کیا ہم “ماضی” میں زندہ ہیں؟ زمان و مکان، ٹیلی پورٹیشن اور حقیقت کا سراب!
تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ کیا ہم “ماضی” میں زندہ ہیں؟ زمان و مکان، ٹیلی پورٹیشن اور حقیقت کا سراب! ۔۔۔ تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد)میرے دوستو! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس دنیا کو آپ “حال” (پریزنٹ) کہتے ہیں، کیا وہ واقعی “حال” ہے؟
جب آپ رات کو آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ہیں، یا صبح سورج کی پہلی کرن کو محسوس کرتے ہیں، تو آپ دراصل “اب” (ناؤ) کو نہیں دیکھ رہے ہوتے، آپ “ماضی” (پاسٹ) کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
سائنس ہمیں ایک خوفناک حقیقت بتاتی ہے:
“انسان کبھی بھی ‘حال’ کو نہیں دیکھ سکتا۔”
ہم سب ایک “ٹائم لیگ” (ٹائم لیگ) میں جی رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں۔
آج ہم وقت (ٹائم)، روشنی کی رفتار (سپیڈ آف لائٹ) اور قرآن میں بیان کردہ “آنکھ جھپکنے میں تخت لانے” (ٹیلی پورٹیشن) کے واقعے کا ایسا پوسٹ مارٹم کریں گے کہ آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی۔
کیا سائنس اور قرآن ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں۔
سب سے پہلے فزکس (فزکس) کے ایک بنیادی اصول کو سمجھ لیں۔ ہم کسی چیز کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جب روشنی (لائٹ) کسی چیز سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، تب ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے۔
لیکن روشنی کی بھی ایک رفتار ہے۔ یہ تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ (300,000 km/s) ہے۔
یہ رفتار بہت زیادہ ہے، لیکن “لامحدود” (انفینیٹ) نہیں ہے۔
1- سورج کا ماضی:
سورج زمین سے تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ روشنی کو وہاں سے یہاں تک پہنچنے میں 8 منٹ اور 20 سیکنڈ لگتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابھی اس وقت سورج اچانک غائب ہو جائے، تو ہمیں زمین پر 8 منٹ تک پتا ہی نہیں چلے گا!
ہم 8 منٹ تک اس سورج کو دیکھتے رہیں گے جو حقیقت میں وہاں موجود ہی نہیں ہے۔
ہم “حال” میں نہیں، سورج کے 8 منٹ پرانے “ماضی” میں زندہ ہیں۔
2- کائنات کا “لائیو سٹریم” نہیں چل رہا:
یہ معاملہ صرف سورج تک محدود نہیں ہے۔
جب آپ آسمان پر “نارتھ سٹار” (قطبی تارہ) کو دیکھتے ہیں، تو آپ اس کی وہ روشنی دیکھ رہے ہوتے ہیں جو وہاں سے 323 سال پہلے نکلی تھی۔
ہو سکتا ہے وہ ستارہ آج وہاں ہو ہی نہ، لیکن آپ کو 323 سال بعد پتا چلے گا۔
حال ہی میں “جیمز ویب ٹیلی سکوپ” نے ایک ستارہ دریافت کیا جس کا نام “ایرنڈل” (Earendel) ہے۔
اس کی روشنی ہم تک پہنچنے میں 12.9 ارب سال (12.9 بلین ایئرز) لگے۔
ذرا سوچیں!
آپ آج ٹیلی سکوپ میں جو تصویر دیکھ رہے ہیں، وہ کائنات کے بچپن کی ہے۔ وہ ستارہ شاید اربوں سال پہلے پھٹ کر ختم ہو چکا ہے، لیکن ہمارے لیے وہ “آج” چمک رہا ہے۔
سائنس کی رو سے: “دیکھنا” (سیئنگ) دراصل “ٹائم ٹریول” (ٹائم ٹریول) ہے۔ ہم جتنا دور دیکھتے ہیں، اتنا ہی ماضی میں سفر کرتے ہیں۔
اب ذرا اپنی کرسیاں مضبوط کر لیں۔ کیونکہ ہم ایک ایسے موضوع کی طرف جا رہے ہیں جسے لوگ “معجزہ” کہہ کر گزر جاتے ہیں، لیکن جدید سائنس اسے “کوانٹم فزکس” (کوانٹم فزکس) کہتی ہے۔
قرآن مجید، سورۃ النمل (آیات 38-40) میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے کہا:
“ملکہ بلقیس کا تخت کون لائے گا؟”
ایک طاقتور جن (عفریت) نے کہا:
“میں آپ کے دربار برخاست ہونے سے پہلے لے آؤں گا۔”
لیکن پھر ایک اور شخص بولا، جس کے پاس “کتاب کا علم” (علم الکتاب) تھا۔ اس نے کہا:
“میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے اسے لے آؤں گا۔”
اور وہ لے آیا!
یمن سے یروشلم (تقریباً 2500 کلومیٹر) کا فاصلہ۔ ایک بھاری بھرکم تخت۔ اور وقت؟ “پلک جھپکنے سے کم”۔
یہ کیا تھا؟
پرانے زمانے میں لوگ اسے صرف کرامت سمجھتے تھے۔ لیکن آج کی زبان میں اسے “ٹیلی پورٹیشن” (ٹیلی پورٹیشن) کہتے ہیں۔
ٹیلی پورٹیشن کا مطلب ہے: مادے (میٹر) کو انرجی (انرجی) میں بدلنا، اور پھر اسے دوسری جگہ جا کر دوبارہ مادے میں تبدیل کر دینا، یا پھر “اسپیس ٹائم” (اسپیس ٹائم) کو سکیڑ دینا۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ وہ شخص کوئی “جادوگر” تھا۔
قرآن نے کہا:
“عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ”
(اس کے پاس کتاب کا علم تھا)۔
“علم” کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ یہ کوئی ایسا “قانونِ فطرت” (لاء آف نیچر) تھا جسے وہ شخص جانتا تھا اور عام لوگ نہیں جانتے تھے۔
یہودی اور ہندو روایات:
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تصور صرف اسلام میں نہیں۔
یہودی روایات (کبالہ) میں اسے “کیفی ذات ہادیریخ” (Kefitzat Haderech) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے “راستے کا سکڑ جانا” (شارٹننگ آف دی وے)۔
ہندو یوگیوں کے ہاں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ فوراً پہنچنے کے تذکرے ملتے ہیں۔
سوال یہ ہے:
کیا یہ سب دیومالائی کہانیاں ہیں؟ یا ان کے پیچھے کوئی ٹھوس سائنسی بنیاد (سائنٹیفک بیس) موجود ہے؟
20ویں صدی تک سائنسدان اس واقعے پر ہنستے تھے۔ لیکن پھر… کوانٹم میکینکس (کوانٹم مکینکس) کی پیدائش ہوئی۔
1- کوانٹم انٹینگلمنٹ (Quantum Entanglement):
آئن سٹائن نے اسے “سپوکی ایکشن ایٹ آ ڈسٹنس” (فاصلے پر پراسرار عمل) کہا تھا۔
یہ اصول کہتا ہے کہ اگر دو ذرات (پارٹیکلز) آپس میں جڑ جائیں (انٹینگلڈ ہو جائیں)، تو آپ ایک کو یہاں رکھیں اور دوسرے کو کہکشاں کے دوسرے کونے پر۔
آپ یہاں والے ذرے کو چھیڑیں گے، تو وہاں والا ذرہ “فوری طور پر” (انسٹنٹلی) ردعمل دے گا۔
روشنی کی رفتار سے بھی تیز!
گویا ان کے درمیان “فاصلہ” (ڈسٹنس) ختم ہو چکا ہے۔
2- 1997 کا تجربہ:
سائنسدانوں نے پہلی بار لیبارٹری میں “فوٹون” (فوٹون) کی ٹیلی پورٹیشن کی۔ انہوں نے روشنی کے ایک ذرے کی “انفارمیشن” (معلومات) کو ایک جگہ سے غائب کر کے دوسری جگہ ظاہر کیا۔
اور پھر 2017 میں، چینی سائنسدانوں نے زمین سے خلائی سٹیشن (سپیس سٹیشن) تک، جو 1400 کلومیٹر دور تھا، فوٹونز کو کامیابی سے ٹیلی پورٹ کیا۔
(حوالہ: Ren, J. -G. , et al. (2017). Ground-to-satellite quantum teleportation. Nature)۔
آج سائنس اس بات پر متفق ہے کہ “انفارمیشن” کو ٹیلی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔
اور انسان کیا ہے؟
اگر آپ بائیولوجی (بائیولوجی) کی نظر سے دیکھیں، تو ہم کھربوں ایٹموں کا مجموعہ ہیں۔ اور ہر ایٹم دراصل “انرجی اور انفارمیشن” ہے۔
اگر نظریاتی طور پر (تھیوریٹیکلی) ہم انسان کے تمام ایٹموں کو سکین کریں، انہیں ڈیٹا میں بدلیں، اور دوسری جگہ بھیج کر دوبارہ پرنٹ (ری اسمبل) کر دیں… تو حضرت سلیمانؑ کا واقعہ “ناممکن” نہیں رہتا، بس ہماری موجودہ ٹیکنالوجی سے آگے کی چیز ہے۔
اس موضوع میں ایک اور گہرا فلسفیانہ نکتہ ہے:
“کیا ماضی اور مستقبل بھی ابھی موجود ہیں؟”
آئن سٹائن کی “تھیوری آف ریلیٹیویٹی” (اضافیت) سے ایک نظریہ نکلتا ہے جسے “بلاک یونیورس” (بلاک یونیورس) کہتے ہیں۔
اس نظریے کے مطابق:
وقت ایک بہتا ہوا دریا نہیں ہے۔ بلکہ وقت ایک “برف کی سل” (آئس بلاک) کی طرح ہے۔
ماضی (ڈائینوسارز)، حال (آپ اور میں)، اور مستقبل (آپ کے پڑپوتے)… یہ سب کے سب اسپیس ٹائم کے اس بلاک میں “پہلے سے موجود” ہیں۔
فرق صرف “فوکس” کا ہے۔
جیسے ایک فلم کی ریل (ریل) میں پوری فلم موجود ہوتی ہے، لیکن سکرین پر صرف ایک سین چل رہا ہوتا ہے۔
اگر کوئی اس کائنات سے باہر نکل کر دیکھے (خدا کی نظر)، تو اسے آدمؑ کی پیدائش اور قیامت کا دن ایک ساتھ نظر آئے گا۔
ایلین کا زاویہ:
اگر 65 ملین نوری سال (لائٹ ایئرز) دور کسی کہکشاں میں کوئی ایلین (مخلوق) ایک طاقتور ٹیلی سکوپ لے کر آج زمین کو دیکھے… تو اسے ہم نظر نہیں آئیں گے۔
اسے زمین پر “ڈائینوسارز” چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔
کیونکہ زمین سے ڈائینوسارز کے دور کی روشنی اب وہاں پہنچی ہے۔
یا پھر آج ہم وہ ٹیکنالوجی وہ رفتار حاصل کرلیں کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرکے زمین سے ساڑھے چودہ سو سال دور کسی سیارے پر اتر کر ٹیلیسکوپ سے زمین کو دیکھیں تو ہم حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ کو دیکھ سکیں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ کائنات میں کسی نہ کسی جگہ، ہمارا “ماضی” ابھی بھی “حال” بن کر چل رہا ہے۔
ہمارا ہر عمل، ہر گناہ، ہر نیکی… کائنات کی فضاؤں میں “محفوظ” (ریکارڈڈ) ہے۔
اور شاید یہی وہ “نامہ اعمال” ہے جو قیامت کے دن سامنے لایا جائے گا، بالکل ایک ویڈیو ریوائنڈ (ریوائنڈ) کی طرح۔
میرے دوستو!
حضرت سلیمانؑ کے دور میں جو “تخت” پلک جھپکنے میں آیا تھا، وہ کوئی جادو نہیں تھا۔
وہ “علم الکتاب” تھا… شاید وہ اسپیس ٹائم کو فولڈ (فولڈ) کرنے کا علم تھا، یا میٹر کو انرجی میں بدلنے کا۔
آج کی سائنس ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی ہے اور اس نے “فوٹون” کو ٹیلی پورٹ کرنا سیکھا ہے۔
جس دن یہ سائنس جوان ہوگی، شاید یہ قرآن کی ان آیات کی مزید گتھیاں سلجھا دے۔
لیکن ایک بات طے ہے۔
ہماری آنکھ جو دیکھتی ہے، وہ مکمل حقیقت نہیں۔
حقیقت وہ ہے جو “بصارت” (سائٹ) سے نہیں، “بصیرت” (انسائٹ) سے نظر آتی ہے۔
ہم سب ایک عظیم الشان “پروگرام” کا حصہ ہیں جہاں وقت ایک سراب ہے، اور اصل حقیقت صرف اس “خالق” کی ہے جو وقت اور مکان (اسپیس) کی قید سے آزاد ہے۔
یہ کائنات ایک “سمولیشن” (سمولیشن) کی طرح لگتی ہے، لیکن اس کا پروگرامر اندھا نہیں… وہ “السمیع” اور “البصیر” ہے۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

