Daily Roshni News

پاکستان یا پاگل خانہ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

پاکستان یا پاگل خانہ

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پاکستان یا پاگل خانہ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )دنیا بھر میں جب الیکشن سے پہلے مہم چلائی جاتی ہے یا اقتدار پانے کے بعد حکمران تقاریر کرتے ہیں تو اپنا منشور، عوام دوست پالیسیز اور ملکی سلامتی کے منصوبوں پر گفتگو کرتے ہیں۔ شاید پاکستان واحد ملک ہے جہاں صاحبِ اقتدار و اختیار ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ اور یہ جنگ کسی محاذ پر دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ آپس میں ہی لڑی جا رہی ہوتی ہے۔ اس میں ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ خود کو افلاطون، ملک کا سب سے بڑا خیرخواہ، سچا اور دوسرے کو ذہنی مریض اور جاہل ثابت کر سکے۔ اس مقابلہ بازی کے کچھ بیانات تو عالمی شہرت بھی حاصل کر چکے ہیں۔

بعض رپورٹس میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی بیانات نے سچ اور جھوٹ کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ ایک ایسا نیا ‘موجودہ حالات کا سچ’ جسے سمجھنے کے لیے عالمی صحافی بھی الفاظ تلاش کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی فوج نے سابق وزیراعظم عمران خان کو “ذہنی مریض” قرار دیا کیونکہ انہوں نے فوجی سربراہ پر تنقید کی تھی۔ فوج کے ترجمان نے نہ صرف عمران خان کی باتوں کو ناقابلِ برداشت کہا بلکہ انہیں قومی نقصان کا سبب بھی قرار دیا۔

گزشتہ کچھ عرصے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات نے بھی سیاست میں مزید رنگ بھر دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ فوج سیاست میں ملوث نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں کو سیاست اپنے تک ہی محدود رکھنے کی تلقین کی۔ یہ بیان بین الاقوامی صحافت کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ کچھ صحافیوں نے پوچھا کہ جب سیاست دان اتنا شور مچا رہے ہوں تو کیا واقعی فوج سیاست سے دور رہ سکتی ہے؟ اور کچھ نے کہا کہ فوج کا اعلان بھی اسی سیاسی ڈرامےکا حصہ لگتا ہے۔ اگر فوج سیاست میں ملوث نہیں تو پھر سیاست دان کس بل بوتے پراتناشور کر رہے ہیں؟

اگر فوج اپنے سابق وزیراعظم کو ذہنی مریض کہے اور وہ سابق وزیراعظم اپنے مخالفین کو بے وقوف اور جاہل تو پھر عوام کا کیا بنے گا؟ باقیوں کا تو معلوم نہیں مگر مجھے یہی لگتا ہے کہ ہمارے اوپر نگران و نگہبان سب پاگل خانے کی پیداوار ہیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کسی پاگل خانے کا دروازہ غلطی سے کھلا چھوڑ دیا گیا ہو اور وہاں سے فرار ہونے والے لوگ براہِ راست اسمبلی، وزارتوں اور مختلف منصبوں پر پہنچ گئے ہوں۔

ہمارے حکمران وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں ملک اور عوام کے لیے بنیادی سہولیات بجلی، پانی، گیس، تعلیم، صحت، بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری یا دشمن سے ملکی دفاع وغیرہ کی ہرگز فکر نہیں۔ ان کے پاس ان فضولیات کےلیے وقت نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ایک اور اہم ترین کام ہے: اپنے آپ کو سب سے زیادہ ‘سچا اور ذہین ترین’ ثابت کرنا۔ جب بھی کوئی سیاست دان کہتا ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ سچ کا سرکاری ڈیزائنر بن گیا ہے۔ ہر سیاست دان اپنے سچ کو آئینی، عالمی اور بعض اوقات کائناتی سچ بھی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہوتا ہے۔

صحافی بھی حیران ہیں کہ یہ سچ اتنا متنازعہ کیسے بن گیا ہے؟ نئی بحثیں، نئے الزامات، نئے کلپس اور چوبیس گھنٹے چلتے تجزیے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی سیاسی ریئلیٹی شو دیکھ رہے ہیں۔جس میں ہر کردار خود کو ہیرو اور باقی سب کو ولن ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ ہر پارٹی، ہر لیڈر، اور ہر ترجمان ایک دوسرے پر تنقید کر رہا ہے جیسے اسکول میں بچوں میں مقابلہ ہو: “میں تم سے زیادہ سچا ہوں!” “تم ذہنی مریض ہو!” “میری بات زیادہ معتبر ہے!” یہ سب جملے ایسے لگتے ہیں جیسے کسی مزاحیہ ڈرامے کے اداکار اپنی اپنی لائنیں یاد کیے بغیر اسٹیج پر آکر بس جو منہ میں آ رہا ہےبولتے جا رہے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا پر بھی ہماری یہ بچکانہ جنگ باعثِ تفریح بن چکی ہے۔ غیر ملکی صحافت نے پاکستان کے سیاسی مناظروں پر تبصرہ کیا کہ ‘سیاسی بیانات میں روایتی حدود ختم ہو چکی ہیں اور ہر بیانیہ شدت پسند لگ رہا ہے۔’ کچھ رپورٹرز نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ’ یہاں سیاست دان اتنے زور و شور سے سچ کا ڈھول پیٹتے ہیں کہ عوام اکثر سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اصل میں کون سچ بول رہا ہے اور کون صرف دعوے کر رہا ہے۔’

سیاست کا یہ میلہ اب صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک ایسا نفسیاتی کھیل بن گیا ہے جس میں ہر کھلاڑی کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہی سب سے بڑا مظلوم ہے۔ جلسوں میں تقریریں سنیں تو ہر رہنما خود کو قوم کا مسیحاثابت کرتا ہےمگر اقتدار ملتے ہی اس مسیحائی کو بی مینڈکی والا زکام ہو جاتا ہے۔ اور قوم کو بچانے کی ساری توانائی مخالفین کو کوسنے میں لگ جاتی ہے۔ عوام بےچاری سوچتی رہ جاتی ہے کہ اگر سب اتنے سچے اور نیک نیت ہیں تو پھر ملک کی یہ حالت کس نے کی کیا ہم نے؟

 سچ تو یہ ہے کہ لوگ بھی اب سیاستدانوں کی باتوں کوسنجیدگی سے نہیں سنتے۔ بلکہ جلسے جلوسوں ، اسمبلی کے سیشنز، سیاستدانوں کی تقاریر کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے نئی پاکستانی کامیڈی فلم ریلیز ہو گئی ہو۔ نئی لائن، نیا طعنہ، نیا کرداراور ٹوئٹر پر ایک نیا میم۔ہم پاکستانی شاید دنیا کی پہلی ایسی قوم ہیں جو سیاست میں بھی مزاح ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ کوئی لیڈر گر جائے، پھسل جائے، یا تقریر میں کوئی غلط جملہ نکل جائے تو عوام کی تفریح پورا ہفتہ چلتی رہتی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں تو سیاسی پریس کانفرنسز بھی ایسے ہونے لگی ہیں جیسے یوٹیوبرز کے درمیان سبسکرائبرز کی جنگ چل رہی ہو۔ ایک دن ایک پریس کانفرنس میں سچ کا دھماکہ ہوتا ہے تو اگلے دن جواب میں دوسری پریس کانفرنس سچ کا ہتھوڑا لے کر آ جاتی ہے۔ میڈیا کے کیمرے بھی پریشان ہیں کہ ان کے سامنے سیاست ہے یا کوئی تفریحی سرکس؟ کبھی کبھی لگتا ہے کہ نیوز چینل اور ٹاک شوز کو باقاعدہ ٹکٹ لگا کر دکھایا جانا چاہیے اور عنوان ہونا چاہیے:”آئیے دیکھیے پاکستانی سیاست ۔روز ایک نیا تماشہ!”

     اس مسلسل الزام تراشی اور لیبلنگ کے نتیجے میں عوام کا اعتماد سیاسی شخصیات سے بالکل ختم ہو چکا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے وہ ایک ایسے مچھلی بازار میں کھڑے ہیں جہاں ہر کوئی اپنا مال بیچنے کے لیے سستی قیمتوں کا لالچ دے کر رجھا رہا ہے لیکن کم قیمت پر مال بیچ کر اپنا نقصان بھی نہیں کرنا چاہتا۔ نتیجہ یہ کہ وعدے بھی سستے ہیں اور دعوے بھی۔لیکن پورا ہونے کا امکان اتنا ہی کم جتنا گرم موسم میں بارش کا۔ ملک کا سیاسی اسٹیج ایک ایسے پاگل خانے میں بدل چکا ہے جہاں ہر مریض دوسرے کو مریض ثابت کرنے پر تلا ہے اور ڈاکٹر کہیں نظر نہیں آتے۔اگر کبھی غلطی سے دکھائی دے بھی جائیں تو شاید وہ بھی اسی پاگل خانے کے مستقل رہائشی نکلیں گے۔

Loading