آپ بیتی
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر2 ) کے مارے رونے لگا پھر اچانک وہ منظر میری نظروں سے غائب ہو گیا، میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میں زندگی بھر کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا، کسی کے لیے دکھ کا سبب نہیں بنوں گا، میں اپنے دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے ایک آواز سنائی دی:
تم اپنے اس وعدے پر قائم رہے تو تم پر ظلم کرنے والے کا انجام اس دنیا میں بھی سامنے
آثار ہے گا“۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو اپنے بستر پر پایا، مجھے جیتا جاگتا دیکھ کر میری ماں سجدہ میں چلی گئی۔ میں نے پوچھا کہ مجھے کیا ہوا تھا۔
ابو نے مجھے نے بتایا کہ رات کے کسی پہر میں انہیں اس جگہ بے ہوش ملا جہاں برسوں پہلے انگریز دور کا بنایا ایک عقوبت خانہ ہوا کرتا تھا اور وہاں پر بے گناہ شہریوں پر مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جن لوگوں نے میرے والدین پر ظلم ڈھائے تھے وہ ایک کے بعد ایک کسی مکافات عمل کا سامنا کرنے لگے۔
اس سارے ماجرے کو سننے کے بعد میں کچھ مطمئن سی ہو گئی ہوں کہ قدرت کسی نہ کسی روپ میں آکر گناہگاروں کو ان کے کیے کی سزا دلاتی ہی رہے گی۔
جذبات كا فيصله:میرا نام اصل میں کچھ اور ہے۔ یہاں اس شہر میں آکر میں نے نام بھی بدل دیا ہے۔ سات بھائیوں کی اکلوتی اور بہت لاڈلی بہن تھی۔ میرے ماں باپ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میری ہر خواہش اور ہر ضرورت بن مانگے ہی پوری ہو جاتی تھی۔ میری فرمائش پوری کرنے کے لیے میرے بھائی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔
میرے کمرے میں بہت چیزیں یعنی کپڑے، جوتے، میک اپ وغیر ہ کا سامان جمع تھا اور میں تھی کہ اتنی ڈھیر ساری محبتیں پا کر مغرور ہوتی جارہی تھی۔ کپڑوں کا اک جوڑا اور جوتے چند دن بعد اپنی کسی ملازمہ کو دے دیتی تھی۔
پھر شفقت میری زندگی میں بڑی آہستگی سے آگیا۔ شفقت اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھا۔
اس سے چھوٹی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔
وہ لوگ ہمارے پڑوس میں بطور کرایہ دار آئے تھے۔ مجھے شفقت بہت پسند تھا۔ مگر میرے بھائیوں کو شفقت ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں شفقت سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے شفقت کو بھی بہت ڈانٹا۔
میرے بھائیوں کے ڈر سے شفقت کے گھر والے وہ مکان چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ ایک دن مارکیٹ میں میری شفقت سے ملاقات ہو گئی۔ اس وقت میری ایک سہیلی بھی میرے ساتھ تھی۔ میری سہیلی میری ہم راز تھی اور اس لیے ہم بلا جھجک باتیں
کرنے لگے۔
اب ہماری دوبارہ ملاقاتیں ہونے لگیں۔ آخر کار ہم نے گھر سے بھاگنے کا منصوبہ بنالیا، کیونکہ ہماری شادی میں میرے والدین اور بھائی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔
میں اپنے گھر سے بہت سے زیورات اور نقدی لائی تھی جو کہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی تھی ۔ شفقت کے پاس تھوڑی سی رقم تھی جو کہ کب کی ختم ہو چکی تھی۔
شفقت کو کہیں بھی ڈھنگ کی نوکری نہ مل سکی۔ اب اس کے مزاج میں بھی چڑ چڑا پن آ گیا تھا اور وہ اکثر مجھ سے شکوہ کرتا رہتا کہ میں اسے غلط راستے پر لے آئی ہوں۔
رقم اور زیورات کب تک میرا ساتھ دے سکتے تھے۔ جلد ہی دونوں چیزیں ختم ہو گئیں۔ ادھر میں شفقت کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب یہ بات شفقت کو بتائی تو وہ خوش ہونے کے بجائے الٹا ناراض ہونے لگا اور کہنے لگا۔
اس مصیبت سے نجات حاصل کرو۔ ہم سے تو اپنا پیٹ نہیں بھر اجار ہا اور اوپر سے یہ مصیبت بھی گلے پارہی ہے۔
میں حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس وقت مجھے اپنا پر انا وقت یاد آرہا تھا جب میری ہر خواہش بن مانگے پوری ہو جاتی تھی اور میں ہر روز نیا جوڑا اور نیا
جوتا پہنتی تھی اور آج یہ حالت تھی کہ اپنا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہر کام مجھے خود ہی کرناپڑ رہا تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے رندے ہوئے سے لہجے میں کہا۔
“شفقت! کیا ہو گیا ہے تمہیں ! یہ تو ہماری محبت کی تکمیل اور نشانی ہے۔ تم اس قدر بد دل اور سنگ دل کیوں ہو گئے ہو ….؟
اس نے مجھے جھڑک دیا اور سگریٹ بجھاتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ میں تنہا بیٹھی روتی ہوئی اپنے ماضی کو یاد کرتی رہی اور پچھتاتی رہی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میرابیٹا یا سر پیدا ہوا اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد شفقت اچانک کہیں غائب ہو گیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔ اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنے کی خاطر مختلف جگہوں پر کام کیا، مگر شاید یہاں مردوں کے روپ میں درندے چھپے ہیں۔ بہت سی جگہوں سے میں نے کام چھوڑ دیا۔ کیونکہ وہاں میری عزت محفوظ نہیں تھی۔ پھرتی پھراتی آخر میں نے ایک فلاحی ادارے میں پنا لی۔ مجھے اپنے پیتے ہوئے دن اور لاڈ پیار بہت یاد آتے ہیں۔
میں ان بہنوں سے دست بستہ عرض کروں گی جو جذبات میں اپنی پناہ گاہ اپنی خوشیوں کے ٹھکانے (گھر) اور محبت کرنے والوں کو چھوڑ کر پُر خار راستوں کی مسافر بن جاتی ہیں انہیں ایسے واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025
![]()

