۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشترکہ خاندان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب ۔۔۔۔۔ محمد جاوید عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ مشترکہ خاندان ۔۔۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔۔ محمد جاوید عظیمی)مشترکہ خاندان ہمارے معاشرے میں برکت، تحفظ اور سہارا سمجھا جاتا ہے مگر مسئلہ خاندان کے اکٹھا رہنے میں نہیں، مسئلہ حدوں کے نہ ہونے میں ہے۔ جب ایک ہی چھت کے نیچے کئی رشتے بغیر واضح حدود کے جینے لگتے ہیں تو محبت آہستہ آہستہ بوجھ بن جاتی ہے اور سہارا دباؤ میں بدل جاتا ہے۔ ہم اکثر یہ مان لیتے ہیں کہ چونکہ سب اپنے ہیں اس لیے سب کچھ جاننے، پوچھنے اور مداخلت کرنے کا حق بھی سب کو حاصل ہے، اور یہی سوچ مشترکہ خاندان کو خاموش اذیت میں بدل دیتی ہے۔ گھر کے حالات اس وقت بگڑتے ہیں جب میاں بیوی کی نجی زندگی اجتماعی فیصلوں کی نذر ہو جاتی ہے، جب بچوں کی تربیت پر والدین کی رائے سے پہلے خاندان کی رائے آ جاتی ہے، اور جب ہر خوشی یا اختلاف پر تماش بینوں کی ایک قطار بن جاتی ہے۔ حدیں نہ ہونے کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ شوہر دباؤ میں آکر توازن کھو دیتا ہے اور بیوی خود کو غیر محفوظ اور بے اختیار محسوس کرنے لگتی ہے، نتیجہ یہ کہ بات بات پر تلخی جنم لیتی ہے مگر الزام ہمیشہ کسی ایک پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا نقصان بچوں پر پڑتا ہے، کیونکہ وہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں؛ ایک بات ماں کہتی ہے، دوسری دادی، تیسری خالہ یا پھوپھی، اور بچہ یہ سیکھنے کے بجائے کہ صحیح کیا ہے یہ سیکھ لیتا ہے کہ کس کی بات مان کر بچا جا سکتا ہے۔ اس طرح کردار نہیں بنتا، چالاکی پنپتی ہے۔ تیسرا نقصان ذہنی صحت کا ہے جس پر ہمارے گھروں میں بات ہی نہیں کی جاتی۔ مسلسل نگرانی، موازنہ اور غیر ضروری رائے انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہے مگر چونکہ سب کچھ خاندان کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے اس لیے تکلیف کو شکر کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔ عورت خاص طور پر اس کا شکار ہوتی ہے، کیونکہ اس کی خاموشی کو اس کا فرض سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے احتجاج کو بدتمیزی۔ حدوں کے نہ ہونے سے محبت کا معیار بھی بدل جاتا ہے؛ جو زیادہ مداخلت کرے وہ زیادہ خیر خواہ سمجھا جاتا ہے اور جو فاصلے کے ساتھ عزت نبھانا چاہے وہ مغرور کہلاتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف رشتوں کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ نسلوں میں تلخی منتقل کرتی ہے۔ اصل حل مشترکہ خاندان توڑنا نہیں بلکہ حدود متعین کرنا ہے، یہ مان لینا کہ ہر رشتہ اپنی جگہ محترم ہے مگر ہر معاملہ سب کا معاملہ نہیں۔ نجی فیصلوں میں رازداری، والدین کے اختیار کو تسلیم کرنا، اور مشورے اور حکم میں فرق سمجھنا ہی وہ اصول ہیں جو مشترکہ خاندان کو واقعی مضبوط بنا سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جہاں حدیں ہوتی ہیں وہاں عزت رہتی ہے، اور جہاں عزت رہتی ہے وہاں رشتے سانس لیتے ہیں۔ مشترکہ خاندان کا حسن قربت میں نہیں بلکہ توازن میں ہے، اور یہ توازن تبھی ممکن ہے جب ہم محبت کے ساتھ یہ سیکھ لیں کہ ہر دروازہ کھلا ہونا ضروری نہیں، کچھ دروازے بند رہ کر ہی گھر کو محفوظ رکھتے ہیں۔
![]()

