Daily Roshni News

عبادت کی اصل روح

عبادت کی اصل روح

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پہلے پہچان، پھر عبادت اسلام کی معرفتی بنیاد، معرفت الہی کی بغیر عبادت ممکن نہیں۔ انسان کی مذہبی زندگی دو بڑے ستونوں پر کھڑی ہے۔ معرفت: جاننا، پہچاننا، حقیقت تک رسائی۔ عبادت: بندگی، اطاعت، تسلیم۔ اسلام کی روح اسی ترتیب پر قائم ہے۔ قرآن میں سب سے پہلا حکم “اقرأ” (پڑھ) ہے، “صلِّ” (نماز پڑھ) نہیں۔ گویا پہلے شعور، پھر عبادت۔ پہلے پہچان، پھر سجدہ۔ یہی نکتہ صوفیا اور فلاسفہ دونوں بار بار دہراتے ہیں کہ عبادت اس وقت تک عبادت نہیں بنتی جب تک معبود کا ادراک نہ ہو۔ عبادت کا مقصد “معلوم کو ماننا” نہیں، “معلوم کو پا لینا” ہے۔ عبادت کا اصل جوہر کسی نامعلوم ہستی کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ اس ہستی کی پہچان کے بعد بندگی میں پگھل جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار انسان کو صرف عبادت کی طرف نہیں، بلکہ ادراک کی طرف بھی بلاتا ہے:

أَفَلَا تَعْقِلُونَ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟

أَفَلَا تُبْصِرُونَ کیا تم دیکھتے نہیں؟

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ کیا تم غور نہیں کرتے؟

لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ شاید وہ تفکر کریں؟

یہ الفاظ عبادت کے لیے زمین تیار کرتے ہیں اسلام کا خدا اندھے ایمان کا متقاضی نہیں بلکہ باشعور ایمان کا خواہاں ہے۔

اسلام کی فکری روایت میں ایک بنیادی اصول ہمیشہ سے موجود رہا ہے: جس کی عبادت کرنی ہے، پہلے اسے پہچانو۔ پہچان کے بغیر عبادت محض رسمی حرکات و سکنات بن کر رہ جاتی ہے؛ اور پہچان کے ساتھ عبادت ایک زندہ، روشن اور بامقصد عمل بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی ابتدا عبادت سے نہیں، بلکہ معرفت سے ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم کا پہلا حکم “اقرأ” ہے، “صلِّ” نہیں۔ یعنی پہلے دیکھو، سوچو، سمجھو—پھر جھکو۔ یہ ترتیب اتفاقاً نہیں، بلکہ اسلام کے فکری ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

قرآنِ کریم نے جگہ جگہ اس ترتیب کو واضح کیا ہے۔ سورہ محمد میں ارشاد ہے: “فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه” پہلے جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر ایمان اور عمل کے مراحل آتے ہیں۔ یہاں “فاعلم” بطور شرطِ اوّل بیان ہوا ہے: علم کے بغیر ایمان ناقص ہے، اور ایمان کے بغیر عبادت بے معنی۔ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی کہتے ہیں: “جس نے خدا کو پہچانا ہی نہیں، اس کی عبادت فقط جسمانی حرکات ہیں، روحانی حقیقت نہیں۔“

عبادت ایک تعلق کا نام ہے۔ اور کوئی تعلق شناخت کے بغیر قائم نہیں ہوتا۔ ہم اُس ہستی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں جس کا تصور دل میں موجود ہو، اگر تصور مبہم ہے تو بندگی بھی مبہم رہتی ہے۔ اگر تصور روشن ہے تو بندگی بھی روشنی سے بھر جاتی ہے۔ معرفت عبادت کی روح ہے، اور روح کے بغیر عبادت محض خول۔

حدیثِ جبریل اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ اسلام، ایمان اور احسان کے تین درجوں میں سب سے اونچا درجہ احسان ہے: “أن تعبد الله كأنك تراه”یعنی خدا کو ایسے پوجو جیسے اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ دیکھنا باہر کی آنکھ سے نہیں، باطن کی معرفت سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ معرفت بغیر تلاش، بغیر غور و فکر، اور بغیر خود شناسی کے نہیں دی جاتی۔

پہچان کیسے؟ معرفت کا اسلامی راستہ اسلام میں خدا کی پہچان تین ذرائع سے ہوتی ہے:

(1) آیاتِ آفاق دنیا، کائنات کے اسرار

(2) آیاتِ انفس انسان کے اندر کے راز

(3) آیاتِ قرآن وہ الہامی ہدایت جو دونوں کو جوڑتی ہے۔

سورۃ حٰم السجدہ میں ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (ہم انہیں اپنی نشانیاں باہر بھی دکھائیں گے اور ان کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے)۔

خدا کی معرفت

اسلام معرفت کو دو درجوں میں بیان کرتا ہے:

(1) علم الیقین — دلیل سے جاننا

(2) عین الیقین — تجربے سے دیکھنا

(3) حق الیقین — حقیقت میں ڈوب جانا

یہ تیسرا درجہ صوفیا کا مقصود ہے۔

یہاں عبادت بندگی نہیں، وصال بن جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے ابن عربی، رومی، بایزید، جنید اور غزالی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ غزالی کہتے ہیں: “علم تمہیں خدا تک لے جاتا ہے، اور معرفت تمہیں خدا میں گم کر دیتی ہے۔”

پہچان کے بغیر عبادت کیوں نامکمل؟ کیونکہ عبادت کا مقصد، فقط ثواب نہیں، فقط رسم نہیں، فقط فرض کی ادائیگی نہیں بلکہ “لقاءِ رب” (اپنے رب سے ملنا) ہے۔ قرآن کہتا ہے: یُرِيدُونَ وَجْهَهُ (وہ لوگ اللہ کا چہرہ چاہتے ہیں یعنی اس کی ذات کی معرفت) لہٰذا عبادت نتیجہ ہے اصل چیز پہچان ہے۔

عرفان کے بغیر عبادت، تعین نہیں “تعین” یعنی معلوم کرنا کہ کس کی عبادت کرنی ہے۔ اگر انسان خدا کو تصور سمجھے، عقیدہ سمجھے، کتاب میں لکھا ہوا لفظ سمجھے، تو وہ فقط الفاظ کی عبادت کرتا ہے، خدا کی نہیں۔ اسی لیے قرآن کا پہلا بنیادی دعویٰ یہ ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (اس جیسا کچھ بھی نہیں)۔ یہاں سے حقیقی عبادت شروع ہوتی ہے۔

جب معرفت واضح ہو جائے یعنی پہچان ہو جائے، عرفان ہو جائے۔ پھر عبادت آئے۔ عرفان کے بغیر عبادت خالی رسم بن جاتی ہے۔ صوفیا کہتے ہیں “جس خدا کو جانا نہیں، اس کی عبادت صرف رسم رہ جاتی ہے، روح نہیں بنتی۔” جب تک عبادت کا رخ حقیقت کی طرف نہ ہو، عبادت انسان کو بدلتی نہیں وہ صرف عادت بن کر چلتی رہتی ہے۔

اسی لیے صوفیہ نے ہمیشہ کہا: “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ یہاں “نفس” سے مراد صرف خواہشیں نہیں، بلکہ وجود کا وہ لطیف مرکز ہے جہاں شعور، زندگی اور سانس مل کر حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انسان جب اپنے اندر جھانک کر اس لطیف مرکز کو پہچانتا ہے تو اسے معلوم ہونے لگتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے، اور کس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس شعور کے بعد عبادت ایک بوجھ نہیں رہتی؛ ایک لطف بن جاتی ہے۔

اسلام کا تصورِ خدا یہ نہیں کہ بندہ اندھا ہو کر جھک جائے۔ قرآن ہر قدم پر سوال اٹھاتا ہے: “أفلا تعقلون، أفلا تبصرون، أفلا تتفکرون؟ “کیا تم عقل استعمال نہیں کرتے؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ یہ سوالات عبادت سے پہلے تفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ یعنی دین کی بنیاد آنکھ بند کرنے میں نہیں، آنکھ کھولنے میں ہے۔ پہچان کے بغیر عبادت اندھیرے میں تیر چلانے جیسی ہے۔ پہچان کے ساتھ عبادت منزل تک پہنچنے کا یقینی راستہ۔

یہ پہچان کہاں سے آتی ہے؟ قرآن تین دروازے دکھاتا ہے: آفاق، انفس اور آیات۔ پہاڑ، سمندر، ستارے، یہ سب خدا کی پہچان دلاتے ہیں۔ مگر سب سے روشن دروازہ انسان کا اپنا اندر ہے۔ سانس، جو ہر لمحہ آتا جاتا ہے، انسان کو اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ زندگی کسی اتفاق کا نام نہیں۔ ہر سانس ایک سوال ہے: یہ زندگی کہاں سے آرہی ہے؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ صوفیا نے سانس کو عرفانِ الٰہی کا پہلا زینہ کہا ہے، کیونکہ سانس وہ واحد پل ہے جو انسان کو لمحہ بہ لمحہ اس کے خالق کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔

جب انسان ذات کی گہرائی میں جھانک کر خدا سے پہچان پیدا کر لیتا ہے، تب عبادت محض فرض کی ادائیگی نہیں رہتی؛ یہ ایک ملاقات، ایک مکالمہ، ایک وصال کا عمل بن جاتی ہے۔ ایسا انسان سجدہ کرتا نہیں، سجدہ بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے نماز فقط رسم نہیں بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے جس میں روح اور عقل دونوں شامل ہوتے ہیں۔

اسلام میں عبادت کا نقطہ آغاز معرفت ہے سجدہ نہیں۔ پہچان کے بغیر عبادت شکل رکھتی ہے، روح نہیں۔ پہچان کے ساتھ عبادت سفر بن جاتی ہے خدا تک۔ اسی لیے کہا گیا پہلے پہچانو، پھر عبادت کرو۔ پہلے عرفان، پھر ایمان۔ پہلے روشنی، پھر سجدہ۔

اسلام کی عبادت پہچان کے بغیر مکمل نہیں، اسلام کا ایمان، اسلام کی عبادت، اسلام کا سجدہ، اسلام کی دعا، سب معرفت سے جنم لیتے ہیں۔ پہچان کے بغیر عبادت جسمانی حرکتیں ہیں۔ پہچان کے ساتھ عبادت روح کی پرواز ہے۔ اسی لیے کہا گیا: “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”(جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) اور پھر عبادت سجدہ نہیں رہتا، دیدار کی درخواست بن جاتا ہے۔

جب بندہ جان لیتا ہے کہ وہ کس کے سامنے جھک رہا ہے، تو اس کا سجدہ محض جسمانی حرکت نہیں رہتا، روح کا عروج بن جاتا ہے۔ اس لیے دینِ فطرت یہی کہتا ہے: پہچان کے بغیر عبادت اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے، اور پہچان کے ساتھ عبادت منزل تک پہنچنے کا روشن راستہ۔ اسلام میں عبادت کا مقام بلند ضرور ہے، لیکن اس کا نقطۂ آغاز ہمیشہ معرفت ہے، پہلے پہچان، پھر عبادت۔

۔

طبیب وجاہت علی خان

03096207007

Loading