ایک ماں تھی جس نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ میرے والد ایک معمولی مزارع تھے۔ جب میں سولہ سال کی تھی، تو والد نے میری شادی اپنے ایک رشتہ دار کے بیٹے سے کر دی۔ یہ لوگ بھی ہماری طرح غریب تھے۔ سسر بوڑھے تھے اور شوہر ایک زمیندار کی زمین پر ہل چلاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں صرف تین دن تک دلہن بنی رہی۔ اس کے بعد وہی کھیتوں میں جاکر کام کرنا، کنویں سے پانی بھر کر لانا، گھاس کاٹنا اور تندور پر روٹیاں پکانا۔ جو کچھ میکے میں تھا، وہی سسرال میں ملا۔ ایک سال کے اندر اللہ نے ایک بیٹا بھی دے دیا۔
جب ایک روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں کنویں پر پانی بھرنے گئی ہوئی تھی۔ اس وقت کنویں پر کوئی بھی نہ تھا۔ یہ کنواں پگڈنڈی کے پاس تھا، جہاں سے سڑک آکر ملتی تھی۔ سڑک پر ایک کار کھڑی تھی اور دلاور خان کار سے اتر کر میری طرف آرہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے کہا، گھبراؤ نہیں، مجھے پانی چاہیے۔ اپنی گاگر میری کار کے پاس لے چلو۔ کار گرم ہوگئی ہے، اس میں پانی ڈالنا ہے۔
میں دلاور خان کو پہچانتی تھی۔ ایک بار وہ ہمارے زمیندار کے گھر بطور مہمان آ کر ٹھہرا تھا۔ اس وقت میں اسے روٹی دینے کے لئے اوطاق میں گئی تھی۔ تب میں چھوٹی تھی، مگر اس کے اجلے سفید براق کپڑے اور خوبصورت چہرہ میرے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ میں اس کی مسحور کن شخصیت سے بہت پہلے بچپن میں ہی مرعوب ہو گئی تھی۔ کار میں پانی ڈالنے کے بعد اس نے انجن بند کر دیا اور مجھ سے پوچھا، اس خدمت کے صلے میں تم کو کیا چاہیے؟ میں چپ کھڑی اپنا آنچل انگلیوں سے مروڑتی رہی۔ تو وہ بولا، کار میں بیٹھو گی؟ سیر کرو گی؟ یہ کہہ کر اس نے اپنی کار کا دروازہ کھولا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میں بھی ایسے اس کی گاڑی میں جا بیٹھی جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو۔ دلاور خان نے گاڑی چلا دی اور پھر نہ روکی۔ میں اسے پسند آ گئی تھی۔ اس نے اسی لمحے طے کر لیا تھا کہ جو بھی ہو، وہ مجھے حاصل کر کے رہے گا۔ وہ مجھے لے کر اپنے گھر آ گیا۔ وہ بہت بڑا زمیندار تھا۔ میرے رشتہ دار، والد، چچا، سسر اور شوہر کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس کے راستے میں آتے۔ انہوں نے تھانے میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تو تھانے والوں نے انہیں آنکھیں دکھا کر بھگا دیا۔ یہ سارا علاقہ دلاور خان کا تھا۔ بھلا کون اس کے خلاف رپورٹ لکھتا؟ تھانے والوں کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ ایک بڑا زمیندار ایک غریب مزارع کی لڑکی کو اپنے گھر کی زینت بنانے کے لئے اٹھا لے گیا تھا۔
دلاور خان کی حویلی دیکھ کر میں تو حیران رہ گئی۔ اس قدر شاندار گھر میں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ دیکھا تھا۔ اس کی بیوی بانجھ اور بیمار تھی۔ حالات میرے لئے بہت سازگار تھے۔ دلاور خان کو اولاد کی تمنا تھی۔ اس نے مجھ سے کہا، گوہر دیکھو! تم میرے گھر میں قدم رکھ چکی ہو، تمہارا واپس جانا اب میری بے عزتی ہے، یہ ناممکن ہے۔ میں تمہیں مذاق میں نہیں لایا۔ مجھے پہلی نظر میں ہی تم بھا گئی تھیں۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ یہ تمہارے لئے بڑی عزت کی بات ہونی چاہیے۔ البتہ ایک مسئلہ ہے، تمہارا بیٹا؟ اسے تمہیں بھلا دینا ہوگا۔
میں اس آدمی کو کیا کہتی، جبکہ وہ طاقتور تھا اور میں کمزور۔ وہ جو کہہ رہا تھا، اسے وہ جبر سے بھی منوا سکتا تھا۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ اس نے مجھے بیوی بنانے کا ارادہ کیا۔ اگر وہ یونہی دل لگی کر کے چھوڑ دیتا، تب بھی میں یا میرے والدین اس کا کچھ نہ بگاڑ سکتے تھے۔ میرے سسر، والد، اور شوہر کو بلوا کر اس نے اپنا ارادہ ان پر ظاہر کیا اور میرے شوہر کو حکم دیا کہ وہ مجھے طلاق نامہ لکھ دے۔ یہ سب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے سیدھے طریقے سے دلاور خان کی بات نہ مانی، تو وہ ان پر عرصۂ حیات تنگ کر سکتا تھا۔
غریب تو اپنی غربت سے مجبور ہوتا ہے، اور یہی میرے وارثوں کی بے بسی تھی۔ انہوں نے دلاور خان کی پیشکش قبول کر لی اور کافی رقم لے کر طلاق نامہ لکھ کر دے دیا۔ اب میں آزاد تھی۔ دلاور خان مجھ سے نکاح کر سکتا تھا۔ میں کمسن تھی اور وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ اس کا رعب مجھ پر ایسا طاری تھا کہ جو وہ کہتا، میں بلا چون و چرا مان لیتی۔ نکاح کے بعد اس کے گھر میں میری جو حیثیت متعین ہوئی، اس کا تو میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ میں سارے گھر کی مالک تھی۔ دلاور خان مجھ پر جان نچھاور کرتا تھا۔
اس نے مجھے سونے سے پیلا کر دیا تھا۔ میں، جو کڑی دھوپ میں کھیتوں میں جلتی تھی، آج ٹھنڈی حویلی میں سکون اور آرام کی نیند سوتی تھی، اور نوکرانیاں میرے آگے پیچھے پھرتی تھیں۔ میں سچ مچ بھکارن سے ملکہ بنادی گئی تھی۔ بھلا ایسے نصیب کسی لڑکی کے ہو سکتے ہیں؟ شاید کروڑوں میں کوئی ایک ہی ایسی ہوتی ہو گی۔ میں جتنا اپنی قسمت پر ناز کرتی، کم تھا۔ میں غربت کے دہکتے ہوئے جہنم سے نکل کر دلاور خان جیسے بڑے آدمی کی عزت بن گئی تھی اور اس کے پیار کی چھاؤں تلے آ گئی تھی۔ میرے میکے والوں نے مجھ سے پھر کوئی ناتا نہ رکھا۔ ایک ماں تھی جس نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔
وہ چوری چھپے ملنے آ جاتی اور کبھی کبھی میرے بیٹے کملے کو بھی اپنے دوپٹے کی اوٹ میں لپیٹ کر لے آتی تھی۔ جب تک میں دلاور خان کے بچے کی ماں نہ بنی، دلاور نے میری ماں کے آنے جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا، لیکن جب اس کے گھر میں، میں نے پہلے بیٹے کو جنم دیا تو پھر اس نے مجھے بتا دیا کہ مجھے اپنے میکے سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا ہے۔ خاص طور پر پہلے شوہر کے لڑکے کے لیے، اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ پہلے میں صرف دلاور خان کی محبوبہ تھی، اب اس کے بیٹے کی ماں بن چکی تھی اور یہ زنجیر باقی سب زنجیروں سے زیادہ مضبوط تھی۔ اب میں کملے کو یاد کر کے تڑپتی تھی مگر اس سے مل نہیں سکتی تھی۔ وہ میرا بیٹا تھا، میں اسے کیسے بھول سکتی؟ یاد کر کے تڑپتی مگر مل نہ سکتی تھی۔ وہ میرا اپنا تھا، میں اسے کیسے بھول سکتی تھی؟ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ نیچے دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/01/sotelay-bety.html
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
#urduline #urdushayari #urdupoetry #quotes #kahani #kahaniyan #stories #urduquotes #Qissa #quoteoftheday #urduadab #urdu #everyone
![]()

