Daily Roshni News

حضرت عمرو بن معدی کرب زبیدیؓ: جاہلیت کے ڈاکو سے اسلام کے عظیم مجاہد تک ۔۔کِسریٰ اور شاہِ ایران کی شکست

حضرت عمرو بن معدی کرب زبیدیؓ: جاہلیت کے ڈاکو سے اسلام کے عظیم مجاہد تک ۔۔کِسریٰ اور شاہِ ایران کی شکست

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دوستو قصہ لمبا ہونے کے لیے معزرت  لیکن میں چاہتا تھا کے عظیم شاہ سوار کے کارنامے ہمارے لوگوں کو پتا چل سکیں آپ پڑھیں انشا اللّہ آپ کا وقت ضائع نہیں جائے گا۔

حضرت عمرو بن معدی کرب زبیدیؓ کا شمار اسلامی تاریخ کے نامور بہادروں اور شہسواروں (گھوڑے پر سواری کے ماہروں) میں ہوتا ہے۔ (عمرو میں “ع” پر زبر ہے، “م” اور “و” ساکن ہیں۔ واؤ نہیں پڑھی جاتی) وہ یمن میں آباد عرب قبیلے مذحج کی ایک شاخ بنی زبید سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے زبیدی کہلاتے تھے۔ وہ بڑے ڈیل ڈول اور قد کاٹھ کے آدمی تھے۔ تلوار چلانے میں مہارت رکھتے تھے اور نیزہ بازی میں بہت کم لوگ ان کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ وہ اتنے طاقتور اور شہسوار تھے کہ لوگ ان کو ہزار بہادر شہسواروں کے برابر مانتے تھے۔

بہادر ہونے کے علاوہ وہ ایک اونچے درجے کے شاعر بھی تھے اور جوشیلی تقریریں کرنے کا فن بھی انہیں خوب آتا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اتنی خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں ڈاکا زنی کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا۔ مختلف قبیلوں پر چھاپے مارنا اور راہ جاتے قافلوں اور مسافروں کو لوٹ لینا ان کا آئے دن کا کام تھا۔ عرب میں ان کا نام دہشت کا نشان بن گیا تھا اور کمزور دل کے لوگ ان کا نام سن کر کانپ اٹھتے تھے۔ ان کی زندگی ایسے ہی گزر رہی تھی کہ یمن کے پڑوسی ملک عرب میں انقلاب برپا ہو گیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول پاک ﷺ کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپؐ تیرہ سال تک مکہ کے لوگوں کو اللہ کے سچے دین اسلام کی طرف بلاتے رہے۔ پھر آپؐ اسلام قبول کرنے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت فرما کر تقریباً تین سو میل دور مدینہ تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے جاں نثاری کا حق ادا کر دیا اور آخری دم تک آپؐ کی اطاعت اور حمایت کا عہد کیا۔ وہیں آپؐ نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ کافروں نے مسلمانوں کو سازشوں اور لڑائیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کی بار بار کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا، یہاں تک کہ ۸ ہجری میں رسول پاک ﷺ نے مکہ فتح کر لیا۔ اب نہ صرف مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے بلکہ سارے عرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ ۹ اور ۱۰ ہجری میں نہ صرف عرب کے گوشے گوشے سے بلکہ پڑوسی ملکوں سے بھی مختلف قبیلوں کے وفد دھڑا دھڑ مدینہ آکر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کی عزت حاصل کی ان ہی گروہوں میں سے حضرت عمرو بن معدی رض بھی ایک گرو کے ساتھ تشریف لائے اور اسلام قبول کیا۔ ۔اور واپس اپنے ملک چلے گئے۔

حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمروؓ نے شام اور ایران کی جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے شام میں رومیوں کو اور ایران میں مجوسی (آتش پرستوں یا آگ پوجنے والوں) جنگجوؤں کو لوہے کے چنے چبوا دیے اور کئی شاندار کارنامے انجام دیے۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے ہوئے اس دنیا سے شہادت کا درجہ پا کر رخصت ہوئے۔ یہاں ان کے چند جنگی کارناموں کا مختصر حال بیان کیا جاتا ہے۔

شام کی جنگوں میں یرموک کی جنگ نہایت خونریز اور شام میں لڑی جانے والی لڑائیوں میں سب سے سخت لڑائی تھی۔ قیصر روم (روم کے بادشاہ) نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری طاقت اس لڑائی میں جھونک دی تھی۔ کئی لاکھ رومی فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد کئی گنا کم تھی، لیکن وہ اپنی ایمانی قوت کے بل پر رومیوں کے خوفناک لشکر کے ساتھ اس شان سے لڑے کہ اس کا منہ پھیر دیا۔ اسلامی لشکر میں حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ضرار بن ازورؓ اور حضرت عمرو بن معدی کربؓ جیسے بہادروں نے اکیلے اکیلے بھی رومیوں پر ایسی ضربیں لگائیں کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ ایک موقع پر جب لڑائی کا تنور پوری طرح گرم تھا اور حضرت عمرو بن معدی کربؓ رومیوں کی لاشوں پر لاشیں گرا رہے تھے، ایک بھاری بھرکم قوی ہیکل رومی نے حضرت عمروؓ پر حملہ کیا۔ حضرت عمروؓ نے اس کا وار خالی دیا اور اپنی تلوار کا اس پر ایسا بھرپور وار کیا کہ وہ آناً فاناً ہلاک ہو گیا۔ اب ایک اور رومی جنگجو کی طرف بڑھے۔ انہوں نے اس کو بھی قتل کر ڈالا۔ پھر جب رومی شکست کھا کر بھاگے تو حضرت عمروؓ نے دور تک ان کا پیچھا کیا اور جو بھی ان کی تلوار یا برچھی کی زد میں آیا، اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے خیمے کی طرف واپس آئے، گھوڑے سے اتر کر بڑے بڑے طشت منگوائے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔

یرموک کی لڑائی کے علاوہ حضرت عمرو بن معدی کربؓ قادسیہ کی خونریز جنگ میں بھی ایران کے خلاف جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑے اور اپنی بہادری کی دھاک بٹھا دی۔ یہ لڑائی عراق و عرب کی سب سے سخت لڑائی تھی۔ اس میں ایرانی لشکر کا سپہ سالار ایران کا ایک نامی گرامی بہادر ”رستم فرخزاد“ تھا۔ اس کے ساتھ قریباً دو لاکھ ایرانی جنگجو اور تین سو جنگی ہاتھی تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی فوج کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان میں حضرت عمرو بن معدی کربؓ اور کئی دوسرے عرب شہسوار شامل تھے۔

اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے۔ انہوں نے ایرانیوں کی فوجی قوت اور جنگی تیاریوں کا حال امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کو لکھ بھیجا اور ان سے مدد بھیجنے کی درخواست کی۔ اس کے جواب میں امیر المومنینؓ نے حضرت سعدؓ کو جو خط بھیجا، اس میں دوسری بہت سی ہدایات کے علاوہ یہ بھی لکھا:

”تمہارے لشکر میں مالک بن عوف، حنظلہ بن ربیعہ، طلحہ بن خویلد، عمرو بن معدی کربؓ اور ان جیسے دوسرے عرب شہسوار ایسے جانباز مجاہد ہیں جن کے دلوں میں ثواب اور جہاد کی پرزور لگن ہے۔ اللہ پر بھروسہ کرو اور اسی سے مدد مانگو۔“

لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضرت سعدؓ نے اپنے چند نمائندے (جن میں حضرت عمرو بن معدی کربؓ بھی شامل تھے) شاہ ایران یزدجرد (کسریٰ) کے پاس بھیجے اور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، مگر اس نے یہ دعوت بڑی حقارت سے رد کر دی۔

جنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے ایرانی لشکر کی طرف سے ایک نامی گرامی تیرانداز ریشمی قبا پہنے، سنہری پیٹی باندھے اور ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا۔ اس کے مقابلے کے لیے حضرت عمرو بن معدی کربؓ نکلے۔ اس نے تیر کمان میں جوڑا اور تاک کر حضرت عمروؓ کو مارا، مگر وہ بال بال بچ گئے۔ اب وہ اپنا گھوڑا دوڑاتے ایرانی تیرانداز کے قریب پہنچ گئے اور پلک جھپکنے میں اس کی پیٹی میں ہاتھ ڈال کر اس کو زمین پر دے مارا۔ پھر تلوار سے اس کا سر کاٹ کر ایرانی لشکر کی طرف پھینک دیا اور اپنی فوج کی طرف منہ کر کے کہا کہ یوں لڑا کرتے ہیں۔ اسلامی لشکر کی طرف سے شاباش کے نعرے بلند ہوئے اور لوگوں نے کہا، ہر شخص عمرو بن معدی کربؓ کیونکر ہو سکتا ہے۔

جب گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی اور دونوں فوجیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں تو حضرت عمرو بن معدی کربؓ اپنی فوج کی صفوں میں چکر لگانے لگے اور مجاہدین کو اس طرح جوش دلانے لگے:

”اے مجاہدوں! تم لوگ تند و تیز شیر بن جاؤ اور دشمن کو بھیڑ سمجھ کر اس پر جھپٹ پڑو۔“

اتنے میں ایک ایرانی نے ان کو تیر مارا جو ان کی کمند کے کونے میں لگا۔ اس پر حضرت عمروؓ بجلی کی سی تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور اسے ایسا نیزہ مارا کہ اس کی پیٹھ کے پار نکل گیا۔ پہلے دن کی لڑائی رات کے اندھیرے پھیلنے تک جاری رہی۔ دوسرے دن بھی صبح سے شام تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی۔ حضرت عمروؓ نے ان دونوں دنوں میں بے شمار ایرانیوں کو قتل کیا۔ تیسرے دن ایرانیوں نے لڑائی شروع ہوتے ہی اپنے جنگی ہاتھیوں کو اسلامی فوج کی طرف بڑھایا۔ ہاتھیوں کے دائیں بائیں ایرانی فوج کی پیدل صفیں تھیں۔ حضرت عمروؓ نے مسلمانوں کو خطرے میں دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں سامنے کے ہاتھی پر حملہ کرتا ہوں، تم میرے ساتھ رہنا، ورنہ عمرو بن معدی کرب مارا گیا تو پھر عمرو بن معدی کرب پیدا نہ ہوگا۔ یہ کہہ کر تلوار سنبھال کر سامنے کے ہاتھی پر حملہ کیا، مگر ایرانیوں کی پیدل صفیں ان پر ٹوٹ پڑیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عمروؓ کے ساتھی مجاہدین بھی آگے بڑھے اور ایرانیوں کے حملے کو پوری طاقت سے روکا۔ اس وقت اتنی گرد اڑی کہ حضرت عمروؓ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ مسلمان مجاہدین نے سخت لڑائی کے بعد ایرانیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس وقت حضرت عمروؓ کا یہ حال تھا کہ سارا جسم خاک سے اٹا ہوا تھا اور بدن پر برچھیوں کے بے شمار زخم تھے، مگر وہ برابر تلوار چلائے جا رہے تھے۔ اتنے میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا۔ انہوں نے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی۔ اس نے بار بار گھوڑے کو دوڑانے کی کوشش کی، مگر اس زخمی حالت میں بھی حضرت عمروؓ کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ گھوڑا اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ آخر اس کا سوار اسے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اتنے میں بہت سے تازہ دم مجاہد حضرت عمروؓ کی مدد کے لیے پہنچے اور ان سب نے مل کر ہاتھیوں پر اس انداز سے حملہ کیا کہ وہ زخمی ہو کر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔

تیسرے دن کی اس لڑائی میں ایرانیوں کا سپہ سالار ایک مجاہد کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایرانی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک ان کا تعاقب کیا اور بے شمار لاشیں میدان میں بچھا دیں۔

اس فتح کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے بَرْس، بابل، کوثٰی اور بہرشیر کو فتح کیا اور پھر دریائے دجلہ عبور کر کے ایران کے دارالحکومت مدائن میں داخل ہوئے۔ شاہ ایران یزدجرد اپنا خزانہ سمیٹ کر وہاں سے بھاگ گیا۔ حضرت عمرو بن معدی کربؓ ان ساری فتوحات میں حضرت سعدؓ کے ساتھ ساتھ رہے اور ہر معرکے میں بڑی شان سے لڑے۔

ایک دفعہ حضرت عمرو بن معدی کربؓ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں مدینہ منورہ آئے اور امیر المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے جہاد کے میدان میں جو کارنامے انجام دیے تھے، ان کی بنا پر حضرت عمرؓ ان کے بڑے قدردان تھے۔ وہ ان سے بڑی محبت اور تپاک سے ملے اور دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں جاہلیت کے زمانے کا ذکر آ گیا۔ امیر المومنینؓ نے ان سے پوچھا:

”اسلام قبول کرنے سے پہلے تمہیں ہر قسم کے آدمیوں سے واسطہ پڑا ہوگا، یہ تو بتاؤ تم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مکار اور سب سے زیادہ بہادر کس کو پایا؟“

حضرت عمرو بن معدی کربؓ نے عرض کیا:

”امیر المومنین! مجھے اپنی زندگی میں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ ان میں ایسے آدمی بھی تھے جن کا آپؓ نے ذکر کیا ہے۔ ان سے مجھے جس طرح واسطہ پڑا، وہ میں عرض کرتا ہوں۔

جاہلیت کے زمانے میں (یعنی اسلام قبول کرنے سے پہلے) میری زندگی ڈاکا زنی اور مار دھاڑ میں گزرتی تھی، کبھی اس قبیلے پر حملہ، کبھی اس قبیلے پر چھاپہ۔ میرے خاندان کی گزر بسر اسی طرح ہوتی تھی۔ میری بہادری، بے خوفی اور شہسواری ایسی مشہور ہو گئی تھی کہ میرا نام سن کر اکثر لوگ کانپ اٹھتے تھے اور کسی کو میرا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ ایک دن میں ڈکیتی کے لیے گھر سے نکلا۔ ایک جگہ دیکھا کہ ایک گھوڑا کھڑا ہے اور اس کے قریب زمین میں نیزہ گڑا ہوا ہے اور پاس ہی ایک شخص زمین پر بیٹھا ہے۔ میں لپک کر اس شخص کے قریب پہنچا اور للکار کر کہا، ’سنبھل جا کہ تیرا قاتل آپہنچا۔‘

اس نے پوچھا، ’پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟‘

میں نے کہا، ’عمرو بن معدی کرب زبیدی۔‘

یہ سنتے ہی وہ شخص سہم کر زمین پر گر پڑا، دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ امیر المومنین! یہ شخص مجھے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ بزدل نظر آیا۔

اب جسے میں نے سب سے زیادہ مکار پایا، اس کا حال سنیے۔ ایک دفعہ میں شکار کی تلاش میں نکلا۔ ایک مقام پر دیکھا کہ ایک گھوڑا کھڑا ہے۔ اس کے برابر زمین میں نیزہ گڑا ہے اور ایک شخص دور بیٹھا ہوا پیشاب کر رہا ہے۔ میں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے پاس جا کر بلند آواز سے کہا، ’سنبھل جا کہ تیرا قاتل آپہنچا۔‘

اس شخص نے لا پروائی سے کہا، ’کیا سچ مچ تم مجھ سے لڑو گے؟‘

میں: ’ہاں، بس یوں سمجھو کہ میری تلوار تیرا کام تمام کرنا چاہتی ہے۔‘

وہ: ’ہوں… تم ہو کون؟‘

میں: ’عمرو بن معدی کرب زبیدی۔‘

وہ: ’اچھا تو تم عمرو بن معدی کرب ہو، لیکن جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ بہادروں کا طریقہ نہیں۔‘

میں: ’کیوں؟‘

وہ: ’میں پیادہ ہوں اور تم سوار، اگر مرد ہو تو قسم کھاؤ کہ جب تک میں گھوڑے پر سوار ہو کر ہتھیار نہ سنبھال لوں، مجھ سے نہیں لڑو گے۔‘

میں نے قسم کھائی کہ جب تک وہ سوار نہ ہو لے گا، میں اس سے ہرگز نہ لڑوں گا۔

میرے قسم کھاتے ہی وہ شخص اٹھا اور گھوڑے کے قریب اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔

میں: ’یہ کیا؟‘

وہ: ’نہ میں گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ میں تم سے لڑوں گا۔ اگر تم نے اپنی قسم توڑی اور مجھ پر حملہ کیا تو سارے عرب میں عہد توڑنے والے بزدل کے لقب سے مشہور ہو جاؤ گے۔‘

اے امیر المومنین! میں اب مجبور ہو گیا کہ اسے چھوڑ کر اپنا راستہ لوں۔ اس شخص سے بڑھ کر مکار میں نے اپنی زندگی میں کسی کو نہیں دیکھا۔

اب اس کا حال سنیے جس کی بہادری اور حوصلہ مندی کو میں زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔ ایک دن میں ڈاکا زنی کے لیے صحرا میں جا رہا تھا کہ مجھے ایک خوبصورت نوجوان نظر آیا۔ وہ گھوڑے پر سوار میری طرف آ رہا تھا۔ قریب آ کر اس نے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا اور اس سے پوچھا: ’تم کون ہو؟‘

نوجوان: ’میرا نام حارث بن سعد ہے۔‘

میں: ’ہوشیار ہو جا، تیرا قاتل آپہنچا۔‘

حارث: ’کم بخت، تو کون ہے؟‘

میں: ’عمرو بن معدی کرب زبیدی۔‘

حارث: ’وہی حقیر اور ذلیل ڈاکو؟ خدا کی قسم، صرف یہ سمجھ کر چھوڑ رہا ہوں کہ تجھ جیسے ذلیل آدمی پر کیا ہاتھ اٹھاؤں۔‘

امیر المومنین! حارث کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں دل میں سخت شرمندہ ہوا، لیکن مجھے سخت غیرت بھی آئی اور میں نے گرج کر کہا:

’اب یہ باتیں رہنے دے اور سنبھل جا، میں قسم کھاتا ہوں کہ اب اس میدان میں ہم میں سے صرف ایک ہی شخص زندہ بچ کر جا سکتا ہے۔‘

حارث: ’میں تجھ سے پھر کہتا ہوں کہ اپنی جان بچا کر چلا جا، میں اس گھرانے سے ہوں جس میں سے کسی پر آج تک کوئی شخص غالب نہیں آ سکا۔‘

میں: ’میں بھی ویسا ہی ہوں۔‘

حارث: ’اچھا تو بتا، تجھے کیا پسند ہے، پہلے میں وار کروں یا تو کرے؟‘

میں: ’میں ہی حملہ کرتا ہوں، سنبھل۔‘

یہ کہہ کر میں نے اپنی پوری طاقت سے اس کو نیزہ مارا۔ مجھے یقین تھا کہ میرا نیزہ اس کی پیٹھ توڑ کر نکل گیا ہوگا، مگر اس نے اپنے گھوڑے پر جھک کر ایسی خوبصورتی سے میرا وار خالی دیا کہ میں حیران رہ گیا۔ اب اس نے اپنے نیزے سے میرے سر کو ہلکا سا کچھوکا دیا اور کہا:

’اے عمرو! یہ میرا پہلا وار ہے۔ اگر تجھ جیسے ذلیل شخص کو قتل کرنا میں اپنی ذلت نہ سمجھتا تو یہ نیزہ تیرے سر کے پار ہو گیا ہوتا۔‘

امیر المومنین! یہ جملہ سن کر میں نے اپنے آپ کو اتنا حقیر محسوس کیا کہ موت زندگی سے پیاری معلوم ہونے لگی۔ میں نے بڑے جوش سے حارث پر اپنے نیزے سے دوسرا وار کیا، مگر اس نے بڑی صفائی سے یہ وار بھی خالی دیا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ میرے سر میں اپنے نیزے سے کچھوکا دیا: ’یہ دوسری مرتبہ ہے کہ تجھے چھوڑ دیا۔‘

اب تو میں ذلت کے دریا میں غرق ہو گیا اور جھلا کر اس پر تیسرا وار کیا۔ اس دفعہ وار خالی دیتے وقت وہ گھوڑے کی پیٹھ سے زمین پر گر گیا۔ میں نے خیال کیا کہ بس اب یہ میرے قابو میں آ گیا، مگر دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پلک جھپکنے کی دیر میں زمین سے اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اپنے نیزے سے میرے سر کو تیسرا کچھوکا دے کر چلایا: ’اب یہ تیسری بار ہے کہ تجھے ذلیل سمجھ کر چھوڑا ہے۔‘

میں: ’نہیں تو مجھے قتل ہی کر ڈال تاکہ عرب کے سواروں کو میری ذلت کی خبر نہ پہنچے۔‘

حارث: ’اے عمرو! قصور تین ہی بار معاف کیا جاتا ہے۔ اب چوتھی بار میں غالب آیا تو یقیناً تجھے قتل کر ڈالوں گا۔‘

امیر المومنین! اس کی یہ بات سن کر مجھ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ اس سے مقابلہ کا خیال میرے دماغ سے بالکل نکل گیا۔ میں نے اس کی بہادری کی تعریف کی اور اپنی ہار مان لی۔ امیر المومنین! اپنی زندگی میں کبھی ایسا بہادر اور بلند حوصلہ نہیں دیکھا۔ اس نے تین مرتبہ مجھ پر قابو پا کر مجھے چھوڑ دیا حالانکہ میں نے اس کی جان لینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔“

حضرت عمرو بن معدی کربؓ کو زندگی کی جو آخری عزت اور بزرگی حاصل ہوئی، وہ ان کا اس جنگ میں شریک ہونا جس نے ایران کی مجوسی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ یہ خونریز جنگ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ۲۱ ہجری میں نہاوند کے مقام پر ہوئی۔ یہ لڑائی دراصل ایران کے بادشاہ یزدجرد کی آخری کوشش تھی جو اس نے مسلمانوں کو ایران سے نکالنے کے لیے کی۔ اس میں ایرانیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ اسلامی لشکر میں عرب کے کئی نامی گرامی بہادروں کے علاوہ حضرت عمرو بن معدی کربؓ بھی شامل تھے۔ دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ دونوں اطراف کے سینکڑوں آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ مسلمان شہیدوں میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت نعمان بن مقرنؓ بھی شامل تھے۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے اسلامی فوج کی کمان سنبھالی اور ایرانیوں پر ایسا تند و تیز حملہ کیا کہ ان کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمرو بن معدی کربؓ لڑائی میں شروع سے آخر تک قدم جما کر لڑتے رہے، یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہو گئے۔ ایرانیوں کی شکست کے بعد مسلمان انہیں میدان جنگ سے اٹھا کر لائے اور ان کا علاج شروع کیا، لیکن ان کا آخری وقت آپہنچا تھا۔ نہاوند کے قریب روزہ نام کے ایک گاؤں میں وہ شہادت کا تاج پہن کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

رضی اللہ تعالیٰ عنہ

واللہ اعلم بالصواب

دوستو….!!! چلتے چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ کہانی یا تحریر وغیره اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو دوستو ہماری سپورٹ کے لیے پوسٹ اچھی لگے تو فالو ضرور کیا کریں بہت شکریہ۔❤️

Golden pages of History

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

#AmrIbnMaadiKarib

#عمروبنمعدیکرب

#Sahaba

#صحابہ

#IslamicHistory

#تاريخ_إسلامي

#MuslimWarrior

#مجاهد_إسلامي

#Qadisiyyah

#قادسیہ

#Yarmouk

#یرموک

#CompanionsOfTheProphet

#صحابہ_رسول_اللہ

#Jihad

#جہاد

#RashidunCaliphate

#خلافت_راشدہ

Loading