Daily Roshni News

گناہ کے سیاہ بادل اور رحمت کی بارش: کیا واقعی سب معاف ہو جاتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔  بلال شوکت آزا

گناہ کے سیاہ بادل اور رحمت کی بارش: کیا واقعی سب معاف ہو جاتا ہے؟

تحریر۔۔۔  بلال شوکت آزاد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ گناہ کے سیاہ بادل اور رحمت کی بارش: کیا واقعی سب معاف ہو جاتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔  بلال شوکت آزاد)کیا آپ نے کبھی رات کے پچھلے پہر، جب دنیا گہری نیند میں ڈوبی ہوتی ہے اور سناٹا اپنے عروج پر ہوتا ہے، خود کو تنہائی کے آئینے میں دیکھا ہے؟

یہ وہ خوفناک لمحہ ہوتا ہے جب انسان دنیا سے تو چھپ سکتا ہے مگر اپنی ہی نظروں سے نہیں چھپ سکتا۔

جب ضمیر کا ان دیکھا بوجھ کندھوں کو جھکا دیتا ہے، اور دل کے کسی ویران، تاریک گوشے سے ایک دبی ہوئی سرگوشی ابھرتی ہے کہ

”میں بہت برا ہوں۔۔۔ اتنا برا کہ اب واپسی کے سارے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔“

یہ محض اداسی نہیں ہے؛ یہ وہ مقام ہے جہاں ”مایوسی“ (Despair) انسان کی روح پر اپنا آخری اور کاری وار کرتی ہے۔

ہم میں سے کتنے ہی لوگ اس خاموش اذیت (Silent Agony) میں جی رہے ہیں کہ شاید ان کے گناہوں کی فہرست اتنی طویل اور نوعیت اتنی گھناؤنی ہے کہ اب خدا کی رحمت کا دروازہ بھی ان کے لیے نہیں کھلے گا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال کہ

”کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا؟“

دراصل کوئی سوال نہیں، بلکہ یہ ایک ”چیخ“ ہے جو ہمارے باطن کے خلا سے جنم لیتی ہے۔

اس کیفیت کو اگر ہم سائنس کی نظر سے دیکھیں، تو جدید نفسیات (Psychology) ہمیں ایک حیرت انگیز منظر دکھاتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ گناہ کا یہ شدید احساس دراصل انسان کے دماغی نظام کے لیے ایک ”زہر“ کی حیثیت رکھتا ہے، جسے کلینکل اصطلاح میں ”Toxic Shame“ (زہریلی شرمندگی) کہا جاتا ہے۔

یہ ایک عام پچھتاوا نہیں ہے؛ یہ وہ نفسیاتی کیفیت ہے جہاں انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ

”میں نے غلطی نہیں کی، بلکہ میں بذاتِ خود ایک غلطی (Mistake) ہوں۔“

نیورو سائنس (Neuroscience) کی تحقیقات، جیسے کہ دماغی امیجنگ  سے ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان مسلسل خود ملامتی (Self-loathing) کے چکر میں پھنستا ہے، تو اس کے دماغ میں تناؤ کے ہارمونز بالخصوص کارٹیسول (Cortisol) کا اخراج خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔

یہ کیمیائی عمل انسان کے دماغ کے اس حصے (Prefrontal Cortex) کو مفلوج کر دیتا ہے جو امید اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ہے۔

انسان ایک ایسے ”نفسیاتی قید خانے“ میں محبوس ہو جاتا ہے جہاں اسے لگتا ہے کہ وہ اب کبھی پاک نہیں ہو سکتا۔

یہیں پر شیطان اپنی سب سے بڑی چال چلتا ہے؛ وہ آپ کو گناہ پر نہیں اکساتا، بلکہ وہ آپ کو ”توبہ کی امید“ سے کاٹ کر نفسیاتی فالج کا شکار کر دیتا ہے۔

لیکن جب ہم اپنی نظریں الہیات کی طرف موڑتے ہیں، تو وہاں وحیِ الٰہی کا منظرنامہ انسانی نفسیات کے اس اندھیرے کو چیرتا ہوا نظر آتا ہے۔

خالقِ کائنات، جو انسانی رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے اور جو ہمارے نیورانز کی اس کیمیائی ٹوٹ پھوٹ کو ہم سے بہتر جانتا ہے، اس نے قرآنِ مجید میں ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا ہے جو اگر کسی پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی ہیبت سے ریزہ ریزہ ہو جاتا، مگر اسے گناہگار انسان کے ٹوٹے ہوئے دل کی ڈھارس کے لیے اتارا گیا۔

سورۃ الزمر کی آیت نمبر 53 میں اللہ اپنے ان بندوں سے مخاطب ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم (گناہ) کیا ہے۔

قُلْ يَا عِبَادِىَ الَّـذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُـوْبَ جَـمِيْعًا ۚ اِنَّهٝ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِـيْمُ (53)

کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے۔

غور کیجیے!

وہ انہیں ”اے گناہگارو“ یا ”اے مجرمو“ کہہ کر نہیں پکار رہا، بلکہ اس نے ”یٰعِبَادِیَ“ (اے میرے بندو) کا محبت بھرا خطاب استعمال کیا ہے، یعنی گناہ کے باوجود اس نے تعلق نہیں توڑا۔ وہ فرماتا ہے:

”میری رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے۔“

یہ آیت اس بات کا اعلان ہے کہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اللہ کی صفتِ غفاری اس سے کہیں بڑی ہے۔

یہاں ایک بہت بڑا علمی اور فلسفیانہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہم اکثر اللہ کی ذات کو ”انسانوں کے پیمانے“ پر ماپنے کی غلطی (Anthropomorphic Error) کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ انسان جلدی معاف نہیں کرتا، وہ بدلہ لیتا ہے، وہ کینہ رکھتا ہے، تو شاید اللہ بھی (نعوذ باللہ) ایسا ہی ہوگا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ”مغفرت“ (Forgiveness) اس کی محض ایک ”عادت“ نہیں، بلکہ اس کی ”ذات“ کا بنیادی تعارف ہے۔

اگر آپ کے گناہ آسمان کی چھت کو چھو رہے ہوں، اور آپ زمین کے ذروں کے برابر خطائیں لے کر اس کے سامنے حاضر ہو جائیں، لیکن آپ کے دل میں ”سچی ندامت“ کی ایک چنگاری روشن ہو، تو اس کی رحمت کا سمندر  آپ کے گناہوں کے صحرا کو ایک لمحے میں دھو ڈالتا ہے۔

اسلام میں کوئی گناہ ”اتنا بڑا“ نہیں ہے جو اللہ کی رحمت سے بڑا ہو۔

یہاں تک کہ ”شرک“، جو سب سے سنگین جرم ہے، اس کے بارے میں بھی قانون یہی ہے کہ اگر مشرک زندگی میں سچی توبہ کر لے اور توحید کی طرف پلٹ آئے، تو اس کا پچھلا سارا کھاتہ صاف ہو جاتا ہے۔ نا قابلِ معافی ہونا صرف ”بغیر توبہ کے مر جانے“ سے مشروط ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ

”مجھے کیسے پتہ چلے کہ معافی مل گئی؟“۔

یہ وہ تشویش ہے جو توبہ کرنے والے ہر حساس دل کو بے چین رکھتی ہے۔

 کیا آسمان سے کوئی تحریری پروانہ اترے گا؟

کیا خواب میں کوئی بشارت ہوگی؟

یا مصلے پر کوئی نور برسے گا؟

نہیں۔

اللہ کا نظامِ فطرت اس سے کہیں زیادہ لطیف اور گہرا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر ”سائنس“ اور ”روحانیت“ کے سنگم, تطبیق (Synthesis) پر کھڑا ہونا ہوگا۔

جدید بیہیویئرل سائنس (Behavioral Science) کہتی ہے کہ جب کوئی انسان کسی پرانی عادت (Addiction) کو ترک کرتا ہے، تو اس کا ثبوت اس کا ”زبانی دعویٰ“ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے دماغ کی ”نیوروپلاسٹیٹی“ (Neuroplasticity) یعنی دماغی سرکٹس کی ری وائرنگ ہوتی ہے۔

بالکل اسی طرح، روحانیت میں توبہ کی قبولیت کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی ”کیفیت کی تبدیلی“ (Transformation of State) ہے۔

اہلِ بصیرت اور حکماء لکھتے ہیں کہ معافی کی سب سے بڑی اور واضح نشانی یہ ہے کہ آپ کے دل سے اس گناہ کی ”لذت“ چھن جائے اور اس کی جگہ ”وحشت“ لے لے۔

اگر توبہ کے بعد آپ کو نیکی کرنا آسان لگنے لگے اور گناہ کی طرف جاتے ہوئے آپ کے پاؤں بھاری ہو جائیں، تو سمجھ لیجیے کہ سرور سے کنکشن بحال ہو گیا ہے۔

یہ آپ کے دماغ اور روح کی ”ری وائرنگ“ ہے جو قبولیت کی دلیل ہے۔

اس حقیقت کا ایک اور پہلو بھی ہے جو انسان کو ششدر کر دیتا ہے۔

جب اللہ کسی کو معاف کرتا ہے، تو وہ صرف گناہوں کی فہرست سے اس عمل کو ”ڈیلیٹ“ نہیں کرتا، بلکہ وہ اس گناہ کو ”نیکی“ میں بدل دیتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

آپ کا وہ گناہ، جو آپ کی ندامت کا باعث بنا، جو آپ کے راتوں کے آنسوؤں کا سبب بنا، جس نے آپ کے تکبر اور ”میں“ کو توڑ کر آپ کو عاجز بنا دیا۔۔۔ وہ اس نیکی سے ہزار درجہ بہتر ہے جو آپ کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا کر دیتی۔

اسے اہلِ نظر ”گناہِ منکسر“ (وہ گناہ جو عاجزی لائے) کہتے ہیں۔

اگر توبہ کے بعد آپ کے اندر دوسروں کے لیے نرمی پیدا ہو گئی ہے، آپ دوسروں کو جج (Judge) کرنے کے بجائے ان کے لیے دعا گو ہو گئے ہیں، تو یہ اس بات کی حتمی دلیل ہے کہ رحیم ذات نے نہ صرف آپ کو معاف کر دیا ہے بلکہ آپ کو اپنی محبت کے لیے چن لیا ہے۔

لہٰذا، اپنے ذہن سے اس شیطانی وسوسے کو نکال دیجیے کہ

”میں بہت برا ہوں“۔

آپ کا برا ہونا کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ آپ کا اس ”بُرائی“ پر راضی رہنا ہے۔

توبہ دراصل ”ماضی“ کو بدلنے کا نام نہیں، بلکہ ”مستقبل“ کو تخلیق کرنے کا نام ہے۔

جب آپ سجدے میں گر کر ٹوٹے ہوئے دل سے ”یا رب“ کہتے ہیں، تو عرش سے جواب آنے میں اتنی بھی دیر نہیں لگتی جتنی آپ کی پلک جھپکنے میں لگتی ہے۔ وہ تو انتظار میں ہے کہ کب میرا بندہ پلٹے اور میں اسے سینے سے لگاؤں۔

مایوسی کفر ہے، اور امید ایمان ہے۔

اپنے گناہوں کے حجم کو مت دیکھیں، اپنے رب کی رحمت کی وسعت کو دیکھیں۔

اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ ہیں، تو رحمت کا ایک قطرہ انہیں مٹانے کے لیے کافی ہے۔

بس شرط یہ ہے کہ ”پلٹنا“ سچا ہو، دل ٹوٹا ہوا ہو، اور آنکھ نم ہو۔ باقی کام اس کا ہے، اور وہ اپنے کام میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#آزادیات

Loading