Daily Roshni News

لڑکیوں کو آج بھی زندہ دفن کرنے کا رواج ہے۔۔۔ انتخاب  ۔۔۔ میاں عاصم محمود

لڑکیوں کو آج بھی زندہ دفن کرنے کا رواج ہے

انتخاب  ۔۔۔ میاں عاصم محمود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ لڑکیوں کو آج بھی زندہ دفن کرنے کا رواج ہے۔۔۔ انتخاب  ۔۔۔ میاں عاصم محمود )تاریخ انسانی کے سیاہ ترین اور المناک صفحات میں سے ایک وہ دور ہے جب معاشرے میں لڑکیوں کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہ وحشیانہ رواج اسلام کے آسمانی نور سے مٹ گئے، لیکن افسوس کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی خواہشات، جذبات اور حقوق کو دفن کرنے کا ایک نیا رواج فروغ پا رہا ہے۔ جس طرح پہلے لڑکیوں کو جسمانی طور پر زمین میں دبا دیا جاتا تھا، آج ان کے دل کی دھڑکنوں کو، ان کی چاہتوں کو، اور ان کے شرعی حقوق کو اجتماعی طور پر قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش قتل ہے جو معاشرتی قدروں کے نام پر کیا جا رہا ہے۔

اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیا جو تاریخ میں کسی اور مذہب یا نظام نے نہیں دیا۔ نکاح جیسے اہم فیصلے میں عورت کی رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا۔ حدیث پاک میں ہے: “لم ير للمتحابين مثل النكاح” یعنی دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر ہوا جب ایک صاحب نے عرض کیا کہ ان کی لڑکی کو دو افراد نے پیغام نکاح بھیجا ہے، ایک مالدار اور ایک غریب، مگر لڑکی کا دل غریب کی طرف مائل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سب سے بہتر ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت مطہرہ نے مرد کی طرح عورت کو بھی شادی کے معاملے میں اپنی پسند کا اختیار دیا ہے۔

مگر آج ہمارا معاشرہ زمانہ جاہلیت کی رسموں اور غیر اسلامی رواجوں کی نحوست میں گرا ہوا ہے۔ لڑکی کی شادی کے لیے اس کی مرضی کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ والدین اکثر مالی مفاد، خاندانی روایات، یا سماجی دباؤ کے تحت ایسے رشتے طے کرتے ہیں جہاں لڑکی کی خواہشات کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل لڑکیوں کی چاہتوں کو زندہ دفن کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح پہلے لڑکیوں کو زمین میں دبا دیا جاتا تھا، آج ان کی امیدوں اور خوابوں کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ بیچاری لڑکی ساری زندگی اپنے دل میں حسرتوں کا قبرستان لیے گزار دیتی ہے۔

اس عمل کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ اولاً، اگر لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوتی ہے تو وہ ساری زندگی ناخوش اور بے چین رہتی ہے۔ ثانیاً، اگر دو محبت کرنے والوں کو نکاح میں جمع نہ کیا جائے تو وہ حرام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں، جو معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔ ثالثاً، اگر لڑکی اپنی مرضی سے بھاگ جائے تو خاندان کو سماجی عار کا سامنا ہوتا ہے۔ رابعاً، اگر لڑکی کی شادی کسی اور سے کر دی جائے اور شوہر کو اس کی محبت کا علم ہو تو بیوی کے لیے دل میں ہمیشہ کے لیے گرہ پڑ جاتی ہے، جس سے ازدواجی تعلقات خراب رہتے ہیں۔ خامساً، یہ حکمت و عقل کا تقاضا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی شادی وہیں پر کی جائے جہاں وہ چاہتے ہیں، کیونکہ ایسے نکاح میں برکت ہوتی ہے۔

لہذا، والدین کو چاہیے کہ وہ شرعی عذر کے بغیر اپنی اولاد کی خواہشات کو نظر انداز نہ کریں۔ اگر لڑکا قابل ہے، خاندانی ہے، اور عزت کرنے والا ہے، تو صرف مال و دولت کے معیار پر اصرار نہ کریں۔ شریعت پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو نکاح کا اختیار دیا ہے، اس کے حکم سے ٹکرانا صرف پریشانیوں کو دعوت دینا ہے۔ والدین شاید اپنی ضد میں کامیاب ہو جائیں، لیکن ان کی اولاد، جو ان کے جگر کا ٹکڑا ہے، ساری زندگی پریشان رہے گی۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رواجوں کا جائزہ لیں اور اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنائیں۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج، خواہ وہ literal ہو یا metaphorical، دونوں ہی اسلام میں ممنوع ہیں۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کی آواز سننی ہوگی، ان کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا، اور ان کے شرعی حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح ہم ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Loading