قصور کی مٹی سے 27 رمضان کی فضیلت تک کا سفر ۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج 23 دسمبر میڈم نور جہاں کی25 ویں برسی ہے ۔ملکہ ترنم نور جہاں: قصور کی مٹی سے 27 رمضان کی فضیلت تک کا سفر۔پاکستان کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید روشن ہوتے جاتے ہیں، اور ان میں سرِفہرست نام میڈم نور جہاں کا ہے۔ وہ صرف ایک گلوکارہ نہیں تھیں، بلکہ ایک عہد، ایک تہذیب اور پاکستان کی شناخت تھیں۔
میڈم نور جہاں، جن کا اصل نام اللہ رکھی وسائی تھا، 21 ستمبر 1926 کو قصور کے ایک فنکار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی ابتدائی زندگی عیش و آرام میں نہیں بلکہ سخت محنت اور غربت میں گزری۔ موسیقی ان کے خون میں تھی، لیکن ایک چھوٹی سی بچی کے لیے بڑے شہروں کی رنگین دنیا میں مقام بنانا آسان نہ تھا۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں اپنے خاندان کی کفالت کا بیڑہ اٹھایا اور کلکتہ کے تھیٹروں سے لے کر بمبئی کی فلمی نگری تک کا سفر پاؤں کے چھالوں اور آواز کے جادو کے زور پر طے کیا۔ وہ کالی گھٹاؤں اور تپتی دھوپ میں ریہرسل کرتیں، تب کہیں جا کر وہ “بیبی نور جہاں” سے “میڈم نور جہاں” بنیں۔
میڈم کی زندگی میں خاندان کا مرکزیت ہمیشہ رہی۔ ان کی شادی شوکت حسین رضوی اور پھر اعجاز درانی سے ہوئی، اور ان کی اولاد (ظلِ ہما، حنا درانی اور دیگر) ان کی زندگی کا کل سرمایہ تھی۔ وہ ایک مصروف ترین اسٹار ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کی تربیت اور گھر کی دیکھ بھال خود کرتی تھیں۔ ان کا بیٹا ہو یا پوتا احمد علی بٹ، آج بھی ان کی تربیت اور ان کے ورثے کو فخر سے نبھا رہے ہیں۔
میڈم کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو ان کی غربا پروری تھی۔ فلمی سیٹ پر کام کرنے والے اسپاٹ بوائے سے لے کر گیٹ کیپر تک، سب جانتے تھے کہ میڈم کا دسترخوان سب کے لیے کھلا ہے۔ وہ تنہائی میں لوگوں کی مالی مدد کرتیں اور بیواؤں کے گھر راشن بھجوانا ان کا معمول تھا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا: “فن تو اللہ کی دین ہے، لیکن اصل بندگی اس کے بندوں کی خدمت میں ہے”۔ وہ غریب فنکاروں کی شادیوں اور بیماریوں کے اخراجات اس طرح اٹھاتیں کہ دائیں ہاتھ کو پتا نہ چلتا۔
1965 کی جنگ میں انہوں نے اپنے نغموں سے پاکستان کی عوام کے جذبوں کو بلند رکھا ۔
میڈم نور جہاں کی زندگی جتنی پروقار تھی، ان کا انجام اس سے کہیں زیادہ مبارک رہا۔ 23 دسمبر 2000 کی وہ شام جب پوری دنیا اسلام 27 ویں رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹ رہی تھی، یہ سریلی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ لیلۃ القدر جیسی عظیم رات میں تدفین کی سعادت نصیب ہوئی
وہ قصور کی تنگ گلیوں سے اٹھی تھیں اور کراچی کے گزری قبرستان کی مٹی میں ایک لافانی لیجنڈ بن کر سو گئیں۔ آج ان کی برسی پر ہم انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی آواز آج بھی ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن ہے، اور ان کی سخاوت آج بھی ایک مشعلِ راہ ہے۔
میڈم نور جہاں کی زندگی کی مکمل داستان پڑھنے کے لئے کلک کریں
https://www.theurduclub.com/2025/12/madam-noor-jehan-biography-life-story-songs-death-anniversary.html
#theurduclub
#Tadap
![]()

