Daily Roshni News

مائنڈ فلنیس۔۔۔ غصہ پر کنٹرول۔۔۔تحریر۔۔۔شاہینہ جمیل۔۔۔قسط نمبر1

مائنڈ فلنیس

غصہ پر کنٹرول

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ مائنڈ فلنیس۔۔۔ غصہ پر کنٹرول۔۔۔تحریر۔۔۔شاہینہ جمیل)ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا کہ وہ کنفیوز ہیں کہ مائنڈ فلمیں اور مراقبے میں کیا فرق ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مائنڈ فلمیں مراقبہ ہی کا دوسرا نام ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس کا جواب وضاحت سے دے دیتے ہیں تاکہ اگر کسی اور کے ذہن میں بھی مائنڈ فل نیس کی ایسی کوئی تشریح ہے تو وہ بات واضح ہو جائے۔ مراقبه ارتکاز یا فوکس ہے اور مائنڈ فل نہیں آگہی ہے جسے انگریزی میں awareness کہتے ہیں۔ جیسے جیسے آپ اس کی مشقوں کو اپناتے جائیں گے مائنڈ فل نیس اور مراقبہ کے فرق کو واضح طور پر سمجھتے چلے جائیں گے۔ اب آج کے موضوع پر بات شروع کرتے ہیں۔

اپنے غصہ کا سامنا کیجیے:بازار میں خرید و فروخت کے لیے جاؤ تو آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں، سڑکوں پر بے تحاشہ رش، ہر کوئی جلد سے جلد منزل پر پہنچنے کی فکر میں نظر آتا ہے۔ کبھی کوئی سگنل توڑتا ہے تو کبھی کوئی اپنی گاڑی کو ادھرادھر سے پھنساتا ہے، تازہ ہوا کے لئے منہ کھولو تو دھواں دھول مٹی اب تو یہ بھی معمول ہو گیا ہے کہ اکثر جگہوں پر کھدائی کے کام۔

یہ چند وجوہات ہیں جو ہر کوئی اپنے غصہ کا دفاع کرتے ہوئے بیان کرتا نظر آتا ہے۔ دراصل آج کل برداشت کا لیول اتنا کم ہو گیا ہے کہ کب کون کس ذرا سی بات پر بھڑک جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ ایک چھوٹی سی صورت حال سے سمجھتے ہیں کہ ہمارے برداشت کا لیول کتنا کم ہو گیا ہے۔ طاہر بیگ کا دماغ آج بہت گرم تھا۔ ان کی ایک بہت ضروری فائل گم ہو گئی تھی۔ ان کا غذات کا ملتا بہت ضروری تھا۔ ہو نپ ہو نپ ، او چا چا اندھا ہے کیا۔ رکشے والے کی کرخت آواز اور اور گاڑیوں کے ہارن جیسے انہیں ہوش میں لے آئے۔ گاڑی رکشے سے نکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اگر وقت پر رکشہ والا نہ موڑ تا تو شاید …. انہیں جھر جھری آگئی۔

رمضان کے دنوں میں ایک تو آج شدید گرمی تھی انہیں روزہ بھی لگ رہا تھا۔ خون کھو لاتے گھر پہنچے تو روزہ کھلنے میں صرف چند منٹ باقی تھے۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر میل پر بیٹھ گئے۔ “اف بہت گرمی ہے

موجودہ دور کی تیز رفتار اور بے ہنگم زندگی میں انسان جہاں مادی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے وہیں ذہنی و جذباتی عدم توازن میں بھی مبتلا ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہر دوسرا فرد کسی خوف، پریشانی یا ذہنی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں مائنڈ فل نیس Mindfulness یعنی مویر موجود میں جینے کا فن ، ایک اہم اور کار آمد متبادل طریقہ علاج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ زیر نظر مضامین کا قسط وار سلسلہ دس برس قبل روحانی ڈائجسٹ میں شایع ہوا۔ اس مضمون میں سادہ زبان میں یہ بتایا گیا کہ مائنڈ فل نہیں کیا ہے….؟ معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کی جڑوں کو سمجھتے ہوئے ذہنی دباؤ، خوف اور مایوسی سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے ؟ مائنڈ فلمیں کس طرح ایک مثبت، صحت مند اور با مقصد زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے….؟ قارئین کی دلچسپی کے لیے روحانی ڈائجسٹ کا یہ مقبول سلسلہ چند ترمیمات کے ساتھ دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس مضامین میں قاری کو نہ صرف علمی آگاہی دی گئی ہے بلکہ عملی طور پر بہتری کی راہیں بھی دکھائی گئی ہیں۔

آج میں تو بس ٹھنڈا یخ پانی چاہتا ہوں“ ان کی نظریں جنگ پر جمی تھیں ۔ ان کی یہ بات سن کر ان کی بیگم تھوڑی سی گھبر ائیں۔

ارے آج سارا دن لائیٹ ہی کہاں تھی جو پانی ٹھندا ہوتا“۔

تو برف منگوالیتیں“۔ وہ برہم لہجے میں بولے ارے کیسی باتیں کرتے ہیں پتا نہیں کیسا آلودہ پانی ہوتا ہے جس کی برف جماتے ہیں“۔ تو برابر سے مانگ لیتیں ان کے ہاں تو جنریٹر پر سب چلتا ہے “۔ وہ انا پڑے۔

ے تو بہ ہے۔ آپ بھی حد کرتے ہیں ۔ ایک دن پانی ٹھنڈا نہیں ملے گا تو کیا ہو جائے گا“۔ ان کی بیگم بھی گرم ہو گئیں۔

صبح سے اس گرمی میں آپ کے لئے کچن میں تھی ہوئی ہوں اور آپ ہیں کہ ….“ پا“۔ ننھے اسد نے طاہر بیگ کا ہاتھ پکڑ کر ہلا یا اذان ہونے والی ہے۔ وہ

اٹک اٹک کر بولا :

طاہر بیگ نے گھور کر بچے دیکھا۔ وہ ڈر کر پیچھے کرسی کے پیچھے چھپ گیا۔ ایک وہی تو تھا جسے پاپانے کبھی نہیں ڈانٹا تھا۔

کم سے کم رمضان کا ہی خیال کر لیں ۔ دعا کا خیال کرلیں۔ دعا کا وقت ہے“۔ بیگم بولیں

اتنے میں اذان ہو گئی۔ انہوں نے کھجور اور سادہ پانی سے افطار کیا اور نماز کے لئے چلے مسجد چلے گئے۔ مسجد سے واپسی پر ان کا قصہ ذرا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اب انہیں اپنے رویے پر شدید ندامت کا احساس ہو رہا تھا۔

وہ یہ تو بھول ہی گئے تھے کہ آج ان کے دس سالہ بیٹے کا بھی تیسرا روزہ تھا اور اس نے بھی تو شدید گرمی میں اس کم ٹھنڈے شربت سے روزہ کھولا تھا۔ بچے ڈرے ڈرے سے خاموش اپنے کمرے میں دیکے ہوئے تھے اور بیگم صاحبہ ان کے لئے کھانا گرم کر رہی تھیں۔

آج آفس میں بھی ایک ضروری فائل کھو گئی۔ ایک تو روزہ اور اوپر سے اتنا کم وقت

اور پھر ٹریفک کا ہنگامہ ۔ وہ سیل فون پر نظریں جمائے اپنی صفائی دینے لگے۔

کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کھانے کی ٹیبل پر ان کے ساتھ ان کے تین بچے بھی موجود تھے ، مگر لگ رہا تھا کہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ بچے خاموشی سے کھانا کھا کر اٹھ گئے اور بیگم صاحبہ برتن سمیٹنے میں لگ گئیں۔

طاہر بیگ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس تھا۔ ایک طرف احساس شرمندگی دوسری طرف رتبے کا احساس وہ سیل فون بیچ کر چپ کر کے لیٹ گئے۔ ایسی صورت حال آج کل ہمارے کئی تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی دیکھنے کو ملنے لگی ہے۔

اس صورت حال میں شدید گرمی سے زیادہ مزاج کی برہمی کا دخل ہے۔ کہیں کہیں طبیعیت میں ٹھہراؤ کا فقدان بھی ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں ذرا سوچے کیا یہ اچھی چیز ہے….؟

یقینا آپ کا جواب نہ میں ہے۔ کیونکہ ہم سب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایسار و یہ ہماری اقدار اور تہذیب کے بالکل برعکس ہے۔ اسی لئے اگر آپ اپنے پیاروں کے سامنے اس طرح کی شرمندگی اور پچھتاوے سے بچنا چاہتے ہیں تو ائنٹڈ فٹنیس کی یہ قسط آپ کی مددگار ہو گی۔

مائنڈ فلمیں غصہ کیا ہے؟

اگر ہم یہ مان لیں کہ غصہ اچھی چیز نہیں ہے تو پھر ہم اس پر کیسے قابو پائیں۔ اب یہ بھی ایک انو کھا سوال لگتا ہے کہ غصہ کو قابو کیسے کیا جائے….؟ کئی پلیٹ فارم پر ڈسکس

کیا جاتا ہے کہ غصہ کو کنٹرول کیسے کیا جائے۔ مگر مائنڈ فلمیں کی اس کے بارے میں رائے ذرا مختلف ہے۔ مائنڈ فلمیں ہمیں سکھاتی ہے کہ غصہ کا سامنا کرنا سیکھیے۔ کیونکہ غصہ ایک حد تک اچھی چیز ہے۔ آپ کو حیرت ہوئی ہو گی یہ پڑھ کر۔ دراصل غصہ ایک توانائی ہے۔ یہ توانائی ناپسندیدگی کے اظہار میں بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ اسی طرح یہ توانائی کسی بھی کام کے کرنے میں ایک ٹریگر کا کام بھی کرتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ناگوار یا مزاج کے خلاف بات ہوتی ہے اور یہ توانائی آدمی کو متحرک کرتی ہے تو ہم میں سے اکثر اس کے غلبے میں آجاتے ہیں اور ہوش و حواس تک کھونے لگتے ہیں۔ بس ہمیں یہ کرنا ہے کہ غصے سے مغلوب نہیں ہونا۔ مائنڈ فلمیں کے ماہرین کہتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اپنی اس توانائی کو صحیح طور پر استعمال کرنا سیکھیں۔ دراصل ہمارے لیے سب سے مشکل کام پیش آنے والے حالات اور کیفیات کو سمجھنا ہے اکثر اوقات یہی مشور و یا جاتا ہے کہ ان کیفیات یا خیالات کو نظر انداز کرنا سیکھیے۔ جب کہ مائنڈ فٹنیس کا اصول ہے کہ آپ اپنی جس کیفیت کو نظر انداز کریں گے وہ جلد یا بدیر اتنی ہی طاقت اور دباؤ کے ساتھ آپ پر حاوی ہوتی چلی جائے گی۔

اصل اور بنیادی نکتہ جسے ہمیں یاد رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ اپنی کیفیات کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کا سامنا کیجیے۔ اور انھیں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

ہو سکتا ہے آپ سوچیں کہ یہ تو بہت مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ اتنا وقت۔۔جاری  ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2025

Loading