نمک کی ابدی کہانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک دور دور کے گاؤں میں ایک بوڑھا تاجر رہتا تھا جس کا نام تھا حاجی عبداللہ۔ وہ ساری زندگی تجارت کرتا رہا، مختلف شہروں اور ملکوں کا سفر کیا، اور ہر قسم کی چیز بیچی: کپڑے، مصالحے، زیورات، حتیٰ کہ پرانی کتابیں۔ لیکن اس کی سب سے پسندیدہ چیز نمک تھی۔ وہ کہتا تھا، “نمک دنیا کی سب سے عجیب چیز ہے۔ یہ نہ سڑتا ہے، نہ خراب ہوتا ہے، نہ اس میں کیڑے لگتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ویسا ہی رہتا ہے جیسا تھا۔”
حاجی عبداللہ کے تین بیٹے تھے: بڑا، درمیانا اور چھوٹا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اس نے سوچا کہ اپنا کاروبار اور مال بیٹوں میں تقسیم کر دے۔ ایک دن اس نے تینوں کو بلایا اور پوچھا، “بیٹو، تم مجھے کتنا پیار کرتے ہو؟”
بڑے بیٹے نے کہا، “ابا جی، میں آپ سے سونے چاندی کی طرح پیار کرتا ہوں۔ آپ میرے لیے سب سے قیمتی ہیں!”
درمیانے بیٹے نے کہا، “ابا، میں آپ سے موتیوں اور ہیروں کی طرح محبت کرتا ہوں۔ آپ کی قدر میرے دل میں بادشاہوں کے خزانوں سے بھی زیادہ ہے!”
چھوٹے بیٹے کا نام تھا علی۔ وہ خاموش طبع تھا اور ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرتا۔ اس نے سر جھکا کر کہا، “ابا جی، میں آپ سے نمک جتنا پیار کرتا ہوں۔”
بڑے اور درمیانے بیٹوں نے ہنس کر کہا، “نمک؟ یہ کیا بات ہوئی! نمک تو سستی اور عام چیز ہے!”
حاجی عبداللہ کو بھی غصہ آ گیا۔ اس نے سوچا کہ چھوٹا بیٹا اسے حقیر سمجھتا ہے۔ اس نے علی کو گھر سے نکال دیا اور سارا مال بڑے اور درمیانے بیٹوں کو دے دیا۔ علی خاموشی سے نکل گیا اور دور ایک چھوٹے سے شہر میں جا بسا۔ وہ محنت مزدوری کرنے لگا۔
کئی سال گزر گئے۔ حاجی عبداللہ کے بڑے بیٹوں نے کاروبار سنبھالا، لیکن وہ عیاش تھے۔ جلد ہی سارا مال اڑا دیا۔ ایک دن بادشاہ کے دربار میں ایک بڑا ضیافت کا اہتمام ہوا۔ حاجی عبداللہ اور اس کے بیٹوں کو بھی بلایا گیا۔ ضیافت میں کھانے بہت لذیذ تھے، لیکن ایک عجیب بات تھی: تمام کھانوں میں نمک نہیں ڈالا گیا تھا!
سب لوگ کھانا کھا رہے تھے، لیکن ذائقہ بالکل پھیکا تھا۔ سوپ بے مزہ، گوشت بے ذائقہ، سبزیاں بے جان۔ بادشاہ نے باورچی خانے سے پوچھا، “یہ کیا ہوا؟ کھانا اتنا بے مزہ کیوں ہے؟”
باورچی نے کہا، “جناب، نمک ختم ہو گیا ہے۔ ملک میں قحط پڑ گیا ہے اور نمک کی سپلائی بند ہو گئی ہے۔”
حاجی عبداللہ نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو اسے کچھ یاد آ گیا۔ وہ رو پڑا۔ اس نے سوچا، “نمک کے بغیر یہ سب قیمتی کھانے کچھ بھی نہیں۔ سونا چاندی، موتی ہیرے تو کھائے نہیں جاتے، لیکن نمک کے بغیر زندگی بے مزہ ہے!”
اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا، “اب سمجھ آئی کہ علی نے کیا کہا تھا؟ وہ مجھ سے نمک جتنا پیار کرتا تھا، یعنی اتنا پیار کہ جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ نمک عام لگتا ہے، لیکن یہ زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کبھی خراب نہیں ہوتا، ہمیشہ اپنا کام کرتا رہتا ہے۔”
حاجی عبداللہ نے فوراً علی کو تلاش کروایا۔ جب علی آیا تو باپ نے اسے گلے لگایا اور معافی مانگی۔ “بیٹا، تم ٹھیک کہتے تھے۔ نمک ایک غیر جاندار معدنی چیز ہے۔ اس میں زندگی نہیں، اس لیے بیکٹیریا یا جراثیم نہیں پیدا ہوتے۔ یہ کبھی سڑتا نہیں، خراب نہیں ہوتا۔ چاہے کتنا ہی پرانا ہو جائے، ویسا کا ویسا رہتا ہے۔ اور یہی نمک زندگی کو ذائقہ دیتا ہے۔ تمہارا پیار بھی ایسا ہی ہے: خاموش، ابدی اور لازمی۔”
علی نے باپ کو معاف کر دیا۔ وہ سب مل کر رہنے لگے۔ اور حاجی عبداللہ ہر کسی کو یہ کہانی سناتا، کہ نمک کی قدر کرو، کیونکہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتا، نہ خراب ہوتا ہے۔
![]()

