Daily Roshni News

کائناتی قاصد۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم

کائناتی قاصد

(تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کائناتی قاصد۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم)یہ دمدار ستارہ اپنے دور کا وہ سحر انگیز فلکیاتی مہمان تھا جس نے دنیا بھر کے لوگوں کو اس قدر حیرت اور شش و پنچ میں مبتلا کر دیا کہ اس سے منسلک توہمات سے بھرپور کہانیاں جنم لینے لگیں اور ہر بڑے حادثے اور قدرتی آفات کو اسی دمدار ستارے سے منسوب کیا جانے لگا۔ یہ آسمان پر ایک واضح روشن ہیولے کے طور پر کئی مہینوں تک نظر آیا اور اس کی چمک اتنی زیادہ تھی کہ بڑے بڑے شہروں کی چکا چوند روشنیاں بھی اسے انسانی نگاہوں سے چھپا نہ سکیں۔

یہ دمدار ستارہ جولائی 1995 میں اس وقت دریافت ہوا جب دو مختلف انسانوں نے امریکہ کے دو مختلف شہروں سے ایک ہی ساتھ اسے دیکھنے کا دعویٰ کر دیا۔ ان میں سے ایک کئی سالوں سے دمدار ستاروں کو تلاش کرنے والے ماہر فلکیات ایلن ہیلے تھے جبکہ دوسرے شوقیہ فلکیات دان تھامس بوپ تھے جن کے پاس اپنی ٹیلی اسکوپ تک بھی نہیں تھی اور وہ اپنے دوست کی ٹیلی اسکوپ سے آسمانی مشاہدات کیا کرتے تھے۔ مناسب جانچ پڑتال کے بعد انٹرنیشنل آسٹرانومیکل یونین نے دونوں افراد کی مشترکہ دریافت کو تسلیم کر لیا اور یوں اس دمدار ستارے کا نام ہیلے بوپ کامیٹ رکھا گیا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنی دریافت کے وقت یہ دمدار ستارہ زمین سے ایک ارب کلومیٹرز سے بھی زیادہ دور تھا اور عام طور پر دمدار ستارے اتنی دوری پر آسانی سے نظر نہیں آتے لیکن ہیلے بوپ کا مرکز اتنا بڑا اور روشن تھا کہ اتنے زیادہ فاصلے پر بھی اسے ایک شوقیہ فلکیات دان نے دیکھ لیا۔ یہی وہ موقع تھا جب سائنس دانوں کو احساس ہو چکا تھا کہ یہ کوئی عام دمدار ستارہ نہیں اور یہ تاریخ انسانی پر اپنے ان مٹ نقوش ضرور چھوڑے گا۔

دمدار ستارے بنیادی طور پر برف، گیس، گرد اور بعض اوقات نامیاتی مرکبات سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ جب وہ سورج کے قریب آتے ہیں تو سورج کی حرارت سے گرم ہو کر ان کے اندر موجود برف پگھلنے لگتی ہے اور زبردست مقدار میں گیسیں اور گرد و غبار خلا میں خارج ہوتے ہیں جس سے ایک طرح کی دم سی بن جاتی ہے جو کئی لاکھ کلومیٹرز طویل ہو سکتی ہے۔ ہیلے بوپ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ سورج سے بہت دور ہوتے ہوئے بھی اس کے مرکز میں اتنی کیمیائی سرگرمی تھی کہ وہ سورج کے بہت قریب آنے سے پہلے ہی دم نما ساخت کے واضح آثار ظاہر کرنے لگا تھا۔

1996 کے آخر سے 1997 کے وسط تک جب یہ سورج کے کافی قریب پہنچا تو اس کی چمک اتنی بڑھ گئی کہ یہ تقریباً ایک سال تک بغیر دوربین کے عام انسانی آنکھ سے باآسانی نظر آتا رہا۔ عموماً دمدار ستارے چند دن یا چند ہفتوں تک نظر آتے ہیں لیکن ہیلے بوپ کی چمک اتنی غیر معمولی اور مسلسل تھی کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں نے لگاتار اٹھارہ ماہ تک عام آنکھ سے اس کا نظارہ کیا۔ بعض راتوں میں یہ اتنا واضح ہوتا تھا کہ اس کی دم آسمان کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی دکھائی دیتی تھی جیسے آسمان پر کوئی پھلجھڑی جلا دی گئی ہو۔

ہیلے بوپ کے بارے میں سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ یہ دمدار ستارہ غیر معمولی طور پر بڑا نیوکلیئس یا مرکز رکھتا تھا جس کے قطر کا اندازہ تقریباً چالیس سے ساٹھ کلومیٹرز کا لگایا گیا تھا یعنی کہ یہ عام دمدار ستاروں سے کئی گنا بڑا تھا۔ اس کی سطح پر موجود برف خصوصاً کاربن مونو آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی منجمد اشکال سورج سے بہت دوری پر بھی تیزی سے سبلیمیشن (Sublimation) سے گزرنے لگیں جس کی وجہ سے یہ اس وقت تک کا واحد ایسا دمدار ستارہ بن گیا جو نیپچون کے مدار سے باہر ہوتے ہوئے بھی واضح کیمیائی سرگرمی دکھاتا پکڑا گیا تھا۔

 اس کی ایک اور حیران کن خاصیت ایک نہیں بلکہ دو دُمیں (Tails) تھیں جن میں ایک گرد و غبار کی سنہری دم تھی جو سورج کی حرارت کی وجہ سے پھیل رہی تھی جبکہ دوسری آئینائزڈ گیسوں کی نیلی دم تھی جو شمسی ہواؤں کے ساتھ برقی تعامل کے نتیجے میں بنی تھی اور مقناطیسی میدان کے اثرات کی وجہ سے خم کھاتی دکھائی دیتی تھی۔بعض اوقات یہ دونوں دمیں ایک دوسرے سے واضح طور پر جدا نظر آتی تھیں اور آسمان پر ایک حیران کن منظر پیش کرتی تھیں۔

جس طرح کسی کتاب یا فلم کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اسے کتنے لوگوں نے پڑھا یا دیکھا بالکل اسی طرح ہیلے بوپ کو انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا دمدار ستارہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ کی 70 فیصد آبادی نے اس کا مشاہدہ کیا اور یقینی طور پر باقی دنیا میں بھی تناسب اس کے آس پاس بلکہ اس سے زیادہ ہی رہا ہوگا۔

عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے بھی اس دمدار ستارے کے جی بھر کر مشاہدات کیے، اس کے کیمیائی اجزاء کا تجزیہ کیا اور یہ دریافت کیا کہ اس میں موجود مواد شمسی نظام کی ابتدائی تشکیل کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے دمدار ستاروں کو کائناتی پیمانے پر قدیم دور کی نشانیاں سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ساڑھے چار ارب سال پہلے کی اصل حالت کو ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے اور انہوں نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

سائنسدانوں نے اس میں موجود مادوں کے تجزیات کے لیے طیف نگاری یا اسپیکٹروسکوپی کی تکنیک استعمال کی جس کے نتیجے میں امونیا، میتھین، ہائیڈروجن سایانائیڈ HCN، پیچیدہ نامیاتی سالمات اور حتیٰ کہ کچھ ایسے کرسٹلز کی بھی نشاندہی ہوئی جو صرف انتہائی بلند درجہ حرارت کی موجودگی میں بنتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ دمدار ستارہ نظام شمسی کی تخلیق کے دوران شمسی نیبولا کے اندرونی حصوں سے مادہ اٹھا کر بیرونی علاقوں تک پہنچانے والی ابتدائی نقل و حمل کا حصہ رہا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلے بوپ کو نظام شمسی کی پیدائش، اس کے ابتدائی حالات اور کیمیائی ارتقاء کے مطالعے سمیت آئسوٹوپک تناسب کے تجزیات کے لیے ایک قدرتی لیبارٹری سمجھتے ہوئے وسیع ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

 ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ہیلے بوپ کی دم میں موجود پانی کے مالیکیولز اور گیسوں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس کے اندر وہی برف اور دھول پائی جاتی ہے جس سے نظام شمسی کی تشکیل کے وقت ہماری زمین اور باقی سیارے بنے تھے۔ گویا یہ ہمارے سیارے کی تخلیق کا چشم دید گواہ تھا جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

فلکیاتی حساب کتاب کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ہیلے بوپ ایک طویل مدتی مدار رکھتا ہے۔ سورج کے گرد اس کا ایک مکمل چکر تقریباً 2500 سے 4500 سال کے درمیان بنتا ہے یعنی انسانی تاریخ میں یہ شاذ و نادر ہی ہمارے پاس آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1997 میں اس کا مشاہدہ کروڑوں لوگوں کی زندگی میں ایک ہی بار آنے والا موقع تھا۔

یہ دمدار ستارہ دوبارہ کب آئے گا، اس بارے میں سب سے زیادہ محتاط اندازہ تقریباً 4385 عیسوی کے آس پاس کا ہے یعنی ابھی اسے واپس آنے میں تقریباً دو سے اڑھائی ہزار سال باقی ہیں۔ جب یہ دوبارہ آئے گا تب انسانی تہذیب شاید بالکل نئی شکل اور الگ دور میں ہوگی لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت کے لوگ بھی اس کی چمک اور اس کی دو دموں کے شاندار نظارے کو یقیناً اتنی ہی حیرت سے دیکھیں گے جیسے بیسویں صدی کے لوگوں نے دیکھا تھا۔

ہیلے بوپ ایک ایسا حیران کن فلکیاتی عجوبہ تھا جس نے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں فلکیات کا شوق اور کائنات کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا کیا۔ اس کی چمک، اس کا حجم، اس کے نظر آنے کی مدت اور اس کی کیمیائی معلومات، یہ سب کچھ اتنا سحر انگیز تھا کہ گویا کائنات نے خود ہمیں اپنے پوشیدہ رازوں سے آگاہ کرنے کے لیے اپنا ایک قاصد ہماری طرف بھیجا تھا۔

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

Loading