Daily Roshni News

نوکری کرنے والی خواتین بے حیا نہیں ہوتیں۔

نوکری کرنے والی خواتین بے حیا نہیں ہوتیں۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دورانِ انٹرویو، جب کمرے میں خاموشی چھا گئی، باس نے ایک گہرا سوال کیا،

“آپ اس نوکری کے لیے کتنی تنخواہ کی توقع رکھتی ہیں؟”

خاتون نے اپنی آنکھوں میں اعتماد اور عزم کی چمک لیے جواب دیا،

“کم از کم ساٹھ ہزار۔”

اس کا لہجہ پختہ اور پراعتماد تھا، جیسے وہ اپنی قدر خوب جانتی ہوں۔

باس نے مسکراتے ہوئے اگلا سوال کیا،

“آپ کو کوئی کھیل پسند ہے؟”

“جی ہاں، شطرنج،” خاتون نے فوراً جواب دیا،

“واہ! تو پھر شطرنج کی بات کرتے ہیں۔ اس کھیل کا کون سا مہرہ آپ کا پسندیدہ ہے؟ یا یوں کہیں، کون سا مہرہ آپ کے دل کو چھوتا ہے؟”

باس نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔

خاتون کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری اور مسکراتے ہوئے بولی،

“وزیر۔”

“دلچسپ انتخاب! لیکن کیوں؟ میرا تو خیال ہے کہ گھوڑے کی چال سب سے منفرد ہوتی ہے،”

باس نے  دلچسپی سے پوچھا۔

خاتون نے اپنی بات کو گہرائی سے بیان کیا،

“بےشک، گھوڑے کی چال منفرد ہے، لیکن وزیر وہ مہرہ ہے جو ہر خوبی کو سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ پیادے کی طرح ایک قدم چل کر بادشاہ کی حفاظت کرتا ہے، کبھی فیل کی طرح ترچھا چلتا ہے اور کبھی توپ کی طرح دور تک حملہ کرتا ہے۔ وزیر کی طاقت اس کی لچک اور ہر مشکل حالات میں ڈھل جانے کی صلاحیت میں ہے۔”

باس متاثر ہوا۔ اس نے اگلا سوال داغا،

“بادشاہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟”

خاتون نے ایک لمحے کے لیے رُک کر، گہری سوچ میں ڈوب کر جواب دیا:

“بادشاہ… میری نظر میں سب سے کمزور مہرہ ہے۔ وہ صرف ایک قدم چل سکتا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ہر وقت دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ وزیر اسے ہر طرف سے بچاتا ہے، اس کی حفاظت کی مضبوط دیوار بنتا ہے۔”

باس نے اب تک کے انٹرویو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پوچھا:

“بہت خوب! اب یہ بتائیں، ان تمام مہروں میں آپ خود کو کون سا مہرہ سمجھتی ہیں؟”

خاتون کی آواز میں اچانک ایک گہری لرزش آئی۔ ان کی آنکھیں ڈبڈبائیں، لیکن انہوں نے ہمت سے جواب دیا:

“میں خود کو بادشاہ سمجھتی ہوں۔”

باس حیران ہوا۔

“لیکن آپ نے تو ابھی کہا کہ بادشاہ کمزور ہوتا ہے، خود کو بچانے کے لیے وزیر کا محتاج ہوتا ہے۔ پھر آپ خود کو بادشاہ کیوں سمجھتی ہیں؟”

خاتون کی آواز میں ایک درد اور عزم کا عجیب امتزاج تھا۔ انہوں نے کہا،

“جی ہاں، میں بادشاہ ہوں۔ اور میرا وزیر۔۔۔ میرا شوہر تھا۔

وہ میری طاقت، میری حفاظت اور میری ہر مشکل میں ڈھال بنتا تھا۔ اس کی سوچ اور محبت نے مجھے ہر مشکل حالات میں سنبھالا۔ وہ میرا سب کچھ تھا۔”

کمرے میں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ باس کی آنکھوں میں بھی ایک عجیب سی چمک تھی۔ اس نے ہلکے ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوئے کہا،

“بہت خوب! یہ واقعی ایک متاثر کن جواب تھا۔”

پھر، انٹرویو کو سمیٹتے ہوئے، باس نے آخری سوال کیا:

“آپ یہ نوکری کیوں حاصل کرنا چاہتی ہیں؟”

خاتون کی آواز اب بھرائی ہوئی تھی،

“کیونکہ میرا وزیر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔”

کمرے میں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں۔ یہ انٹرویو محض ایک سوال و جواب کا سلسلہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی عورت کی کہانی تھی جس نے اپنے درد کو طاقت بنایا، اپنی کمزوری کو عزم میں بدلا اور اپنے وزیر کی یادوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ یہ کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک پیغام ہے جو زندگی کے شطرنج کے کھیل میں ہمت اور محبت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

اور بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو کام کے لیے نکلی بہن بیٹیوں کو بےکردار اور بے حیا سمجھتے ہیں۔

میرج ہال پر ایک ہیڈ ویٹر اپنے ہمراہ آئی۔ شام کو جاتے وقت وہ کہنے لگیں کہ بھائی آپ میرج ہال کے باقی مینیجرز سے بہت مختلف ہیں۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ اکثر مینیجر ایسی ایسی بیہودہ ڈیمانڈز کرتے ہیں کہ ہم دوبارہ وہاں جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ باہر کام کرنا گویا عزت گنوانے کے مترادف ہوتا ہے یعنی ہراساں کیا جاتا ہے۔

میں نے کہا، “بیٹا! میں خود بھی بہن بیٹیوں والا ہوں، جو میں ان کے لیے پسند نہیں کرتا، وہ قطعاً دوسری بہن بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کروں گا۔”

خیر مثال کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی کہانی نہیں جانتے۔ آپ نہیں جانتے کہ ایک بہن بیٹی اگر کام کے لیے نکلتی ہے تو وہ کن حالات میں نکلی ہے۔

خدارا بہن بیٹی تو بہن بیٹی ہوتی ہے۔ اپنی کیا پرائی کیا۔

سب کا خیال کریں، اور جو نوکری کے لیے نکلی ہوں، انہیں ہراساں کرنے کے بجائے، ان کی حوصلہ افزائی کریں، تاکہ وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکیں۔

پوسٹ کو Share لازمی کریں۔

اللہ ہمیں دوسروں کی عزت کا خیال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر بہن بیٹی کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

منقول

#knowledgehub #RealView #knowledgeHub #afridi #knowledge

Loading