سابقہ سوال و جواب ۸۲
عبد السلام
۲۳ دسمبر ۲۰۲۵
سوال ۱۶۳۰: کیا مادے اور توانائی کے علاوہ بھی کوئی وجود ہے؟
جواب: سائنس کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر چند بنیادی اجزاء یا اصولوں کے تعامل سے وجود میں آئے ہیں۔ یہ بنیادی اجزاء ہیں توانائی، زمان و مکان، کوانٹم فیلڈ اور انفارمیشن۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ مادہ بذاتِ خود بنیادی وجود نہیں بلکہ توانائی، فیلڈز، اور معلومات کے باہمی تعامل سے پیدا ہونے والا مظہر ہے۔
&&&&&
سوال ۱۶۳۱: کیا زندگی، کائنات، مقصد (purpose) اور غایت جیسے تصورات کو سائنسی طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر سائنس صرف How اور What تک محدود ہے، تو پھر مقصد، ارادہ یا نیت جیسے تصورات کا تعلق سائنس سے ہے یا فلسفے/مذہب سے؟ اور اگر زمین پر زندگی کا سبب فطری عوامل ہیں تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ “زندگی کے لئے سازگار حالات بنائے گئے” یا “خود سے پیدا ہوئے”؟
جواب: زندگی کی موجودگی کے بارے میں سائنس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ زمین اس لیے آباد ہے کیونکہ اس کے حالات زندگی کے لیے سازگار ہیں۔ ممکن ہے کہ کائنات میں اور بھی جگہیں ہوں جہاں زندگی موجود ہو، لیکن ابھی تک ہمارے پاس ان کی شہادت نہیں ہے۔
اب جہاں تک یہ دعوی ہے کہ “یہ حالات بنائے گئے یا خود سے وجود میں آئے”، یہ سوال سائنس کے بجائے عقیدے اور فلسفے کے دائرے سے تعلق رکھتا ہے۔ سائنس فطری عوامل کی وضاحت کرتی ہے, اس کے لیے “بنایا گیا” یا “خود سے ہوا” جیسے سوالات کی کوئی معنوی حیثیت نہیں۔ آپ چاہیں تو تخلیق کو مانیں، چاہیں تو محض طبیعی ارتقاء کو، لیکن یہ سائنسی اقلیم کا سوال نہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سائنس How اور What تک محدود ہے جبکہ Why صرف فلسفہ کا میدان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سائنس نے اپنے اوپر کوئی پیشگی پابندی نہیں لگائی۔ سائنس اس why کو قبول کرتی ہے جس کی پیمائش ممکن ہو یعنی causation والی why۔ اگر کل کو کوئی قابلِ مشاہدہ purpose دریافت ہو جائے تو سائنس اسے بھی تسلیم کر لے گی سائنس کا اصول صرف اتنا ہے کہ جو بھی چیز تجربے، شہادت اور قابلِ تکرار مشاہدے میں آئے، وہ سائنسی دائرے میں شامل ہو سکتی ہے۔
البتہ یہ درست ہے کہ teleological whyیعنی غایت، مقصد یا نیت کا تعلق فلسفے اور میٹافزکس سے ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں دلیلیں منطقی ہوتی ہیں، مشاہداتی نہیں۔ یہاں کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی بلکہ صرف معقولاتی اندازے یا rational speculations ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے فلسفی why اور سائنسی why کو ملانا واقعی category error ہے۔
یعنی مقصد کو ایک measurable physical entity کے طور پر detect نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ سائنسی why کے اندر نہیں آتا۔ البتہ سائنس مقصد کے بارے میں کچھ وضاحت ضرور پیش کرتی ہے۔
مقصد دراصل انسانی شعور کا ایک ابھرتا ہوا تصور یا emergent property ہے جو انسانی ذہانت اور ارتقاء کے ساتھ پیدا ہوا۔
یعنی مقصد ایک objective feature of the universe نہیں بلکہ ایک subjective cognitive phenomenon ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو مقصد سائنس کی وضاحت میں آسکتا ہے، مگر سائنس کے objects of study میں نہیں۔
اگر کوئی شخص اس سائنسی توضیح کو قبول نہ کرے تو مقصد لازماً فلسفے، مذہب یا میٹافزکس کے دائرے میں چلا جاتا ہے جہاں عالمی غایت، تخلیق کے مقصد یا کائناتی نیت جیسے سوالات زیرِ بحث آتے ہیں۔
پس نتیجہ یہ ہے کہ سائنس causation والی why کو دیکھ سکتی ہے، purpose والی why کو نہیں۔ فلسفہ اور مذہب purpose والی why پر بات کرتے ہیں۔
مقصد کو یا تو ذہنی/ارتقائی مظہر سمجھا جاتا ہے (سائنسی وضاحت) یا پھر کائناتی غایت (مذہبی/فلسفیانہ وضاحت).
زمین پر زندگی فطری عوامل کا نتیجہ ہے؛ اسے بنایا گیا یا خود ہوا کہنا سائنس نہیں، عقیدے کا بیان ہے۔
&&&&&
سوال ۱۶۳۲: دماغی کمزوری کی کیا علامات ہوتی ہیں ؟
جواب: سائنس اور علم طب میں دماغی کمزوری جیسی کوئی عمومی چیز نہیں ہوتی۔ یہ یا تو ایک عوامی لفظ ہے جس کے کوئی طئے شدہ معنی نہیں ہوتے، یا دیسی نیم حکیم ہر مسائل کو دماغی کمزوری کا نام دے کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔
سائنسی لحاظ سے مختلف لوگوں میں مختلف ذہنی و اعصابی مسائل ہو سکتے ہیں، جیسے یادداشت کی کمی، توجہ کا کم ہونا، فوری غصہ یا گھبراہٹ، فیصلہ کرنے میں مشکل، یا سوشل خوف، لیکن ان سب کی وجوہات اور شدت الگ الگ ہوتی ہیں۔
ان سب کو ایک ہی نام “دماغی کمزوری” دے دینا نہ صرف غیر سائنسی ہے بلکہ نقصان دہ بھی، کیونکہ اس سے اصل مسئلہ کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔
لہٰذا اگر کسی کو ایسی علامات محسوس ہوں تو کسی ماہرِ نفسیات یا نیورولوجسٹ سے رجوع کریں، نہ کہ کسی ایسے شخص سے جو ہر بات کا علاج بادام، دودھ اور نیم کے پتوں میں ڈھونڈتا ہو۔
&&&&&
سوال ۱۶۳۳: جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین کے علاوہ بیکٹیریا اور وائرس کہیں بھی نہیں پائے جاتے۔ تو کیا دوسرے سیاروں پر رہائش رکھنے سے انسان ان کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے
جواب: اگر آپ نظام شمسی کے کسی دوسرے سیارے پر رہنے کی بات کر رہے ہیں تو وہاں پر رہنے سے کئی دوسرے صحت کے مسائل ہوسکتے ہیں۔ اگر بیکٹریا سے پاک بھی ہو تو انسانوں کے ساتھ وہاں نئے بیکٹیریا اور وائرس پہنچ بھی سکتے ہیں۔ بلکہ خطرہ یہ ہے کہ نئے بیکٹریا اور وایرس وہاں پر میوٹیٹ ہو کر کم عرصے میں اپنے آپ کو نئے ماحول کے لئے موافق بنالیں گے جبکہ انسان کے لئے یہ ناممکن ہوگا۔ کیونکہ انسان کو نئے ماحول کے لیے جینیاتی موافقت پیدا کرنے کے لئے سیکڑوں نسلوں سے گذرنا ہوگا۔ جس کے لئے کئی صدیاں جائیں گے اور بیکٹریا یہ مقصد کچھ سالوں میں ہی حاصل کر سکتے ہیں
&&&&&
سوال ۱۶۳۴: وائرس کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں
مجھے جہاں تک معلوم تھا وائرس کبھی بھی ختم نہیں ہوتا مطلب مرتا نہیں ،مگر ایک دوست سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ وائرس مکمل طور پہ ختم ہو جاتا اور مر جاتا ہے AI بھی یہی بتا رہا
سچ کیا ہے راہنمائی فرمائیں
جواب: اس سے اہم سوال یہ ہے کہ وائرس بذات خود زندہ ہے یا مردہ۔ درست تر بات یہ ہے کہ وائرس کی کنڈیشن نہ مکمل زندہ نوع کی ہی نہ ہی مکمل مردہ کی۔ وائر کسی دوسرے جاندار کے سیل (جسے ہوسٹ سیل کہتے ہیں) سے انفیکٹ کر کے اس میں سے غذا حاصل کر کے اپنی نقلیں بڑھا سکتا ہے۔ اور وائرس میں ڈی این اے ہوتا ہے۔ البتہ یہ خود غذا حاصل نہیں کر سکتا اور نہ بذات خود اپنی نسل بڑھا سکتا ہے۔
اگر وائرس کی ترتیب کو بگاڑ دیا جائے تو وائرس کو مکمل مردہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اگر وائرس کو اپنے موافق ماحول نہ ملے تو وہ ٹوٹ کر غیر مؤثر ہوجاتا ہے اور اگر بعد میں اس کو مناسب ہوسٹ سیل ملے تب بھی اپنی نسل یا نقل بنانے کے قابل نہیں رہتا۔
![]()

