Daily Roshni News

“””””””””””””فیصلہ””””””””””””

“””””””””””””فیصلہ””””””””””””
*انسان کی زندگی فیصلہ کرنے کی اہمیت کے سبب سے اہم ہے ۔ انسان کو عقل دی گئی ، قواء دیے گئے ۔ اُس کے سامنے زندگی کی کتاب کُھلی ہے ۔ اُس کے سامنے کائنات جلوہ آرا ہے ۔ اُس کے سامنے قوموں کا ماضی ہے ، مستقبل کے اندازے اور پروگرام ہیں ۔ وہ سوچ سکتا ہے ، اس لیے وہ حق رکھتا ہے کہ فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ ایک فیصلہ کرنے کے بجائے فیصلے ہی کرتا رہتا ہے اور یوں لکھ لکھ کر مٹاتا ہے اور مٹا مٹا کے لکھتا ہے ، اپنی قسمت کے الفاظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو جب بھی کوئی مشکل اور صحیح معنوں میں مشکل درپیش آئے تو وہ فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے اور یہ گھڑی کسی وقت بھی راہ میں کھڑی ہو سکتی ہے ۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑے بڑے کارناموں تک فیصلوں کی مدد سے چلتے ہیں ۔ فیصلوں کے دم سے عروج حاصل کرتے ہیں اور فیصلوں کے دم سے ہی زوال ۔
انسان فیصلہ ایک لمحے میں کرتا ہے اور پھر اس فیصلے کا نتیجہ ساری عمر ساتھ ساتھ رہتا ہے ۔ روشنی کی طرح ، کبھی آسیب کی طرح ۔ ایک بار کیا گیا فیصلہ کبھی بدلا نہیں جا سکتا ۔ وقت دوبارہ نہیں آتا ۔ زندگی میں کوئی لمحہ دوبارہ نہیں آتا ۔ فیصلے کے لمحے کہاں دہرائے جا سکتے ہیں ۔
دوستوں کو تحفہ دینے کا وقت آئے تو ہم فیصلے کے کرب سے دو چار رہتے ہیں ۔ دل چاہتا ہے کہ دوست کو سب سے قیمتی تحفہ پیش کیا جائے ۔ انسان سوچتا ہے ہی رہتا ہے اور جب فیصلہ کرتا ہے تو تحفہ دینے کا وقت گزر چُکا ہوتا ہے اور یُوں دوستی ختم ہونا شروع ہوتی ہے ۔ دراصل دوستی میں تحائف کا تبادلہ ہی دوستی کی کمزوری ہے ۔ اس رشتے کو رشوت کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے ، تو بہتر ہے ۔ امیر اور غریب آدمی اس لیے نہیں کر سکتے کہ تحائف کا تبادلہ ناممکن ہے ۔ آج کل انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ سوچتا رہے کہ اسے کیا چیز کس کو کب دینا ہے ۔ اس کام کے لیے ایکسپرٹ ادارے موجود ہیں ۔ وہ آپ کا فیصلہ کر کے آپ کو مل دے دیں گے اور بس کام تمام ہو گیا ۔
ہم لوگ فیصلہ کرنے کا شوق تو زمانۂ قدیم سے رکھتے ہیں یعنی بچپن سے ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے فیصلے کرے ، اپنے فیصلے ، اور اگر اپنے نہ کر سکے تو قوموں کے فیصلے ، ملکوں کے فیصلے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہماری زندگی کو بے حد متاثر کرنے والے فیصلے اتفاقاً ہو جاتے ہیں ، بس اتفاقاً جیسے اتفاقاً نظر سے نظر مل جائے اور پھر زندگی بھر کا ساتھ ہنس کر یا رو کر ، لیکن زندگی بھر!! یہ فیصلہ کچھ لوگوں کی زندگی میں آناََ فاناََ نازل ہوتا ہے ۔ اِدھرمنگنی اُدھر بیاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر بات آئی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کے لیے یہی فیصلہ اتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بیچارے سوچتے ہی رہتے ہیں ۔ ان کے سامنے بہت سے راستے ہوتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ کونسا راستہ بہتر رہے گا ۔ یہ سوچ ان کو کسی فیصلے پر پہنچنے ہی نہیں دیتی اور نتیجہ یہ کہ سفر کا وقت ہی نکل جاتا ہے اور پھر یہ لوگ اپنی تنہائیوں میں اپنے ماضی کے ممکنات کو دہراتے ہیں اور یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ ممکنات ناممکن کیسے ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو جینے کا حق ملا ہوا ہے کہ وہ اپنی پسند کی زندگی اختیار کرے ۔ انسان پر چناؤ کا لمحہ ہی تو فیصلے کا لمحہ بن کر آتا ہے اور پھر یہ لمحہ زندگی بدل کے رخصت ہوتا ہے ۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، جن کو صرف ایک راستے کا سفر ملا ہے ۔ ان کو کسی موڑ پر کسی دوراہے پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔
تکلیف اُن لوگوں کے لیے ، جو شعور رکھتے ہیں اور پھر چُنتے ہیں اور پھر کبھی کبھی پچھتاتے ہیں ۔ زندگی کے اکثر مسافر صرف آدھا راستہ ہی طے کرتے ہیں ۔ وہ ایک فیصلہ کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اس فیصلے کی غلطی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور پھر ان کی سوچ ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے ۔ مشورہ دینے والا ذہن ہی ساتھ نہیں دیتا ۔ جذبات بھرا دل جذبات سے محروم ہو چکا ہوتا ہے ۔ پھر یہی لوگ سوچتے ہیں کہ یہ سفر غلط سمت میں جا رہا ہے ۔ اب واپس جانا ممکن نہیں ہوتا ۔ آگے جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ پرانا فیصلہ ہی غلط نکلا ۔ تب یہ لوگ ایک مقام پر کھڑے ہو کر کبھی ماضی کو دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں ، کبھی ممکن مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں ، کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں حسرت بھری نگاہ سے ، کبھی زمین کو دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی نیا راستہ نکلے ۔ پھر وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ، کبھی غصے سے کبھی رحم کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اُن کے نصیب میں صرف آدھا راستہ ہی تو ہوتا ہے ۔ ایسے مسافروں کو صرف ایمان کا نُور ہی راستہ دکھا سکتا ہے ، ورنہ نہیں!!
فیصلے کا لمحہ بڑا مبارک ہوتا ہے ۔ زندگی میں بار بار لمحات نہیں آتے ۔ صحیح وقت پر مناسب فیصلہ ہی کامیاب زندگی کی ضمانت ہے ۔
اگر غلطی سے کوئی غلط فیصلہ بھی ہو جائے ، تو اس کی ذمہ داری سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔ اپنے فیصلے اپنی اولاد کی طرح ہیں اُن کی حفاظت تو ہو گی ۔ دنیا کی تاریخ کو بغور دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ تاریخی فیصلے اکثر غلط فیصلے تھے ، لیکن تاریخ تھے ۔
تقدیر اپنا بیشتر کام انسانوں کے اپنے فیصلے میں ہی مکمل کر لیتی ہے ۔ انسان راہ چلتے چلتے دوزخ تک جا پہنچتا ہے یا وہ فیصلے کرتے کرتے بہشت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ بہشت یا دوزخ انسان کا مقدر ہے ، لیکن یہ مقدر انسان کے اپنے فیصلے کے اندر ہے ۔
ہم فیصلہ کرتے وقت صرف ایک آدھ چیز پر غور کرتے ہیں حالانکہ اس فیصلے سے متعلق کتنے اور واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، جن کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا ۔
شادی ، خانہ آبادی ہمارا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ہم اور کچھ نہیں جانتے ، زیادہ سے زیادہ ہم ایک دوسرے کے حالات جان سکتے ہیں ، اب ماضی کے علم سے مستقبل کا سفر شروع کرتے ہیں ۔ یہیں ہمارا فیصلہ غلطی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
اپنے کام اللہ کے سپرد کر دینے والے مطمئن رہتے ہیں ۔ جو ہو سو ہو ، سب ٹھیک ۔ ان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ جو ہوا اچھا تھا ، جو ہو رہا ہے اچھا ہے اور جو ہو گا اچھا ہو گا ۔ ایسے لوگوں کو فیصلہ کیا تکلیف دے سکتا ہے ۔
فیصلے کا ایک اہم موڑ ہماری قومی اور سیاسی زندگی میں آ چکا ہے ۔ عجیب صورت حال ہے ۔ جمہوریت اور مارشل لا کا کھیل ہے ۔ مارشل لا جمہوریت پر رخصت ہوتا ہے اور جمہوریت مارشل لا پر ختم ہوتی ہے ۔
نفاذِ اسلام کا فیصلہ تھا ، اس کا کیا ہُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفاذِ اسلام ہو چکا گا! مارشل لا اپنی طویل شبِ غم گزار کے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمہوریت کا سورج طلوع ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس فیصلے کا اعلان ہو چکا ۔
ہم فیصلوں والی قوم بنتے جا رہے ہیں ۔ بہت بڑے فیصلے ، بہت جلد فیصلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ فیصلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلے ہی فیصلے ، اور جب عمل کا وقت آئے تو نئے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں ۔ ہم بڑی دیر سے فیصلوں کا کھیل کھیلتے آ رہے ہیں ۔ ہم شاید جانتے نہیں کہ ہمارے فیصلوں کے اوپر ایک فیصلہ نافذ ہو جایا کرتا ہے ۔ یہ وقت کا فیصلہ ہوتا ہے اور وقت کے سامنے ہمارے سارے فیصلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔
صاحبانِ بصیرت غور کریں کہ ہم کیا فیصلے کرتے رہتے ہیں ۔ ہم سب غیر معین مدّت تک فیصلوں کے مقام پر نہیں رہ سکتے اور پھر ہمارے پاس فیصلے کا نہ وقت ہوتا ہے نہ حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے ۔ ہمارے فیصلوں پر فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کے پاس آخری اختیار ہے ۔ آخری فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ۔۔۔۔۔۔
ہمیں اپنے فیصلے اللہ کے حضور پیش کرتے رہنا چاہیے تا کہ ہم بہک نہ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کے فیصلے کرنے والے بھُول جاتے ہیں کہ ان کی اپنی زندگی کسی اور کے فیصلے کے تابع ہے ۔ زندگیوں کے فیصلے کرتے کرتے انسان کی اپنی رخصت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سب فیصلے اکارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سب حاصل لا حاصل!!

(دل دریا سمندر)

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

Loading