Daily Roshni News

مینٹل ہیلتھ

مینٹل ہیلتھ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) دی برن آؤٹ جنریشن: ہم مسلسل تھکن اور مایوسی کا شکار کیوں ہیں اور اس کا اصل حل ۔ کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ رات کو پوری نیند لے کر اٹھیں، مگر بستر سے نکلتے ہی ایسا محسوس ہو جیسے آپ نے صدیوں سے آرام نہیں کیا؟

کیا آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اتوار کا دن گزر جائے، چھٹی ختم ہو جائے، مگر دماغ کا بوجھ ہلکا نہ ہو؟

اور سب سے خوفناک سوال: کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ “زندہ” تو ہیں، مگر آپ کے اندر کچھ ہے جو آہستہ آہستہ “مر” رہا ہے؟

اگر ان سوالوں کا جواب “ہاں” ہے، تو گھبرائیے مت۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔

آپ اس دور کی اُس نسل کا حصہ ہیں جسے ماہرین “The Burnout Generation” (تھکی ہوئی نسل) کہتے ہیں۔

میرے پاس نوجوان آتے ہیں، جو بظاہر بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ اچھے کپڑے، ہاتھ میں مہنگا فون، چہرے پر مسکراہٹ۔ مگر جیسے ہی وہ بات شروع کرتے ہیں، ایک ہی جملہ دہراتے ہیں:

“سر! میں تھک گیا ہوں۔ یہ جسمانی تھکن نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم یہ کیا ہے، بس دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔”

آج کی یہ تحریر اسی “نامعلوم تھکن” کا پوسٹ مارٹم ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان جسمانی مشقت کے بغیر ہی کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟

  1. مسئلہ جسم کا نہیں، ہمارے دماغ کی(RAM) کا ہے

(Cognitive Overload)

ہمارے والدین اور دادا دادی ہم سے زیادہ محنت مشقت کرتے تھے۔ وہ کھیتوں میں کام کرتے، میلوں پیدل چلتے، بھاری وزن اٹھاتے۔ مگر وہ رات کو بستر پر لیٹتے ہی سو جاتے تھے۔ ان کے چہروں پر وہ ویرانی نہیں تھی جو آج کے 25 سال کے نوجوان کے چہرے پر ہے۔

وجہ؟

وجہ یہ ہے کہ وہ “جسمانی” تھکتے تھے، اور ہم “ذہنی” تھک رہے ہیں۔

ذرا اپنے دماغ کا تصور ایک کمپیوٹر یا موبائل فون کے طور پر کریں۔ جب آپ کے فون کے بیک گراؤنڈ میں 50 ایپس کھلی ہوں، تو کیا ہوتا ہے؟ فون گرم ہو جاتا ہے، ہینگ ہونے لگتا ہے اور بیٹری تیزی سے گرتی ہے۔

آج کے نوجوان کا دماغ بالکل یہی حالت ہے۔

ہم واٹس ایپ پر بات کر رہے ہیں،

ساتھ ہی دماغ میں کیریئر کی ٹینشن چل رہی ہے،سیاست کا غصہ بھی ہے،دوست کی شادی کی تصویریں دیکھ کر موازنہ (Comparison) بھی چل رہا ہے اور مہنگائی کا خوف بھی۔

نیوروسائنس کی زبان میں اسے “Cognitive Overload” کہتے ہیں۔ ہمارا دماغ ہر وقت پروسیسنگ کر رہا ہے۔ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی “آف لائن” نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ جب آپ سو بھی جاتے ہیں، آپ کا دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ “اسٹینڈ بائی” (Standby) موڈ پر نہیں جاتا، وہ بس اسکرین آف کرتا ہے مگر بیک گراؤنڈ میں ڈیٹا چل رہا ہوتا ہے۔ اسی لیے صبح اٹھ کر آپ فریش نہیں ہوتے، کیونکہ آپ کی روح نے آرام کیا ہی نہیں۔

  1. بدلے کی نیند:

(Revenge Bedtime Procrastination)

یہ ایک بہت اہم نفسیاتی نقطہ ہے۔

اکثر نوجوان شکایت کرتے ہیں: “سر رات کو نیند آ رہی ہوتی ہے، آنکھیں جل رہی ہوتی ہیں، مگر میں پھر بھی موبائل ہاتھ سے نہیں رکھ پاتا۔”

ہم اسے محض موبائل کی لت سمجھتے ہیں، جبکہ نفسیات میں اسے Revenge Bedtime Procrastination کہا جاتا ہے۔

آسان الفاظ میں Revenge Bedtime Procrastination وہ عادت ہے جب انسان جانتے ہوئے بھی دیر تک جاگتا ہے، کیونکہ دن بھر اپنے لیے وقت نہیں ملتا۔

رات کو وہ خود سے “بدلہ” لیتا ہے کہ اب میں اپنا وقت لوں گا، چاہے نیند قربان ہو جائے۔

اب سارا دن ہمارا وقت دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔ باس کے لیے، پڑھائی کے لیے، گھر والوں کے لیے، ٹریفک کے لیے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی پر ہمارا کوئی کنٹرول (Control) نہیں رہا۔

چنانچہ رات کا وہ وقت جب سب سو جاتے ہیں، ہمارا دماغ “انتقام” (Revenge) لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “یہ وقت صرف میرا ہے۔ میں اسے سونے میں ضائع نہیں کروں گا، میں اسے جیوں گا، چاہے فضول سکرولنگ کر کے ہی کیوں نہ ہو۔”

یہ لاشعوری طور پر اپنی آزادی واپس لینے کی ایک کوشش ہے، جو بدقسمتی سے ہمیں اور زیادہ بیمار اور تھکا دیتی ہے۔

  1. جذباتی تھکن اور ہمدردی کا بوجھ

(Compassion Fatigue)

ہم تاریخ کی وہ پہلی نسل ہیں جو پوری دنیا کا درد اپنے بیڈروم میں بیٹھ کر محسوس کرتی ہے۔

فلسطین میں جنگ ہو، ملک میں سیاسی ہنگامہ ہو، یا کسی اجنبی کے ساتھ ظلم—سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تمام “Trauma” (صدمہ) ہمارے اعصاب پر ڈائریکٹ حملہ کرتا ہے۔

ہمارا دماغ اتنے زیادہ غم اور غصے کو پروسیس کرنے کے لیے نہیں بنا تھا۔

نتیجہ؟ Emotional Numbness (جذباتی بے حسی)۔

ہم اتنا زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے ہم محسوس کرنا بند کر دیتے ہیں۔ ہمیں خوشی بھی “اوپری اوپری” لگتی ہے اور غم بھی۔ ہم اندر سے پتھر بن جاتے ہیں۔ اسی لیے چھٹی کے دن بھی دل ہلکا نہیں ہوتا، کیونکہ بوجھ کام کا نہیں، بوجھ ان ہزاروں جذباتی تصویروں کا ہے جو دماغ میں چپکی ہوئی ہیں۔

ہمیں خوشی عارضی کیوں لگتی ہے؟

(The Dopamine Trap)

آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ آپ کوئی نئی چیز خریدیں، کہیں گھومنے جائیں، تو خوشی صرف چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ پھر وہی خالی پن۔

کیوں؟

کیونکہ ہم نے Pleasure یعنی لذت کو کو سکون یا خوشی  سمجھ لیا ہے۔

سوشل میڈیا کا ہر لائک، ہر نوٹیفکیشن، ہر نئی ریل ہمارے دماغ میں Dopamine (ڈوپامائن) ریلیز کرتا ہے اور یہی لذت کا کیمیکل ہے.

لذت کے اس کیمیکل یعنی ڈوپامائن کی خامی یہ ہے کہ یہ فوراً نیچے گرتا ہے۔ جتنا تیزی سے یہ اوپر جاتا ہے، اتنی ہی تیزی سے کریش ہوتا ہے.

آج کا نوجوان  اسی سست ڈوپامائن (Cheap Dopamine) کا نشئی بن چکا ہے۔ ہمیں مسلسل اسکرین، فاسٹ فوڈ، اور خریداری سے خوشی چاہیے، جو کہ سراب ہے۔

اس کے برعکس حقیقی خوشی کا تعلق Serotonin سے ہے، جو ٹھہراؤ، شکرگزاری اور گہرے تعلقات سے ملتا ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری لسٹ سے غائب ہو چکی ہیں۔

ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟

مسئلہ یقیناً بڑا ہے، لیکن اس کا حل موجود ہے بس ہمیںاپنے دماغ کی وائرنگ (Wiring) کو دوبارہ سیٹ کرنا ہوگا اور اسے مقصد کے لیے چند طریقے آپ کے لیے تجویز کئے ہیں جو آپ کے لیے مددگار ثابت ہوں گے.

  1. دماغ کو “آف لائن” کرنا سیکھیں

(The Art of Doing Nothing)

ہمیں ہمیشہ یہ سکھایا گیا ہے کہ فارغ بیٹھنا وقت ضائع کرنا یا گناہ ہے — لیکن یہ غلط سوچ ہے۔

دن میں صرف 10 سے 15 منٹ نکال کر Niksen کی عادت اپنائیں.

نکسن دراصل یہ ایک ڈچ طریقہ ہے جس میں آپ کچھ نہیں کرتے، بس پرسکون بیٹھتے ہیں تاکہ دماغ آرام کرے اور اس کا مطلب ہے: کچھ بھی نہ کرنا۔

 نہ موبائل، نہ کتاب، نہ عبادت، نہ سوچنا۔ بس کھڑکی سے باہر دیکھیں، یا چھت کو گھوریں۔

اپنے دماغ کے Default Mode Network (DMN) کو پرسکون ہونے کا موقع دیں۔ جب آپ کچھ نہیں کر رہے ہوتے، تب ہی آپ کا دماغ اصل میں “ری چارج” ہو رہا ہوتا ہے۔ اسے اپنی روزانہ کی دوا سمجھ کر کریں۔

  1. معلومات کی ڈائٹنگ

 (Information Fasting)

جس طرح پیٹ خراب ہو تو ڈاکٹر کھانا بند کروا دیتا ہے، اسی طرح ذہن خراب ہو تو معلومات بند کر دینی چاہئیں۔

فیصلہ کریں کہ رات 9 بجے کے بعد یا صبح 10 بجے سے پہلے آپ دنیا کی کوئی خبر، کوئی مسئلہ، کوئی بحث نہیں سنیں گے۔

اپنے دماغ کے ان پٹ (Input) کو کنٹرول کریں۔ جب کچرا اندر نہیں جائے گا، تو بدبو بھی نہیں پھیلے گی۔

  1. نیند کی روٹین اور روشنی کا تعلق

اگر آپ رات کو سو نہیں پا رہے، تو اس کا تعلق آپ کی آنکھوں میں جانے والی روشنی سے ہے۔

شام کے بعد اپنے فون کا “Blue Light Filter” آن کریں اور سونے سے ایک گھنٹہ پہلے اسکرین چھوڑ دیں۔

یہ مشکل ہے، میں جانتا ہوں، مگر یہ آپ کی دماغی صحت کے لیے “زندگی اور موت” کا مسئلہ ہے۔

اس ایک گھنٹے میں وہ کام کریں جو “بورنگ” ہوں (جیسے برتن دھونا، جوتے پالش کرنا، یا کاغذ پر کچھ لکھنا)۔ بوریت نیند کی سب سے اچھی دوست ہے۔

  1. فطرت اور مٹی سے رابطہ

 (Grounding)

ہم کنکریٹ کے جنگلوں میں قید ہو گئے ہیں۔ ہمارا جسم الیکٹرانکس کے درمیان گھرا ہوا ہے۔

ہفتے میں ایک بار کسی پارک جائیں، جہاں آپ کے پاؤں گھاس یا مٹی کو چھو سکیں۔

سائنس اسے Grounding کہتی ہے۔ مٹی سے رابطہ آپ کے جسم میں کورٹیسول (Stress Hormone) کو کم کرتا ہے۔ یہ کوئی روحانی ٹوٹکہ نہیں، یہ بائیولوجیکل حقیقت ہے۔ درختوں کو دیکھنا، پرندوں کی آواز سننا، یہ ہمارے دماغ کا قدرتی علاج ہے۔

  1. “نہ” کہنے کی عادت اپنائیں

(Set Boundaries)

اپنی انرجی کو لیک (Leak) ہونے سے بچائیں۔

ہر بحث میں حصہ لینا ضروری نہیں، ہر کال سننا ضروری نہیں، ہر دعوت میں جانا ضروری نہیں۔

اپنی ذہنی صحت کو اپنی ترجیح بنائیں۔ جو چیز، جو شخص، یا جو کام آپ کی ذہنی سکون کو تباہ کر رہا ہے، اس سے فاصلہ اختیار کرنا خودغرضی نہیں، بلکہ خود کی حفاظت (Self-preservation) ہے۔

ان تمام طریقوں کے ساتھ ساتھ یہ ذہن نشین کرلیں کہ آپ مشین نہیں ہیں، آپ انسان ہیں۔آپ کو ہمیشہ “پروڈکٹیو” (Productive) رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ جو آپ ہر وقت بھاگ رہے ہیں کہ کہیں میں پیچھے نہ رہ جاؤں، یقین کریں، آپ کہیں نہیں پہنچیں گے اگر آپ اندر سے ٹوٹ گئے۔

زندگی کوئی ریس نہیں ہے جہاں فنش لائن پر کوئی تمغہ ملے گا۔ زندگی تو سانس لینے، محسوس کرنے اور شکر ادا کرنے کا نام ہے۔

تھوڑا رک جائیں۔ گہرا سانس لیں۔

اللہ نے آپ کو صرفHuman Doing کے لیے نہیں، بلکہ Human Being کے لیے بھی بنایا ہے۔

اگر آپ کو یہ پوسٹ پسند آئی یا آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی، تو

 اسے شیئر کریں تاکہ کوئی اور بھی اس سے مستفید ہو سکے اور اپنی زندگی بہتر بنا سکے۔

شکریہ

توصیف اکرم نیازی

#viralpost2025シ #viralpost2025 #fypシ゚viralシ #viralreelschallenge #fypシ #viralphotochallenge #اسلامی #today

Loading