Daily Roshni News

بالِ جبریل سے انتخاب۔۔۔ شاعر۔۔۔علامہ اقبال

#علامہ_اقبال

بالِ جبریل سے انتخاب

غزلیات حصہ دوم

ساتویں غزل

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن

پھُول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

برگِ گُل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھّے کہ بَن

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے مَیں نے شیخ و برہَمن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جھُکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن

آخری چار اشعار کی تشریح

چھٹا شعر : ان تین شعروں میں اقبال نے من کی دنیا کا تن کی دنیا سے موازنہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو ان دونوں میں سے ایک دنیا کے انتخاب میں سہولت ہو سکے. من کی دنیا سے وہی شانِ فقر مراد ہے جو اقبال کا محبوب ترین موضوعِ سخن ہے اور تن کی دنیا سے وہ دنیا مراد ہے جس میں ہم سب (الا ماشاء اللہ) گرفتار ہیں یعنی زن، زر اور زمین. یا بقولِ مرشد رومی خدا سے غفلت. جو شخص من کی دنیا میں رہتا ہے وہ محبتِ الٰہی میں سرشار ہوتا ہے اس لئے وہ اللہ کی تمام مخلوقات پر مہربان ہوتا ہے اور اپنی زندگی خدمتِ خلق میں بسر کرتا ہے یعنی دوسروں کے لئے جیتا ہے اور جو شخص تن کی دنیا میں رہتا ہے وہ ہر وقت دولت جمع کرنے کی فکری رہتا ہے اور اس لئے اپنی زندگی مکاری اور عیاری میں بسر کرتا ہے یعنی صرف اپنے لئے جیتا ہے۔

ساتواں شعر : لیکن من کی دولت باقی ہے اس میں صفتِ دوام پائی جاتی ہے اور تن کی دولت کو قرار نہیں. آج زید کے پاس ہے، کل بکر کے پاس۔ لہٰذا انتہائی بدنصیب ہے وہ شخص جو باقی کو چھوڑ کر فانی کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔

آٹھواں شعر : من کی دنیا کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں محبت کی حکومت ہوتی ہے۔ فرنگی اس پر اقتدار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ اس دنیا میں شیخ و برہمن کا امتیاز پایا جاتا ہے کیونکہ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے وہ تمام مخلوقات کا خیر خواہ ہوتا ہے اُس کی نظر میں ہندو اور مسلمان دونوں حضرت آدم کی اولاد ہیں اس لئے وہ دونوں پر مہربانی کرتا ہے۔

نواں شعر : آخری شعر میں اقبال نے توحید کا فلسفہ شاعری کے لباس میں پیش کر دیا ہے یعنی توحید کے معنی یہ ہیں کہ یہ انسان اللہ کے علاوہ اور کسی ہستی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے. جو شخص غیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے وہ روحانی اور جسمانی دونوں پہلوؤں سے اس کا غلام ہو جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ غلام کو نہ اپنے ضمیر پر اختیار ہوتا ہے نہ جسم پر. بالفاظ دیگر آسمان کے نیچے شرک سے بڑھ کر کوئی لعنت نہیں ہے. مشرک دراصل مرتبۂ انسانیت ہی سے خارج ہو جاتا ہے اس لیے اُس کی روحانی ترقی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.

شرح : پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم

پیشکش : قیصر ندیم

Loading