Daily Roshni News

سورۃ الزلزال — قسط اوّل**     *(آیات 1 تا 2)*

سورۃ الزلزال — قسط اوّل**     *(آیات 1 تا 2)*

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )**تمہید: وہ لمحہ جسے انسان بھول چکا ہے**سورۃ الزلزال قرآن کی اُن سورتوں میں سے ہے جو الفاظ میں مختصر، مگر اثر میں زلزلہ خیز ہے۔ یہ سورۃ انسان کو اُس دن کی طرف لے جاتی ہے جس دن **زمین خود بولے گی**، اور انسان کا ہر بھولا ہوا عمل اس کے سامنے کھڑا ہو جائے گا۔ یہ سورۃ کسی فلسفیانہ بحث سے آغاز نہیں کرتی، کسی تمہید یا مثال سے بات نہیں بناتی، بلکہ اچانک انسان کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے نیند میں سوئے ہوئے شخص کو اچانک شدید جھٹکا لگے۔

**سورۃ الزلزال کا پس منظر**

اکثر مفسرین کے مطابق یہ سورۃ مدنی ہے، یعنی اُس وقت نازل ہوئی جب مسلمان ایک منظم معاشرہ بن چکے تھے۔ اب مسئلہ یہ نہیں تھا کہ لوگ اللہ کو مانتے ہیں یا نہیں، بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ: * کیا وہ جواب دہی کو واقعی مانتے ہیں؟ * کیا ان کا عمل ان کے عقیدے کی گواہی دے رہا ہے؟ * کیا وہ آخرت کو نظریہ نہیں بلکہ حقیقت سمجھتے ہیں؟ سورۃ الزلزال اسی مرحلے پر انسان کو جھنجھوڑتی ہے۔

**قسط اوّل کی مرکزی فکر**

قسط اوّل صرف دو آیات پر مشتمل ہے، مگر یہی دو آیات پوری سورۃ کی بنیاد ہیں۔ یہ قسط ہمیں سکھاتی ہے کہ: * قیامت صرف آسمان کا معاملہ نہیں * زمین خاموش نہیں رہے گی * اور انسان جسے بے جان سمجھتا ہے، وہ گواہ بن جائے گی

**آیت 1** **إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا**

یہ آیت کسی کہانی کا آغاز نہیں، یہ ایک اعلان ہے۔

**“اِذَا” — جب، اگر نہیں** قرآن نے یہاں “اِذَا” استعمال کیا ہے، “اِن” نہیں۔ یعنی: * یہ کوئی امکان نہیں * یہ کوئی مفروضہ نہیں * یہ لازمی ہونے والا واقعہ ہے یہ “اگر قیامت آئی” نہیں، بلکہ **“جب قیامت آئے گی”** ہے۔

**“زُلْزِلَت” — ہلائی جائے گی** یہاں فعل مجہول ہے، یعنی: * کون ہلائے گا؟   جواب واضح ہے: **اللہ** مگر اللہ کا نام نہ لینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ: یہ ایسا زلزلہ ہو گا جس کے سامنے کسی طاقت کا تصور بھی ختم ہو جائے گا۔

**“الْأَرْضُ” — صرف زمین نہیں، ہماری زمین** یہ کوئی اجنبی سیارہ نہیں، یہ وہی زمین ہے: * جس پر ہم چلتے ہیں * جس پر ہم گھر بناتے ہیں * جسے ہم مضبوط سمجھتے ہیں یہی زمین ہلائی جائے گی۔

**“زِلْزَالَهَا” — اس کا اپنا زلزلہ** یہ عام زلزلہ نہیں، یہ زمین کا **مخصوص، آخری، فیصلہ کن زلزلہ** ہے۔ دنیا کے زلزلے: * کسی فالٹ لائن کی وجہ سے ہوتے ہیں

* کسی قدرتی نظام کے تحت آتے ہیں مگر یہ زلزلہ: * نظام کے خاتمے کا اعلان ہے

* زمین کی ذمہ داری ختم ہونے کا لمحہ ہے

**آج کے انسان کا دھوکہ**

آج انسان کہتا ہے: * ہم نے عمارتیں مضبوط بنا لی ہیں * ہم نے ٹیکنالوجی پر قابو پا لیا ہے * ہم زلزلوں کو ناپ لیتے ہیں سورۃ الزلزال کہتی ہے: جس دن اللہ زمین کو ہلائے گا، اس دن نہ حساب بچے گا، نہ اندازہ۔

**روحانی نکتہ**

انسان اپنی زندگی کو “سیٹ” سمجھ لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: * نوکری محفوظ ہے * گھر مضبوط ہے * مستقبل پلان ہو چکا ہے یہ آیت بتاتی ہے: سب سے غیر محفوظ چیز وہ زمین ہے جسے تم سب سے محفوظ سمجھتے ہو۔

**آیت 2** **وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا**

یہ آیت پہلے زلزلے کی **وجہ** نہیں، بلکہ **مقصد** بیان کرتی ہے۔

**“اَخْرَجَت” — نکال دے گی** یہاں زمین کو فاعل بنایا گیا ہے۔ یعنی: * زمین صرف ہلے گی نہیں * زمین **عمل کرے گی** یہ بہت بڑا نکتہ ہے۔

**زمین: ایک خاموش گواہ** دنیا میں زمین: * ہمارے گناہ دیکھتی ہے * ہماری نمازیں دیکھتی ہے * ہمارے ظلم دیکھتی ہے * ہماری نیکیوں پر بھی خاموش رہتی ہے مگر قیامت کے دن: زمین خاموش نہیں رہے گی۔

**“اَثْقَالَهَا” — اس کے بوجھ** یہ بوجھ کیا ہیں؟ مفسرین نے کئی معانی بیان کیے ہیں:

  1. **مردے** جو صدیوں سے دفن ہیں زمین سب کو باہر نکال دے گی

  2. **اعمال کے اثرات** وہ جگہیں جہاں: * ظلم ہوا    * خون بہا    * حق دبایا گیا

زمین سب ظاہر کر دے گی

  1. **راز** وہ سب کچھ جو انسان نے چھپایا زمین نے محفوظ رکھا

**زمین کیوں گواہی دے گی؟**

کیونکہ انسان نے زمین کو: * گناہ کا گواہ بنایا * مگر اللہ کو بھلا دیا اب اللہ زمین کو بولنے کی اجازت دے گا۔

**ایک چونکا دینے والی حقیقت**

حدیث کے مطابق: زمین ہر اُس عمل کی گواہی دے گی جو اس پر کیا گیا۔ یعنی: * جس جگہ نماز پڑھی * جس جگہ ظلم کیا * جس جگہ دھوکہ دیا سب کچھ محفوظ ہے۔

**آج کے انسان کے لیے عملی جھٹکا**

ہم سمجھتے ہیں: * کوئی نہیں دیکھ رہا * کوئی ثبوت نہیں * سب راز ہیں سورۃ الزلزال کہتی ہے: زمین تمہاری سی سی ٹی وی ہے۔

**باطنی پہلو**

زمین باہر کے اعمال نکالے گی، اور انسان کے اندر: * ندامت * خوف * حسرت سب باہر آ جائے گا۔

**قسط اوّل کا گہرا پیغام**

  1. قیامت اچانک ہو گی

  2. زمین سب سے پہلے بولے گی

  3. کوئی راز چھپا نہیں رہے گا

  4. انسان کا سب سے بڑا دھوکہ اس کی غفلت ہے

**آج کے لیے خود احتسابی**

اپنے آپ سے پوچھیں: * اگر میری زمین بولنے لگے تو کیا کہے گی؟ * میرے قدم کہاں کہاں گواہی دیں گے؟ * میں نے زمین کو عبادت کا مقام بنایا یا گناہ کا؟

**اختتامی سوچ**

سورۃ الزلزال کا آغاز ہی انسان کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔ یہ سورۃ ہمیں بتاتی ہے کہ: جس زمین پر تم ناز کرتے ہو، وہی تمہارے خلاف یا حق میں گواہ بنے گی۔ یہی قسط اوّل کا مقصد ہے: **انسان کو سلا ہوا نہیں، جاگتا ہوا بنانا۔**

**سورۃ الزلزال — قسط دوم** *(آیات 3 تا 5)*

**تمہیدی نکتہ: جب انسان سوال بن جائے**

سورۃ الزلزال کی قسط اوّل میں زمین کا ہلنا اور اس کے بوجھ نکالنا بیان ہوا۔ اب قسط دوم میں منظر **انسان کے اندر منتقل ہو جاتا ہے**۔ اب زمین نہیں بول رہی، اب **انسان بول رہا ہے**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان پہلی بار سچ مچ بے بس ہو جاتا ہے۔ نہ عقل ساتھ دیتی ہے، نہ تجربہ، نہ طاقت، نہ علم۔ صرف حیرت ہے، خوف ہے، اور ایک سوال ہے۔

**قسط دوم کی مرکزی فکر**

یہ قسط ہمیں بتاتی ہے کہ: * قیامت کا پہلا اثر جسم پر نہیں، شعور پر پڑتا ہے * انسان سوال کرتا ہے، مگر جواب زمین دیتی ہے * اللہ کا حکم زمین کو زبان دے دیتا ہے یہ قسط **انسان کی خاموش چیخ** ہے۔

**آیت 3** **وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا**

یہ آیت بہت مختصر ہے، مگر اس میں پوری انسانیت کی آواز قید ہے۔

**“الانسان” — کوئی خاص انسان نہیں** قرآن نے یہاں: * بادشاہ نہیں کہا * کافر نہیں کہا * مومن نہیں کہا صرف کہا: **الانسان** یعنی: * ہر انسان * ہر نسل * ہر دور کوئی بھی اس حیرت سے بچ نہیں سکے گا۔

**یہ سوال کیسا ہے؟ “ما لها”**

یہ سوال سادہ نہیں، یہ چیخ ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو: * عقل کے ٹوٹنے پر نکلتا ہے

* یقین کے ختم ہونے پر نکلتا ہے * کنٹرول کے ہاتھ سے نکل جانے پر نکلتا ہے آج انسان سوال کرتا ہے: * کیوں ہو رہا ہے؟ * کس نے کیا؟ * کیا حل ہے؟ اس دن انسان صرف پوچھے گا: “اس زمین کو کیا ہو گیا ہے؟”

**یہ سوال کیوں پیدا ہو گا؟**

کیونکہ انسان: * زمین کو مردہ سمجھتا تھا * زمین کو بے جان سمجھتا تھا * زمین کو صرف استعمال کی چیز سمجھتا تھا اب وہی زمین: * ہل رہی ہے * بول رہی ہے * راز اگل رہی ہے یہ تضاد انسان کو توڑ دیتا ہے۔

**آج کے انسان کا عکس**

آج بھی جب: * زلزلہ آتا ہے * سیلاب آتا ہے * وبا آتی ہے تو انسان کہتا ہے: “یہ کیوں ہو رہا ہے؟” مگر فرق یہ ہے: * آج سوال کے بعد زندگی چلتی رہتی ہے * قیامت کے دن سوال کے بعد **کچھ نہیں چلے گا**

**باطنی پہلو**

یہ سوال دراصل زمین سے نہیں، **اپنے آپ سے ہو گا**۔ یعنی: * میری زندگی کہاں کھڑی ہے؟ * میں نے کیا کمایا؟ * میں کس انجام کی طرف جا رہا ہوں؟

**آیت 4** **يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا**

یہ سورۃ کا سب سے چونکا دینے والا جملہ ہے۔

**“یومئذ” — وہ دن** یہ کوئی عام دن نہیں: * یہ فیصلہ کا دن ہے * یہ حساب کا دن ہے * یہ پردے اٹھنے کا دن ہے اس دن: * انسان خاموش ہو جائے گا * اور زمین بولے گی

**“تُحَدِّثُ” — بات کرے گی** یہاں لفظ “تشہد” یا “تشہد علیہم” نہیں، بلکہ **تُحَدِّثُ** ہے۔ یعنی: * زمین صرف گواہی نہیں دے گی * زمین **تفصیل سے بیان کرے گی** یہ بہت بڑا نکتہ ہے۔

**زمین کیا بتائے گی؟ “اخبارہا”**

اخبار: * خبریں * رپورٹس * مکمل ریکارڈ زمین بتائے گی: * کہاں سچ بولا گیا * کہاں جھوٹ بولا گیا * کہاں نماز پڑھی گئی * کہاں ظلم ہوا * کہاں حق دبایا گیا کوئی خلاصہ نہیں، کوئی ایڈیٹنگ نہیں۔

**زمین کی گواہی کیوں؟**

کیونکہ: * انسان جھوٹ بول سکتا ہے * گواہ بک سکتے ہیں * تاریخ بدلی جا سکتی ہے مگر زمین: * نہ جھوٹ بولتی ہے * نہ بھولتی ہے * نہ بدلتی ہے

**حدیث کی روشنی میں**

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: زمین ہر بندے کے عمل کی گواہی دے گی، حتیٰ کہ وہ جگہ بھی جہاں اس نے قدم رکھا۔ یعنی: * بازار بھی بولے گا * مسجد بھی * کمرہ بھی * راستہ بھی

**آج کے لیے چونکا دینے والا سبق**

ہم کہتے ہیں: * “کوئی ثبوت نہیں” * “کسی نے نہیں دیکھا” سورۃ الزلزال کہتی ہے: تم نے جس جگہ کیا، وہی بولے گی۔

**آیت 5** **بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا**

یہ آیت زمین کے بولنے کی وجہ بتاتی ہے۔

**زمین خود مختار نہیں**

زمین: * اپنی مرضی سے نہیں بولے گی * جذبات سے نہیں بولے گی * انتقام سے نہیں بولے گی زمین بولے گی: کیونکہ اللہ نے اسے حکم دیا ہو گا۔

**“اوحیٰ” — خاموش حکم**

وحی صرف انبیاء پر نہیں آتی، اللہ جب چاہے: * شہد کی مکھی کو بھی وحی کرتا ہے

* سمندر کو بھی حکم دیتا ہے * آگ کو بھی یہاں زمین کو وحی ہو گی: “اب بول”

**یہ اللہ کی عدالت ہے**

یہ کوئی قدرتی حادثہ نہیں، یہ عدالتی عمل ہے۔ * زمین گواہ * انسان ملزم * اللہ منصف یہی مکمل انصاف ہے۔

**انسان کی بے بسی**

اس وقت انسان: * انکار نہیں کر سکے گا * دلیل نہیں دے سکے گا * تاویل نہیں کر سکے گا کیونکہ: * گواہ خاموش نہیں * منصف عادل ہے

**باطنی حقیقت**

یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ: * اللہ کا نظام صرف اوپر نہیں * نیچے بھی ہے جو کچھ ہم زمین پر کرتے ہیں، وہ زمین کے اندر محفوظ ہو جاتا ہے۔

**قسط دوم کا گہرا خلاصہ**

  1. قیامت انسان کو سوال بنا دے گی

  2. زمین مکمل رپورٹ پیش کرے گی

  3. کوئی جگہ خاموش نہیں رہے گی

  4. اللہ کا حکم ہر شے کو زبان دے دے گا

**آج کے لیے عملی جھٹکا**

اپنی روزمرہ زندگی پر نظر ڈالیں: * میں کہاں کیا کر رہا ہوں؟ * کون سی جگہ میرے حق میں بولے گی؟ * کون سی میرے خلاف؟

**خاموش نصیحت**

اگر آج ہم کسی جگہ: * گناہ کرنے سے رک جائیں * صرف اس لیے کہ “یہ جگہ گواہ بنے گی” تو یہی سورۃ الزلزال کا عملی اثر ہے۔

**اختتامی فکر**

قسط دوم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: قیامت صرف آنے والا دن نہیں یہ آج کے ہر لمحے پر سایہ ڈالنے والی حقیقت ہے۔ زمین ہماری ساتھی بھی ہے اور ہماری گواہ بھی۔ اب فیصلہ ہمارا ہے: ہم اسے کس طرح بولنے کے قابل بناتے ہیں۔

**سورۃ الزلزال — قسط سوم **    *(آیات 6 تا 8)*

**تمہیدی زاویہ: اب کوئی پردہ باقی نہیں**

سورۃ الزلزال کی پہلی دو قسطوں میں منظر تیار ہو چکا ہے۔ زمین ہل چکی، زمین بول چکی، انسان سوال بن چکا۔ اب قسط سوم میں **فیصلہ نافذ ہوتا ہے**۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں نہ نیت چھپتی ہے، نہ عمل دبایا جا سکتا ہے، نہ تاویل کام آتی ہے۔ یہ قسط انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ: * قیامت صرف خوف کا دن نہیں * یہ مکمل **انصاف کا دن** ہے * اور اس انصاف میں **ذرّہ برابر** چیز بھی نظرانداز نہیں ہو گی

**قسط سوم کی مرکزی فکر**

یہ قسط تین بنیادی حقائق واضح کرتی ہے:

  1. انسان گروہوں میں نہیں، **انفرادی طور پر** پیش ہو گا

  2. اعمال تولے نہیں جائیں گے، **دکھائے جائیں گے**

  3. نیکی اور بدی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں سمجھی جائے گی

یہ قسط انسان کی خود فریبی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے۔

**آیت 6** **يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ**

یہ آیت قیامت کے منظر کی تصویر نہیں، بلکہ **انسانی حیثیت کی حقیقت** بیان کرتی ہے۔

**“یومئذ” — وہی فیصلہ کن دن** یہ وہی دن ہے: * جس کا ذکر پہلی آیات میں آیا

* جس کے لیے زمین نے گواہی دی * جس کے لیے انسان حیران کھڑا تھا اب اسی دن: انسانوں کو آگے بڑھایا جائے گا

**“یَصْدُرُ” — لوٹنا نہیں، پیش ہونا** عام طور پر “صدر” واپسی کے لیے آتا ہے، مگر یہاں معنی ہے: * نکلنا * ظاہر ہونا * اپنے انجام کی طرف بڑھنا یعنی انسان: * کسی کے پیچھے نہیں چھپے گا * کسی کے سائے میں نہیں رہے گا ہر انسان **اپنی حقیقت کے ساتھ** سامنے آئے گا۔

**“النّاس” — سب انسان** یہاں: * مومن الگ نہیں * کافر الگ نہیں * عالم الگ نہیں

* جاہل الگ نہیں سب انسان شامل ہیں۔ فرق یہ ہو گا: * چہرے بدل جائیں گے * قامت بدل جائیں گے * نظریں بدل جائیں گی

**“أشتاتًا” — بکھرے ہوئے، الگ الگ** یہ لفظ بہت فیصلہ کن ہے۔ دنیا میں: * لوگ خاندانوں میں جیتے ہیں * گروہوں میں طاقت محسوس کرتے ہیں * تعداد میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں قیامت کے دن: ہر انسان الگ ہو گا

نہ:

* باپ کام آئے گا * نہ اولاد * نہ استاد * نہ مرید * نہ جماعت

**یہ آیت دنیا کے تمام سہارے توڑ دیتی ہے**

یہ آیت کہتی ہے: تم جس پر بھروسہ کر رہے ہو، وہ سب یہیں رہ جائے گا

**“لِیُرَوْا أَعْمَالَهُمْ” — اعمال دکھائے جائیں گے** یہاں “حساب لیا جائے گا” نہیں کہا گیا بلکہ کہا گیا: “دکھائے جائیں گے” یہ بہت گہرا فرق ہے۔

**اعمال دکھانے کا مطلب**

* عمل کی شکل سامنے ہو گی * نیت واضح ہو گی * اثرات نمایاں ہوں گے یعنی: * نماز صرف حرکت نہیں ہو گی * ظلم صرف واقعہ نہیں ہو گا * خیرات صرف رقم نہیں ہو گی ہر عمل **زندہ حقیقت** بن کر سامنے آئے گا۔

**انسان کا سب سے بڑا صدمہ**

اس دن انسان کہے گا: * “یہ میں نے کب کیا تھا؟” * “یہ اتنا بڑا کیسے بن گیا؟” * “یہ اتنا چھوٹا کیوں نہیں رہا؟” کیونکہ دنیا میں انسان: * نیکی کو معمولی سمجھتا ہے * گناہ کو ہلکا لیتا ہے قیامت میں: ہر چیز اپنے اصل وزن کے ساتھ نظر آئے گی

**آیت 7** **فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ**

یہ آیت اللہ کی عدالت کا سب سے مضبوط اصول بیان کرتی ہے۔

**“فمن” — کوئی بھی استثنا نہیں** یہاں: * نبی کا ذکر نہیں * ولی کا ذکر نہیں * عالم کا ذکر نہیں بس کہا: جو کوئی بھی یہ عدل کی انتہا ہے۔

**“مثقال ذرّة” — ذرّے کے برابر** ذرّہ: * نہ آنکھ سے نظر آتا ہے * نہ ہاتھ میں  محسوس ہوتا ہے * نہ انسان اسے اہم سمجھتا ہے قرآن کہتا ہے: اتنی چھوٹی نیکی بھی ضائع نہیں ہو گی

**نیکی کی وسعت**

یہ نیکی ہو سکتی ہے: * کسی کے دل سے بوجھ اتارنا * کسی کو خاموشی سے فائدہ دینا

* کسی کی عزت بچانا * کسی کو معاف کر دینا * کسی برے موقع پر رک جانا وہ نیکی جسے: * کسی نے نہیں دیکھا * کسی نے سراہا نہیں وہاں **ضرور دکھائی جائے گی**۔

**یہ آیت امید کا سمندر ہے**

یہ آیت: * تھکے ہوئے کو حوصلہ دیتی ہے * گرے ہوئے کو سہارا دیتی ہے * مایوس کو امید دیتی ہے یہ کہتی ہے: کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی

**دنیا میں نیکی کا مسئلہ**

دنیا میں: * نیکی کا صلہ فوراً نہیں ملتا * بعض اوقات نیکی نقصان لگتی ہے * بعض اوقات نیکی کا مذاق اڑتا ہے یہ آیت اعلان کرتی ہے: > اصل حساب ابھی باقی ہے

**آیت 8** **وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ**

یہ آیت پچھلی آیت کا توازن ہے۔ یہ عدل کو مکمل کرتی ہے۔

**یہ آیت ڈرانے کے لیے نہیں، جگانے کے لیے ہے** یہاں بھی: * بڑے گناہ کا ذکر نہیں * خوفناک لفظ نہیں بس کہا: ذرّے کے برابر برائی بھی دکھائی جائے گی

**چھوٹی برائیاں — سب سے بڑا دھوکہ**

انسان کہتا ہے: * “یہ تو چھوٹی بات ہے” * “اس سے کیا فرق پڑے گا” * “سب ہی کرتے ہیں” قرآن کہتا ہے: کچھ بھی چھوٹا نہیں

**یہ شر کیا ہو سکتا ہے؟**

* کسی کی دل آزاری * کسی کی حق تلفی * کسی پر خاموش ظلم * کسی کا مذاق * کسی کی بددعا کا سبب وہ سب چیزیں: جنہیں ہم معمولی سمجھ کر بھول جاتے ہیں وہاں **یاد دلائی جائیں گی**۔

**یہ آیت نفس کی جڑ کاٹ دیتی ہے**

یہ آیت: * “میں ٹھیک ہوں” * “میں برا نہیں” * “میں نے کچھ خاص غلط نہیں کیا” ان سب بہانوں کو ختم کر دیتی ہے۔

**سورۃ الزلزال کا مکمل پیغام**

  1. زمین گواہ بنے گی

  2. انسان تنہا پیش ہو گا

  3. اعمال دکھائے جائیں گے

  4. نیکی کا کوئی ذرّہ ضائع نہیں

  5. بدی کا کوئی ذرّہ چھپ نہیں سکے گا

**آج کے انسان کے لیے حتمی اطلاق**

**1. چھوٹے اعمال کو اہم سمجھیں** * چھوٹی نیکی کو ترک نہ کریں * چھوٹی برائی کو معمولی نہ سمجھیں

**2. تنہائی میں خود کو جانچیں** * جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو * تب کیا میں وہی ہوں جو ظاہر میں ہوں؟

**3. زمین کو دوست بنائیں** * جہاں نیکی ہو، وہاں قدم رکھیں * جہاں گناہ ہو، وہاں رک جائیں

**4. روزانہ خود احتسابی** سونے سے پہلے ایک سوال: آج میرے اعمال میں کیا دکھانے کے قابل ہے؟

**آخری فکری نکتہ**

سورۃ الزلزال انسان کو یہ نہیں کہتی: “تم کامل بن جاؤ” یہ کہتی ہے: سچے بن جاؤ کیونکہ: * کامل ہونا ممکن نہیں * مگر جواب دہ ہونا لازم ہے

**اختتامی کلمات**

سورۃ الزلزال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ: انسان کا قد دنیا میں نہیں، قیامت میں ناپا جائے گا۔ اور وہ ناپ: * دولت سے نہیں * شہرت سے نہیں * دعوؤں سے نہیں بلکہ: **ذرّہ ذرّہ عمل سے ہو گی۔**

Loading