو پوری طرح کھول دیا
میں نے کمرے کے اندر دیکھا ۔۔ مگر اندر نہیں گیا
وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں اندر جاؤں
سائمن اپنی پلنگڑی پر کروٹ لئے سورہا تھا اس کے جسم
پر ایک چادر پھیلی ہوئی تھی جس سے اس پر روشنی
نہیں پڑ رہی تھی اور سوائے سائمن کے کمرے میں
اور کوئی نہیں تھا کم از کم مجھے کوئی اور نظر نہیں
آرہا تھا۔ البتہ ایک بات میں نے دیکھ لی تھی
وہ مقفل دروازا تھوڑا سا کھلا ہوا محسوس ہوا۔

“دیکھ لیا تم نے؟” بیلا نے پوچھا

میری سمجھ میں نہ آسکا میں اسے جوابا کیا کہوں
مجھے اپنی پوزیشن عجیب سی لگ رہی تھی
میں نے دوبارا اس مقفل دروازے کی طرف دیکھا اور سوچا
میں اس سے اس کا دروازا کھلواتا ہوں
پھر خیال ایا اگر وہاں بھی کوئی نہ ہوا تو؟

اور ایک اور اس سے بھی پریشان کن خیال آیا کہ
اگر اس میں کوئی واقعی ہوا تو بیلا کے اس نئے عاشق کو اپنے سامنے دیکھ کر کیا کروں گا یا کیا کہوں گا؟ ہیلو میں بیلا کا پرانا دوست ہوں جیک۔۔ اور تم؟

میں نے بے بسی سے بیلا کی طرف دیکھا اس کے تیور اب بدل چکے تھے اس کی آنکھوں میں میرے لئے اجنبیت تھی
اب وہ میری بیلا نہیں تھی
میں نے نرم لہجے میں کہا ” آل رائٹ ” میں اس کی سمت
بڑھا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ مجھے اس کے گریز سے
بہت تکلیف ہوئی میں فوراً وہاں سے چل دیا
اور اپنے کمرے میں آگیا اور اس پرانی کرسی پر بیٹھ گیا
جو وہاں رکھی ہوئی تھی
کمرے کے اندھرے میں میں نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ لیا
اور اھستہ اھستہ سسکیاں پھرنے لگا
میں اس طرح رورہا تھا جیسے یتیم خانے میں بچے اپنی ماں کو یاد کر کے روتے تھے
پھر اپنی آنکھیں پونچتے ہوئے سوگیا۔

اگلے روز میں نے خود کو بار میں مصروف کردیا اپنے کام
کے علاؤہ میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ مچھلیاں پکانے میں ان کی مدد بھی کرنے لگا تھا یہاں اسٹاف کے لئے کھانا فری تھا۔ رات کو بار کے لڑکوں نے پارٹی رکھی انہونے مجھے بھی
دعوت دی پر میں نے انکار کردیا اور اپنے لئے کجھ
مچھلیاں تل کر کاغذ میں لپیٹ لی ۔ میرا ارادہ تھا کہ
میں سائمن کو مچھلی کھلاؤں گا
بیڈفورڈ آکر میں نے بیلا کے کمرے کو کھڑکایا
اس بار بھی اس نے جواب دینے میں دیر لگائی اور
جواب آیا تو اس میں تھکن تھی “کیا چاہتے ہو تم”

“میں جیک ہوں۔۔ میں نے نوکری کرلی ہے۔ میں کجھ
تلی ہوئی مچھلیاں اور چپس لایا ہوں

“نہیں ۔۔۔ ہمیں نہیں چاہیے” اس نے کہا

“سنو ” میں نے کہا “کل زرا میرا موڈ خراب ہوگیا تھا
آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ یہ بہت عمدہ مچھلیاں ہیں میں نے خود
خاص کر کے سائمن کے لئے بنائی ہیں”

“میں نے کہا نا مجھے تنہا چھوڑ دو ۔۔ اور جاؤ”

میں باہر کھڑا تھا ۔۔۔ تیل میں بھیگا ہوا کاغذ میرے ھاتھ
میں دبا تھا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا میں کیا کروں
میں کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہتا تھا
جہاں مایوسی اور سناٹا تھا اندھیرا تھا
میں بیڈفورڈ سے باہر نکل آیا اور لمبی مٹر گشتی پر
نکل گیا ۔ سڑک پر چلتے چلتے میں رک گیا
کیونکہ سڑک کی دوسری طرف ایک سیاہ بلا تھا
جو لال آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کے یہ وہی بلا تھا
جو اس رات میرے کمرے میں داخل ہوا تھا
میں نے اپنے لفافے سے مچھلی کا ٹکڑا نکال کر اس کی
طرف پھینکا جو اس نے اپنے مونہ میں لے لیا
پھر وہ تھوڑا آگے چل کر رک گیا اور پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھنے لگا اور گردن ہلانے لگا
میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں
کر پا رہا تھا پھر کجھ سوچ کر میں اس کے پیچھے
چلنے لگا چلتے چلتے میں رک جاتا تو وہ بھی رک کر
گردن ہلانے لگتا تھا جیسے وہ مجھے اپنے چلنے کا کہہ رہا ہو
اس کا رخ ساحل کی طرف تھا
جب میں ساحل پر آیا تو مجھے وہ بلا کہیں نظر نہیں
آرہا تھا میں چاروں طرف دیکھنے لگا
اچانک مجھے ایک آدمی نظر آیا جو ریت پر چادر اوڑھے
بیٹھا ہوا تھا۔ رات کے اس پہر کون ہوسکتا تھا؟
شاید کوئی فقیر ہو اور بھوکا ہو
میں اس کی طرف بڑھنے لگا اور قریب جاکر کہا
“کیا تمہیں کجھ کھانے کے لئے چاہئے”

اس نے میری طرف دیکھا۔ وہ تقریبا چالیس یا پینتالیس
سال کے لگ بھگ ہوگا وہ درمیانی جسامت اور ہلکی
داڑھی مونچھوں اور چہرے سے بہت مہذب اور خاندانی
لگ رہا تھا سر پر رکھی ٹوپی سے وہ مجھے کوئی عامل
لگ رہا تھا۔ میں نے مچھلی کا لفافہ اس کے سامنے
رکھ دیا اور پلٹ کر جانے لگا تو اس نے میرے پیچھے آواز دی ” تمہیں اسے اس کمرے سے باہر نکالنا ہوگا”

میں چونک کر رک گیا اور مڑ کر اسے حیرت سے دیکھنے
لگا “کون ہو تم؟” میں نے پوچھا

“یہ جاننا اتنا اھم نہیں ہے ۔۔ تم صرف اس کی فکر کرو”

میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا کہ وہ یہ سب کیسے جانتا ہے ۔کیا وہ کوئی جادوگر تھا یا کوئی بہت بڑا عامل تھا
لیکن وہ جو بھی تھا وہ اندھرے میں میرے لئے روشنی کی ایک کرن تھا میں اس کے قریب گیا اور کہا
“وہ مجھ سے بد دل ہوچکی ہے نفرت کرنے لگی ہے
اور میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے”

“وہ اس جہنمی دروازے کے سحر میں ہے۔
جس کے پیچھےایک تابوت ہے ۔
جس میں وہ مرا ہوا انسان رہتا ہے
جو اس سے باتیں کرتا ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے”

میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا
وہ دروازا مجھے بھی کجھ پراسرار محسوس ہوا تھا

“میں اسے وہاں سے نکالنا چاہتا ہوں
اس کے لئے مجھے کیا کرنا پڑے گا؟”
میں نے بے تابی سے پوچھا

“یہ تو تم بہتر جانتے ہو کہ تم اسے کس طرح وہاں سے نکال سکتے ہو”
میں پریشانی سے اس کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا
“تمہارے پاس وقتِ بہت کم ہے ۔ تمہیں جو کجھ کرنا ہے
آج رات ہی کرنا ہوگا۔”

میں دوڑتا ہوا بیڈفورڈ آیا اور بیلا کے کمرے کے پاس آکر رک گیا
میں نے ایک آواز سنی۔۔جو کہہ رہا تھا
“میں تمہیں اتنا چاہتا ہوں جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتی”

میں ٹھٹک گیا ۔۔ میں نے سانسیں روک لی۔ پھر میں نے بیلا کی آواز سنی “ھمیشہ کے لئے نہیں”

پھر ان دونوں کے بیچ کجھ باتیں ہوئی جو میں بلکل نہیں
سمجھ سکا۔ بیلا اور وہ آدمی ساتھ ساتھ بول رہے تھے
پھر مرد کی آواز اونچی ہوئی
“جلد۔۔۔۔ بہت جلد۔۔ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔
ھمیشہ کے لئے”

بیلا نے اپنے مونہ سے کجھ آوازیں نکالیں پھر چیخیں
اس بار اس کے حلق سے ایسی آوازیں نکل رہیں تھیں جیسے
اس کا دم گھٹ رہا ہو۔ میں ایک دم سے پریشان ہوگیا
خوف اور تشویش میرے خون میں دوڑنے لگی
میں نے عجلت سے دروازے کو کھڑکایا
لیکن کوئی جواب نہیں ملا
اچانک میں نے بیلا کی چیخ سنی” نہیں”

میں زرا سا پیچھے ہٹا ۔۔ بینسٹر تک گیا پھر میں نے بڑھ کر اپنے جوتے سے دروازے پر ایک زوردار ٹھوکر لگائی
ٹھوکر زور دار تھی دروازا بری طرح ہلا اور اس کے اندر کا پیچ ڈھیلا ہوکر چھول گیا دروازا دھکے سے کھلتا چلا گیا
اس لمحے وہ مقفل دروازا جو پوری طرح کھلا ہوا تھا۔
ایک زور دار آواز کے ساتھ دوبارا بند ہوگیا۔
جیسے کسی نے اسے اندر سے کھینچ کر بند کردیا ہو
میں نے مڑ کر بیلا کی طرف دیکھا جو بستر پر لیٹی
وحشت ناک نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی
اس کی آنکھوں میں سیاہ حلقے اور ہونٹوں پر نیلا پن تھا
بلکل ویسے جیسے پہلی بار میں نے مسز جینی کی لاش کو دیکھا تھا

“کیا ہو رہا ہے یہ سب” میں نے بیلا کو بازو سے کھینچ کر کہا

“چھوڑ دو جیک” اس نے بازو چھڑاتے ہوئے کہا” چلے جاؤ یہاں سے”

“تم نے اپنی حالت دیکھی ہے؟ کیا تم نے کھانا نہیں کھایا؟”

“کھانے کی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔کسی چیز کی ضرورت نہیں رہی” اس نے کپکپاتے ہوئے کہا

“کیا سائمن کی بھی ضرورت نہیں؟ میں نے پوچھا

یہ سنتے ہی وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگی
جیسے اسے کجھ یاد آگیا ہو

“چلو ۔۔۔ ھمیں یہاں سے نکالنا ہوگا” میں نے دوبارا اسے بازو سے کھینچا

“تم یہاں بیلا کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے مسٹر جیک۔
بہتر ہے تم اپنے کمرے میں واپس جاؤ”
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مسز مورگن کھڑی تھی
اپنے ڈریسنگ گاون میں اور اس کے مونہ میں سگریٹ دبی ہوئی تھی اس نے ایک ھاتھ سے سگریٹ نکالی اور مونہ سے دھواں اگلا

“میں اسے یہاں سے لے جانا چاہتا ہوں مسز مورگن”
میں نے تیز لہجے میں کہا

“کیا تم نے سنا نہیں وہ کہہ رہی تھی کہ اب اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہی۔ تمہاری بھی نہیں۔ کیونکہ اسے اس کمرے سے محبت ہوگئی ہے”

“پتا نہیں تم کیا بک رہی ہو” میں نے مستقل لہجے میں کہا
“اب یہ یہاں نہیں رہے گی یہ میرے کمرے میں رہے گی”

مسز مورگن نے کش اگلا”اگر یہ اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہے تو مجھے کوئی اعتراز نہیں”
پھر اس نے بیلا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
“کیا تم جیک کے ساتھ جانا چاہو گی؟”

“نہیں ۔۔۔ مسز مورگن اس سے کہو یہاں سے چلا جانے”

“آئی ایم سوری ۔۔ مسٹر جیک”
مسز مورگن نے شاطرانہ مسکراہٹ سے مجھے کہا
“اب تم اپنے کمرے میں جاکر سوجاؤ”
مسز مورگن نے مجھے طنزیہ کہا

“ٹھیک ہے۔۔ میں جارہا ہوں”
میں نے مسز مورگن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” لیکن اپنے کمرے میں نہیں بلکہ پولیس کے پاس جارہا ہوں
اور اس سے پہلے میں تمہارے خلاف بہبود آفیسر اور
اور کونسل آف چرچ کو خط لکھ چکا ہوں
کہ تم نے اس مقفل دروازے کے پیچھے ایک شیطان پال رکھا ہے۔ اب پولیس ہی تم سے پوچھے گی کہ اس کمرے کی وجہ سے کتنی لڑکیاں موت کے گھاٹ اتر چکی ہیں”

مسز مورگن مجھے حیرانی سے دیکھنے لگی
پہلی بار اس کی آنکھوں میں خوف تھا
جبکہ میں نے اسے خط والی بات چھوٹ کہی تھی۔

“تم ایسے معاملے میں ناک مت گساو جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں” مسز مورگن نے بھناتے ہوئے کہا

“میں پولیس کو ضرور بلاؤ گا” میں نے ضدی لہجے میں کہا
مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ میرے ارادے سے خوفزدہ ہوگئی ہے “تم نے مجھ سے میری محبت چھیننے کی کوشش کر کے ایک عاشق سے پنگا لیا ہے۔
اور اب میں تمہاری یہ عمارت سیل کرواکر ہی دم لونگا”

میں سائمن کے قریب گیا جو گہری نیند میں تھا اس کے سرہانے کھانسی کا شربت رکھا ہوا تھا شیشی آدھی کے قریب کھالی تھی۔ لگتا تھا اس ننھے بچے کو یہ دوا پلا کر نشے میں ڈبو دیا گیا تھا۔
مجھے بیلا کو بھی ساتھ لیجانا چاہیے تھا پر میں سائمن کی وجہ سے فکرمند ہوگیا معلوم نہیں اس غریب کو کتنی مقدارمیں کھانسی کی دوا پلادی گئی تھی
تاکہ وہ غافل رہے۔ وہ میرے ھاتھوں میں کسی گرم گڑیا کی طرح تھا۔ میں نے اسے اٹھا لیا اور تیزی سے کمرے سے نکل آیا سڑک پر آکر میں ٹیکسی پکڑی اور سائمن کو لے چرچ کے اسپتال آیا اور فادر کو ساری صورتحال بتادی
فادر میرے ساتھ چلنے کو راضی ہوگئے
ھم گاڑی میں بیڈفورڈ کی طرف روانہ ہوئے
ھمارے ساتھ دو پولیس والے بھی تھے جو اپنی گاڑی
میں ھمارے پیچھے آرہے تھے

جس وقت ھماری گاڑی عمارت کے باہر رکی میری نظر ایک پک اپ پر پڑی جو موڑ کاٹ رہی تھی
میں نے اس میں ایک تابوت دیکھا۔
پھر وہ پک اپ تیزی سے دوڑتی ہوئی غائب ہوگئی

ھم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو مسز مورگن کاؤنٹر
پر بیٹھی ہوئی تھی۔ میں حیران ہوا کہ اس وقت تو
مسز مورگن سوجاتی ہیں لیکن آج وہ کاوئنر پر ایسے
بیٹھی ہوئی تھیں جیسے ھمارا ہی انتظار کر رہی ہوں

“ھمیں کمرا نمبر 19 کی تلاشی لینی ہے مسز مورگن”
فادر نے کہا

“کیا ہوا فادر خیر تو ہے کیا کوئی خاص بات ہے”
مسز مورگن مہذب لہجے میں کہا

“ھمیں شکایت ملی ہے کہ وہاں کوئی مقفل دروازا ہے
جس کے پیچھے کوئی شیطان رہتا ہے”

یہ سن کر مسز مورگن نے قہقہہ لگایا اور کہا
“وہ تو خالی ایک پرانا اسٹور ہے اور جس میں روشندان
کی وجہ سے کجھ بلیوں نے بسیرا کر لیا تھا
اور وہ شور کرنے لگیں تھی ان کی شکایت پر میں نے
آج ہی اس کی صفائی کر وائی ہے اور روشندان بھی
بند کر دیا ہے. آپ چاہیں تو چیک کر سکتے ہیں

فادر حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے تو میں نے
مسز مورگن سے کہا ” بیلا کہاں ہے؟”

“میں نے اسے نیچے فلور پر کمرا 5 میں شفٹ کردیا ہے
اور وہ تمہارا ہی انتظار کر رہی ہے” مسز مورگن نے کہا

میں جلدی سے کمرا نمبر 5 میں آیا دیکھا تو وہاں بیلا
بیٹھی ہوئی تھی جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر بڑی
تو وہ دوڑتی ہوئی میری طرف آئی اور روتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی ” مجھے یہاں سے لے چلو جیک۔
مجھے یہاں بہت ڈر لگ رہا ہے”

“ھم دونوں اب یہاں نہیں رہیں گے ”
میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

“میں نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا جیک”
اس نے روتے ہوئے کہا

“بھول جاؤ سب کجھ اب ھم نئی زندگی کی شروعات کریں گے۔۔۔۔ اب چلیں یہاں سے سائمن ھمارا انتظار کر رہا ہوگا”
_________ __________ ________

میں جانتا تھا کہ میری اس دھمکی کی وجہ مسز مورگن نے وہ ڈرامہ کیا تھا۔ اور راتوں رات اس تابوت کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن عمارت کے باہر ہی میری اور فادر کی اس پک اپ پر نظر پڑ چکی تھی جس میں وہ تابوت تھا
عمارت میں داخل ہونے سے پہلے فادر نے دونوں پولیس والوں کو اس پک اپ کا پیچھا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

آخر کار اسے روک کر تابوت برآمد کر لیا گیا اور اسے چرچ لایا گیا۔ دوسری دن چرچ کی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا
جس میں پادریوں اور مختلف عالموں نے شرکت کی۔
مجھے اور بیلا کو بھی بلایا گیا تھا بیلا بہت ڈری ہوئی تھی مگر میں نے اسے حوصلا دیا
تابوت میں لاش مسٹر مورگن کی تھی
جو اپنی زندگی میں بھی سفلی عملیات کی وجہ سے مشہور تھا اور مرنے کے بعد بھی اس کا دل دھڑک رہا تھا
وہ یقیننا زندہ تھا اور یہ شخص غریب لڑکیوں کی زندگیاں چوس کر اپنے آپ کو قائم رکھے ہوئے تھا۔

کمیٹی کے فیصلے کے مطابق مسز مورگن کو گرفتار کیا گیا
اور مسٹر مورگن کی لاش کو سرےعام درخت سے باند کر جلایا جانے لگا اور جب اسے آگ لگائی گئی
تو ھم نے دیکھا کہ اس کا بند مونہ کھلا
اور کسی درندے کی طرح گرجا
خوف سے ھمارے جسم میں سنسنی دوڑ گئی
غراہٹ کے ساتھ اس کا چہرا پھولنے لگا
اس میں خم پیدا ہونے لگے یہ مڑنے اور تڑنے لگا
حتیٰ کہ پورا چہرا ایک اور چہرے میں بدل گیا
یہ چہرا ایک لڑکی کا تھا۔

بیلا نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں
جب کہ خود میرا بھی برا حال تھا

پھر لڑکی کا چہرا بھی پگلنے لگا اور یہ چہرا بدل کر ایک اور چہرے میں تبدیل ہوگیا اور یہ بھی گرج رہا تھا
اس کے بعد نئے چہرے نظر آنے لگے سب چہرے عورتوں کے تھے اور سب گرج رہے تھے۔
یہ یقینا ان لڑکیوں کے چہرے تھے جو اس آدمی کے بدن میں جذب تھیں اور آج وہ آزاد ہورہی تھی
ھم دونوں سے دیکھا نہیں جارہا تھا اس لئے ھم دونوں مجمعے سے باہر نکل آئے بیلا مونہ چھپا کر رونے لگی
تو میں نے کہا “اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ختم ہوچکا ہے”

“جیک ۔۔۔” اس نے میری طرف دیکھ کر کہا “اگر تم نہ ہوتے تو آج ان چہروں میں ایک چہرا میرا بھی ہوتا”

“ایسا مت بولو” اور میں نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔

ختم شد۔۔

دوستوں یہ کہانی اپ کو کیسی لگی کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار لازمی دیں اور کہانی پسند ائی ہو تو پلیز میرے پیج کو لائک اور فالو کر لیں تاکہ جب بھی کوئی نیا پوتا ہو تو اپ لوگوں کو کی نوٹیفکیشن مل جائے.اپنا بہت خیال رکھیں اور دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں….
اللہ حافظ

#everyonefollowers #highlightseveryone

Loading