🌙 یونس ایمرےؒ اور حضرت تَپتُکؒ — انا کی خاک سے نور تک کا سفر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)(Ego Purification) تزکیۂ نفس • روح کا روشن ہونا۔یہ تب کی بات ہے جب اناطولیہ کی زمین جنگوں، غربت اور انتشار سے بھرپور تھی—
مگر کچھ دل ایسے بھی تھے جو اللہ کی روشنی کے قیدی تھے۔
انہی دلوں میں ایک دل تھا: یونس ایمرےؒ۔
یونس ایک سیدھے سادے، خالص، لیکن اندر سے ٹوٹے ہوئے انسان تھے۔
دل میں سوال، روح میں پیاس، اور سینے میں ایسی آگ…
جو دنیا کی کسی ہوا سے نہیں بجھتی تھی۔
وہ علم نہیں چاہتے تھے—
وہ حق چاہتے تھے۔
وہ الفاظ نہیں چاہتے تھے—
وہ نور چاہتے تھے۔
اسی تلاش نے انہیں ایک ایسے در تک پہنچایا جو صدیوں تک نور کی منزل رہا:
حضرت تَپتُک ایمرےؒ کا در۔
⸻
🌟 پہلی ملاقات — دروازے پر کھڑا ایک ٹوٹا ہوا دل
کہتے ہیں کہ یونسؒ کئی میل پہاڑوں سے گزر کر،
تند ہواؤں اور برفانی راتوں میں سفر کر کے
حضرت تپتُکؒ کی خانقاہ پہنچے۔
دروازہ کھٹکھٹایا۔
ایک مرید باہر آیا:
“کون ہو؟”
یونسؒ نے کہا:
“علم نہیں چاہتا…
بس اللہ کے راستے کا مسافر ہوں۔
تپتُکؒ کے قدموں میں جگہ چاہیئے۔”
مرید انہیں اندر لے گیا۔
حضرت تَپتُکؒ خاموش بیٹھے تھے۔
یونسؒ نے پہلی بار نظر اٹھائی—
اور محسوس کیا جیسے ان کی پوری روح کو دیکھ لیا گیا ہو۔
حضرت نے پوچھا:
“کیوں آئے ہو؟”
یونسؒ نے نرمی سے کہا:
**“دل سے ‘میں’ نکالنا چاہتا ہوں۔
اور اللہ کو دل میں بٹھانا چاہتا ہوں۔”**
حضرت تَپتُکؒ نے ایک جملہ کہا،
جو یونس کی پوری تقدیر بدلنے والا تھا:
**“دل سے ‘میں’ نکالنا آسان ہے—
مگر ‘میں’ کا سایہ بھی نہ رہے، یہ مشکل ہے۔
کیا تم تیار ہو؟”**
یونسؒ نے سر جھکا کر کہا:
“ہاں، حضور۔”
⸻
🌙 تزکیہ کی آزمائش — لکڑیاں اٹھانے والا عاشق
حضرت تپتُکؒ نے یونسؒ کو کوئی کتاب نہ دی،
کوئی بحث نہ دی،
کوئی فلسفہ نہ دیا۔
بلکہ فرمایا:
**“جنگل جاؤ…
اور خانقاہ کے لیے لکڑیاں لاؤ۔
یہ تمہارا پہلا سبق ہے۔”**
یونس حیران—
اتنی دور آیا تھا…
اور ملے لکڑیاں؟
مگر دل ایمان سے بھرا ہوا تھا۔
وہ روز پہاڑ پر جاتا،
لکڑیاں کاٹتا،
خانقاہ میں لاتا،
اور خاموش بیٹھ جاتا۔
مہینے گزر گئے…
سال گزر گئے…
کوئی ترقی نہیں،
کوئی تعلیم نہیں،
کوئی خاص مقام نہیں۔
لوگ کہتے:
“یہ یونس بے وقوف ہے!
اتنی خدمت کرتا ہے،
پھر بھی اسے کچھ نہیں دیا جاتا!”
لیکن یونسؒ کے دل میں ایک ہی جواب تھا:
**“میں تپتُکؒ کی رضا نہیں چاہتا—
میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔”**
⸻
🌟 یونس کی سب سے بڑی کرامت — ‘میں’ کا مر جانا
ایک دن حضرت تپتُکؒ نے یونسؒ سے کہا:
“تم جو لکڑیاں لاتے ہو،
کبھی ٹیڑھی لکڑی کیوں نہیں لائے؟”
یونسؒ نے عاجزی سے جواب دیا:
**“حضور! میں وہ لکڑی کیسے لاؤں
جس میں ٹیڑھ ہو—
جب میں خود ابھی سیدھا نہیں؟”**
حضرت تپتُکؒ لرز گئے۔
یہ جواب ہزار کتابوں سے زیادہ قیمتی تھا۔
انہوں نے یونس سے کہا:
“آج سے تم میرے مرید نہیں—
تم میرے دل کے قریب ہو۔”
یونسؒ نے عرض کیا:
“حضور، میں کیا ہوں؟”
حضرت تَپتُکؒ نے فرمایا:
**“جو اپنی ‘میں’ مار دے—
وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔
یونس… آج ‘تم’ مر گئے ہو
اور ‘اللہ’ تم میں بولنے لگا ہے۔”**
⸻
🌙 آخری آزمائش — جس نے یونس کو یونس بنایا
ایک دن خانقاہ میں روٹی کی کمی ہو گئی۔
حضرت نے فرمایا:
“یونس، لوگوں میں بانٹ دو۔”
چند روٹیاں تھیں،
لوگ سینکڑوں۔
یونسؒ نے دل میں کہا:
“میں نہیں…
اللہ دے گا۔”
وہ روٹیاں دینے لگے—
اور ختم ہی نہ ہوئیں۔
حضرت تپتُکؒ نے فرمایا:
**“یہ کرامت روٹی کی نہیں،
یہ کرامت یقین کی ہے۔”**
⸻
🌟 یہ کہانی کیوں آج بھی دل بدل دیتی ہے؟
کیونکہ یہ سکھاتی ہے:
✨ عشق کتابوں سے نہیں— خدمت سے ملتا ہے
✨ انا جب مر جائے، دل اللہ سے بھر جاتا ہے
✨ جو اللہ کے لیے جھک جائے، دنیا اس کے سامنے جھک جاتی ہے
✨ تزکیۂ نفس کا سفر طویل ہے مگر نتیجہ نور ہے
✨ مرشد صرف سکھاتا نہیں— مرید کے دل سے ‘میں’ نکالتا ہے
اور سب سے بڑا راز:
✨ **“یونس ایمرے شاعر نہیں تھے—
وہ ‘میں’ سے خالی دل تھے۔
اور خالی دل میں اللہ بولتا ہے۔”**
![]()

