برفانی رات کا تنہا سورج: ابنِ مریم سے ربُ العالمین تک کا شعوری سفر! – بلال شوکت آزاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ برفانی رات کا تنہا سورج: ابنِ مریم سے ربُ العالمین تک کا شعوری سفر! تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد)دسمبر کی پچیس تاریخ کی یہ رات محض کیلنڈر کا ایک ہندسہ نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے جذبات کا ایک ایسا طوفان ہے جو سرد ہواؤں میں گرم جوشی بن کر اترتا ہے۔
اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، میری کھڑکی کے باہر دھند کا راج ہے، لیکن میرے تخیل کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ مغرب سے مشرق تک، گرجا گھروں کے بلند میناروں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک، قمقمے روشن ہیں اور ایک “ولادت” کا جشن منایا جا رہا ہے۔
میرے بہت سے مسیحی دوست، جن کے اخلاق کی نرمی اور محبت کی گرمی کا میں ہمیشہ معترف رہا ہوں، آج خوش ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ آج کی رات خدا نے اپنا نور زمین پر اتارا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ رات امید کی رات ہے۔
اور بحیثیت ایک مسلمان، میں ان کی اس خوشی، ان کے جذبات اور ان کی عقیدت کا احترام کرتا ہوں۔
ہم دونوں کے درمیان “عیسیٰ ابنِ مریم” (Son of Mary) کا نام ایک ایسا مقدس پل ہے جس پر کھڑے ہو کر ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام سکتے ہیں۔
لیکن۔۔۔
کیا ہی خوبصورت ہو کہ آج کی اس مقدس اور پُر سکون رات میں، ہم اس “پل” پر کھڑے ہو کر نیچے بہتے ہوئے پانی کو نہ دیکھیں، بلکہ اس “کنارے” کی طرف نگاہ اٹھائیں جہاں یہ پل ہمیں لے جانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
آج میں آپ سے مذہب کے مناظرے کی زبان میں بات نہیں کروں گا، کیونکہ مذہب اکثر دیواریں کھڑی کر دیتا ہے۔
آج میں آپ سے “کوسمولوجی” (Cosmology)، “فلسفے” اور “خالص الہیات” کی زبان میں بات کروں گا۔
آج میں آپ کو ایک دعوتِ فکر دینا چاہتا ہوں, کسی نئے مذہب کی طرف نہیں، بلکہ خود آپ کی اپنی “فطرت” کی طرف۔ وہ فطرت جو صدیوں کی گرد میں کہیں چھپ گئی ہے۔
آئیے، یروشلم کی ان قدیم گلیوں سے نکل کر، جہاں ایک عظیم ہستی نے اندھوں کو بینائی دی تھی، ہم ذرا کائنات کی اس وسیع بالکونی میں آ کھڑے ہوں جہاں سے ہماری زمین ایک نیلے نقطے سے زیادہ کچھ نہیں لگتی۔
وہاں سے ہمیں “خدا” کیسا نظر آتا ہے؟
کیا وہ کسی ایک قوم کا باپ ہے؟
یا وہ اربوں کہکشاؤں کا تنہا مالک؟
ہم سب متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک معجزہ تھے۔ وہ “روح اللہ” تھے۔
ان کی پھونک سے مٹی کے پرندے اڑنے لگتے تھے اور ان کے ہاتھ سے کوڑھی شفایاب ہوتے تھے۔
لیکن انسانیت کا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ “اشارے” کو منزل سمجھ لیا۔
عیسیٰ علیہ السلام ایک “انگلی” تھے جو آسمان کے اس “تنہا چاند” کی طرف اشارہ کر رہی تھی، مگر عقیدت مندوں نے انگلی کو چومنا شروع کر دیا اور چاند کو فراموش کر دیا۔
آج کی یہ تحریر اسی “بھولے ہوئے چاند”، اسی “گمشدہ سگنل” کی بازیافت ہے۔ اور اس سگنل کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے میرے پاس دو چابیاں ہیں۔
ایک “سورۃ الفاتحہ” کا کائناتی الگورتھم، اور دوسرا “سورۃ الاخلاص” کی کوانٹم کیمسٹری۔
آئیے سب سے پہلے اس “الگورتھم” کو دیکھتے ہیں جو کائنات کے آپریٹنگ سسٹم (Operating System) کو چلا رہا ہے۔
قرآن کا آغاز جس سورت سے ہوتا ہے، وہ محض دعا نہیں ہے، وہ “گاڈ پارٹیکل” کی تلاش کا سفر ہے۔
”بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ“
(شروع اس اللہ کے نام سے جو اپنی ذات میں رحمان (بے حد مہربان) اور اپنی صفات میں رحیم (بار بار رحم کرنے والا) ہے۔)
ذرا غور کیجیے!
کائنات کی شروعات کسی دھماکے (Big Bang) سے نہیں ہوئی، بلکہ ”رحمت“ سے ہوئی ہے۔
جدید فزکس کہتی ہے کہ کائنات ”عدم“ (Nothingness) سے وجود میں آئی۔
سوال یہ ہے کہ عدم سے وجود میں لانے والی ”قوت“ (Force) کیا تھی؟
قرآن کہتا ہے وہ قوت ”الرحمٰن“ تھی۔
یہ وہ سورس کوڈ (Source Code) ہے جس نے کائنات کے آپریٹنگ سسٹم کو بوٹ (Boot) کیا۔ یہاں دو طرح کی رحمتوں کا ذکر ہے۔
ایک ”الرحمٰن“, یہ وہ جنرل رحمت ہے جو سب کے لیے ہے۔
سورج مسیحی پر بھی چمکتا ہے، مسلمان پر بھی، اور ملحد پر بھی۔ آکسیجن سب کو ملتی ہے۔ یہ اللہ کا ”یونیورسل پیکج“ ہے۔
دوسری رحمت ”الرحیم“ ہے, یہ وہ اسپیشل رحمت ہے، وہ ”پریمیم سبسکرپشن“ ہے جو صرف ان کو ملتی ہے جو شعوری طور پر اس کے ساتھ جڑتے ہیں۔
الہیات (Theology) ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ خدا کا تعارف “محبت” ہے۔
عیسائیت کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ God is Love۔
لیکن یہاں ایک بہت باریک سائنسی اور فلسفیانہ فرق ہے۔
قدیم مذہبی تصورات میں خدا کو اکثر غضب ناک یا ایسا دکھایا گیا جس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کسی “قربانی” یا “کفارے” کی ضرورت پڑتی ہے۔
لیکن یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کی “تخلیق” (Creation) کسی حادثے یا غصے کا نتیجہ نہیں، بلکہ “رحمت” کا ظہور ہے۔
اگر ہم سائنسی ٹریک (Scientific Track) پر دیکھیں تو “بگ بینگ” (Big Bang) سے لے کر زندگی کے ظہور تک، ہر مرحلے پر ہمیں ایک “فائن ٹیوننگ” (Fine Tuning) نظر آتی ہے۔
گریویٹی کی مقدار، زمین کا سورج سے فاصلہ، آکسیجن کا تناسب, یہ سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ کائنات کسی ایسے خالق نے بنائی ہے جو “کیئرنگ” (Caring) ہے۔
وہ رحمان ہے جس نے یہ سب کچھ بلا تفریق مہیا کیا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وہ “رحیم” بھی ہے، یعنی وہ ایک خاص کنکشن پر رسپانس بھی دیتا ہے۔
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لیے ہمیں کسی “بیٹے کے خون” کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف اس کی رحمت کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔
یہ “امید” (Hope) کا پہلا کائناتی اصول ہے۔
آج کی رات ہمیں اسی ”الرحیم“ کی تلاش کرنی ہے۔
”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ“
(تمام تعریفیں اور شکر صرف اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔)
یہاں آ کر بات بہت سنجیدہ اور گہری ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں “عیسائی الہیات” اور “اسلامی توحید” کے راستے الگ ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم سائنس کی مشعل جلائیں تو ہمیں صحیح راستہ صاف نظر آنے لگتا ہے۔
قرآن نے یہاں خدا کے لیے لفظ “رب” استعمال کیا ہے، جبکہ عیسائیت میں خدا کے لیے “اب” (Father/باپ) کا لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔
بظاہر یہ دونوں الفاظ محبت اور پرورش کا مفہوم رکھتے ہیں، لیکن اگر ہم بشریات (Anthropology) اور حیاتیات (Biology) کی رو سے دیکھیں تو “باپ” ایک محدود، حیاتیاتی اور جذباتی اصطلاح ہے۔
“باپ” کا وجود بیٹے کے وجود کا محتاج ہوتا ہے کہلانے کے لیے۔ باپ بوڑھا ہوتا ہے، باپ کمزور ہوتا ہے، اور باپ کے جذبات اکثر انصاف پر غالب آ جاتے ہیں۔ باپ اور بیٹے کا رشتہ “ڈی این اے” اور خون کا رشتہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، “رب” (The Sustainer/Cherisher) ایک وسیع تر اصطلاح ہے۔
رب وہ ہے جو کسی چیز کو اس کی ابتدائی حالت سے لے کر اس کے کمال تک پہنچائے۔
اب ذرا جدید کاسمولوجی (Cosmology) کو دیکھیں۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات صرف زمین تک محدود نہیں ہے۔ یہاں اربوں کہکشائیں ہیں، اور ہر کہکشاں میں اربوں سورج ہیں۔
سائنسدان آج “ملٹی ورس” (Multiverse) کی بات کر رہے ہیں۔
“رب العالمین” (Lord of the Multiverses)۔
سوچیے!
وہ ذات جو اتنی بڑی کائنات کو، اس کے بلیک ہولز کو، اس کے ڈارک میٹر کو اور اس کی بے پناہ انرجی کو کنٹرول کر رہی ہے, کیا اس ذات کو ہم “باپ” جیسے چھوٹے اور انسانی لفظ میں قید کر سکتے ہیں؟
کیا اتنی عظیم سلطنت کے اکیلے مالک کو واقعی کسی “بیٹے” کی ضرورت ہے جو اس کا ہاتھ بٹائے؟
جب ہم خدا کو “باپ” کہتے ہیں تو ہم انجانے میں اسے “انسان” (Anthropomorphize) بنا دیتے ہیں۔
لیکن جب ہم اسے “رب” کہتے ہیں تو ہم اسے اس کے حقیقی، کائناتی مقام پر رکھتے ہیں۔
وہ جو پالتا تو ہے، مگر جنم نہیں دیتا۔ وہ جو محبت تو کرتا ہے، مگر کمزور نہیں پڑتا۔
”مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ“
(وہ بدلے کے دن (جزا و سزا) کا تنہا مالک ہے۔)
یہ آیت انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا “اخلاقی چیلنج” اور “اعلانِ آزادی” ہے۔
عیسائیت کا عقیدہ “کفارہ” (Atonement) یہ تسلی دیتا ہے کہ “یسوع مسیح نے ہمارے گناہ اٹھا لیے اور اپنی جان قربان کر دی”۔
نفسیاتی طور پر یہ عقیدہ انسان کو سکون تو دیتا ہے، لیکن کیا یہ انصاف (Justice) کے کائناتی اصولوں کے مطابق ہے؟
سائنس کا قانون ہے:
“Every action has a reaction”
ہر عمل کا ردعمل اسی کو بھگتنا پڑتا ہے جو عمل کرتا ہے۔
قرآن یہاں ایک “میچور” (Mature) قانون پیش کرتا ہے۔
“مالک یوم الدین”۔
یعنی جزا اور سزا کا دن اس کے ہاتھ میں ہے اور وہاں ہر شخص “انفرادی طور پر ذمہ دار” (Individually Responsible) ہے۔
یہ انسان کو “بچہ” نہیں سمجھتا کہ کوئی اور اس کی غلطی سدھار دے، یہ انسان کو “بالغ” سمجھتا ہے کہ وہ اپنے بوجھ خود اٹھائے۔
یہ تصور انسان کے کردار (Character) کو مضبوط کرتا ہے۔ جب مجھے معلوم ہو کہ مجھے اپنی غلطی کا جواب خود دینا ہے، اور کوئی “شارٹ کٹ” نہیں ہے، تو میں گناہ سے بچوں گا۔
لیکن اگر مجھے یقین ہو کہ میرے گناہ پہلے ہی معاف ہو چکے ہیں (Advaced Booking)، تو شاید میں اخلاقی طور پر سست پڑ جاؤں۔
اللہ کا انصاف یہ ہے کہ وہ مالک ہے، وہ چاہے تو توبہ کے ایک آنسو پر معاف کر دے، اسے معاف کرنے کے لیے کسی معصوم (عیسیٰؑ) کا خون بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ خدا کی “خود مختاری” (Sovereignty) کی دلیل ہے۔
”إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ“
(ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔)
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی “آزادی” کا اعلان کرتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ “واسطوں” (Intermediaries) کا غلام رہا ہے۔
کبھی اس نے پادریوں کے سامنے سر جھکایا، کبھی پیروں فقیروں کے آگے۔ وہ سمجھتا تھا کہ خدا بہت دور ہے، اس تک پہنچنے کے لیے کسی “سیڑھی” کی ضرورت ہے۔
عیسائیت نے عیسیٰ علیہ السلام کو وہ سیڑھی، بلکہ وہ “دروازہ” بنا دیا اور کہا کہ
“باپ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا مگر بیٹے کے ذریعے۔”
لیکن “ایاک نعبد” نے اس پوری ہیرارکی (Hierarchy) کو توڑ دیا۔ اس نے کہا:
“نہیں! کنکشن ڈائریکٹ ہے۔”
اے انسان! تو اتنا معتبر ہے، تیری روح اتنی قیمتی ہے کہ تجھے خدا سے بات کرنے کے لیے کسی جبرائیل، کسی عیسیٰ، یا کسی ولی کی “پرمیشن” نہیں چاہیے۔ تو ڈائریکٹ اس سے مخاطب ہو سکتا ہے۔
میرے مسیحی دوستو!
ذرا سوچیے!
حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کس کی عبادت کرتے تھے؟
بائبل گواہ ہے کہ وہ باغِ زیتون میں پیشانی زمین پر رکھ کر سجدہ کرتے تھے۔
وہ صلیب پر (بقول آپ کے) کسے پکار رہے تھے؟
“ایلی ایلی” (اے میرے رب!)۔
اگر عیسیٰؑ خدا ہیں، تو کیا خدا خدا کی عبادت کر رہا تھا؟
یہ منطقی تضاد (Logical Fallacy) ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عیسیٰؑ ہماری ہی طرح، بلکہ ہم سے بہت بہتر انداز میں، اسی “ایک رب” کے پجاری تھے۔
جب ہم کہتے ہیں
“ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں”،
تو ہم دراصل “عیسیٰؑ کی سنت” پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اسی خدا کے آگے جھک رہے ہیں جس کے آگے مسیح جھکتے تھے۔
”اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ“
(ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے۔)
جیومیٹری (Geometry) کا ایک بنیادی اصول ہے:
“دو نقاط (Points) کے درمیان سیدھا راستہ (Straight Line) صرف ایک ہو سکتا ہے۔”
ٹیڑھے راستے ہزار ہو سکتے ہیں، مگر سیدھا راستہ ایک ہی ہوتا ہے۔
ہم خدا سے “صحت” یا “دولت” نہیں مانگ رہے، ہم “نیویگیشن” (Navigation) مانگ رہے ہیں۔
کیونکہ اس کائنات کے گھنیرے جنگل میں بھٹک جانا بہت آسان ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ سچائی “ملٹی پل” (Multiple) نہیں ہوتی، سچائی “واحد” (Singular) ہوتی ہے۔
”صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ“
(ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ ان کا جن پر غضب ہوا، اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔)
یہ آیت انسانی نفسیات اور مذہبی تاریخ کا نچوڑ ہے۔ یہاں تین گروہ بیان ہوئے ہیں۔
پہلا گروہ “انعام یافتہ”: یہ وہ انبیاء، صدیقین اور سچے پیروکار ہیں جنہوں نے توازن نہیں کھویا۔ جنہوں نے خالق کو خالق اور مخلوق کو مخلوق رکھا۔
دوسرا گروہ “مغضوب”: یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سچ کو پہچانا مگر “تکبر” (Arrogance) میں آ کر اسے رد کر دیا۔ (جیسے وہ علماء جنہوں نے عیسیٰؑ کو پہچاننے کے باوجود ان کا انکار کیا)۔
تیسرا گروہ “الضالین” (گمراہ): اور یہاں ایک بہت لطیف اشارہ ہے۔ گمراہ وہ ہوتا ہے جو چلتا تو منزل کی طرف ہے مگر راستہ بھٹک جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے “محبت میں غلو” (Excess in Love) کیا۔ یہ اشارہ واضح طور پر ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی شدید عقیدت کی کہ انہیں ان کے انسانی مقام سے اٹھا کر الوہیت (Divinity) کے تخت پر بٹھا دیا۔ ان کی نیت شاید بری نہیں تھی، مگر ان کا راستہ غلط تھا۔
قرآن یہاں نفرت نہیں سکھا رہا، بلکہ “کریکشن” (Correction) کر رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے:
“محبت کرو، مگر حد میں رہ کر۔ انسان کو خدا مت بناؤ۔”
یہاں تک تو بات تھی اس “الگورتھم” کی جو ہمارا خدا سے تعلق جوڑتا ہے۔
اب آئیے اس “سنگولیریٹی” (Singularity) کی طرف جو خدا کی “ذات” کی گہرائی بیان کرتی ہے۔
سورۃ الاخلاص کی یہ چار مختصر آیات دراصل “الہیات کی کوانٹم کیمسٹری” ہیں۔
”قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ“
(کہہ دیجیے! وہ اللہ ایک (یکتا/Unique) ہے۔)
یہاں الہیاتی ٹریک اور سائنسی ٹریک بالکل متوازی چلتے ہیں۔
عربی میں “واحد” (One) کا مطلب ہے ایک، جس کے بعد دو آتا ہے۔ لیکن “احد” (Absolute One) وہ ہے جو “ناقابلِ تقسیم” (Indivisible) ہو۔
اگر ہم تثلیث (Trinity) کے عقیدے کو دیکھیں تو وہ کہتا ہے:
“خدا ایک ہے مگر تین اقانیم (Father, Son, Holy Spirit) میں”۔
ریاضیاتی طور پر یہ 1=3 ہے۔
یہ ایک “مرکب” (Compound) وجود ہے۔
لیکن جدید فزکس ہمیں “سنگولیریٹی” کا تصور دیتی ہے۔ بگ بینگ سے پہلے کائنات ایک ایسے نقطے میں تھی جہاں “اسپیس اور ٹائم” الگ نہیں تھے، جہاں کوئی تقسیم نہیں تھی۔
خدا “احد” ہے۔ وہ “پیور” (Pure) ہے۔
اگر اس کے ٹکڑے ہو سکیں (معاذ اللہ)، یا اس کا کوئی بیٹا اس سے الگ ہو سکے، تو وہ “خدا” نہیں رہتا، وہ “مادہ” (Matter) بن جاتا ہے۔ کیونکہ مادہ تقسیم ہوتا ہے، نور تقسیم نہیں ہوتا۔
توحیدِ خالص یہ ہے کہ اس کی ذات میں کوئی ملاوٹ نہیں، کوئی پارٹیشن نہیں۔
”اللَّهُ الصَّمَدُ“
(اللہ بے نیاز ہے (سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں)۔)
“صمد” اس ٹھوس چٹان کو کہتے ہیں جو اندر سے بھری ہو، کھوکھلی نہ ہو، اور جسے کسی سہارے کی ضرورت نہ ہو۔
غور کیجیے!
کائنات کی ہر چیز، ہر ذرہ، ہر جاندار “ڈیپینڈنٹ” (محتاج) ہے۔
انرجی کا قانون (Thermodynamics) کہتا ہے کہ ہر سسٹم کو چلنے کے لیے باہر سے انرجی چاہیے۔
انسان کو خوراک چاہیے، زمین کو سورج چاہیے۔
یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی (جو بلاشبہ عظیم تھے) “صمد” نہیں تھے۔
انہیں ماں کے رحم کی ضرورت تھی، انہیں سانس لینے کے لیے ہوا کی ضرورت تھی، انہیں زندہ رہنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔
لیکن اللہ “انڈیپینڈنٹ” (Independent) ہے۔
اسے اپنی خدائی دکھانے کے لیے کسی “بیٹے” کی کمپنی نہیں چاہیے۔
اسے کائنات چلانے کے لیے کسی روح القدس کی مدد نہیں چاہیے۔
وہ ان سب کے بغیر بھی اتنا ہی خدا تھا جتنا ان کے ساتھ ہے۔
یہ آیت خدا کی “خود مختاری” (Self-Sufficiency) کا اعلان ہے۔ وہ سہارا دیتا ہے، لیتا نہیں۔
”لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ“
(نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔)
یہ آیت آج کی رات کا سب سے بڑا “فکری دھماکہ” ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں جذبات سے نکل کر خالص عقل کے میدان میں آنا ہوگا۔
میرے مسیحی بھائیو!
ذرا حیاتیات (Biology) کی عینک لگا کر دیکھیے۔
“پیدا ہونا” اور “اولاد جننا”۔۔۔ یہ کیا ہے؟
یہ ایک بائیولوجیکل مجبوری (Biological Necessity) ہے۔
ہم انسان اور جانور بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟
کیونکہ ہم “فانی” (Mortal) ہیں۔ ہم نے مر جانا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نام، ہمارا ڈی این اے ہماری اولاد کی صورت میں باقی رہے۔ اولاد ہماری “بقا” (Survival) کی جنگ ہے۔
لیکن وہ ذات جو “الحئی” اور “القیوم” (ہمیشہ زندہ رہنے والا) ہے، جسے کبھی موت نہیں آنی۔۔۔ اسے “بیٹے” کی کیا ضرورت؟
اسے کس بات کا ڈر ہے؟
بیٹا “وارث” ہوتا ہے۔ خدا کا وارث کون ہو سکتا ہے؟
اور پھر، بیٹا ہمیشہ “اپنی جنس” (Species) سے ہوتا ہے۔ انسان کا بیٹا انسان، شیر کا بیٹا شیر۔
اگر خدا کا بیٹا ہے (معاذ اللہ)، تو وہ بھی “خدا” ہوا۔
تو کیا کائنات میں دو خدا ہو گئے؟
اور اگر دو خدا ہیں تو پھر ان میں جھگڑا کیوں نہیں ہوتا؟
قرآن کہتا ہے: خدا کو “باپ” کہنا دراصل اس کی شان بڑھانا نہیں، بلکہ اسے گھٹا کر “ممالیہ جانوروں” (Mammals) کی سطح پر لانا ہے۔ یہ اس پاک ذات کی توہین ہے جو ان تمام جسمانی رشتوں سے ماورا ہے۔
وہ “خالق” (Creator) ہے۔
مصور اپنی تصویر سے محبت کرتا ہے، مگر تصویر کو “جنم” نہیں دیتا، اسے “تخلیق” کرتا ہے۔ مصور اور تصویر کی جنس الگ ہوتی ہے۔ ہم اللہ کے شاہکار ہیں، اس کے بچے نہیں۔ اور “شاہکار” ہونا “بچے” ہونے سے زیادہ بڑا اعزاز ہے، کیونکہ بچہ تو مجبوری میں بھی پیدا ہو سکتا ہے، شاہکار صرف “ارادے” اور “محبت” سے تخلیق ہوتا ہے۔
”وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ“
(اور نہ کوئی اس کا ہمسر (برابر) ہے۔)
یہ آخری مہر ہے۔
کائنات میں کوئی چیز، کوئی طاقت، کوئی ہستی اس کے “اسکیل” (Scale) پر پوری نہیں اترتی۔
نہ عیسیٰؑ، نہ موسیٰؑ، نہ محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نہ فرشتے۔
یہ سب اس کے سامنے عاجز بندے ہیں۔
اگر ہم عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا مان لیں، تو ہم نے انہیں خدا کے برابر لا کھڑا کیا۔ اور جس لمحے ہم نے کسی مخلوق کو خالق کے برابر کیا، ہم نے کائنات کے توازن کو بگاڑ دیا۔
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ
“عظمت” (Greatness) صرف اس اکیلی ذات کے لیے ہے جو کسی کی ہمسر نہیں۔
میرے عزیز دوستو!
آج کی یہ سرد رات ہمیں ایک بہت گرم حقیقت کی طرف بلا رہی ہے۔
یہ جو قرآن کا پیغام ہے، یہ کسی کی تحقیر نہیں ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کا مقام چھیننا نہیں ہے، بلکہ انہیں ان کا “حقیقی مقام” واپس دلانا ہے۔
عیسائیت نے محبت میں آ کر انہیں “خدا” بنا دیا، اور جب آپ کسی انسان کو خدا بنا دیں، تو یہ اس کی عزت نہیں، اس پر بوجھ ہے۔
اسلام نے انہیں “عبداللہ” (اللہ کا بندہ) اور “کلمۃ اللہ” کہا۔ یہ مقام کم نہیں ہے، یہ انسانیت کی معراج ہے۔
آج کی رات، جب آپ کرسمس کی روشنیاں دیکھیں، تو اپنے دل میں ایک دیا اس “سچائی” کا بھی جلائیں۔
سوچیے!
کیا وہ خدا زیادہ عظیم نہیں جو اکیلا ہے، جو بے نیاز ہے، جو نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا، اور جو پوری کائنات کو تن تنہا سنبھالے ہوئے ہے؟
میں آپ کو کسی اجنبی مذہب کی طرف نہیں بلا رہا۔ میں آپ کو عیسیٰ علیہ السلام کے “اپنے مذہب” کی طرف بلا رہا ہوں۔
وہ مذہب جو انہوں نے پہاڑی کے وعظ میں سکھایا تھا۔ وہ مذہب جس میں انہوں نے پیشانی زمین پر رکھ کر اس “ایک خدا” کو پکارا تھا۔
یہ دعوت ہے اپنی “فطرت” کی طرف لوٹ آنے کی۔
وہ فطرت جو جانتی ہے کہ اس کائنات کے جہاز کا کپتان صرف ایک ہے۔
“لا الہ الا اللہ”
(نہیں ہے کوئی معبود، کوئی سہارا، کوئی امید۔۔۔ سوائے اس ایک اللہ کے)۔
اگر آج آپ کے دل میں اس “ایک” کی محبت جاگ اٹھے، تو یقین جانیے، آپ کی یہ رات، اور آپ کی پوری ابدیت روشن ہو جائے گی۔
اللہ ہم سب کو اس “صراطِ مستقیم” پر چلنے کی توفیق دے جو ہمیں سیدھا اس کی بارگاہ میں لے جائے۔ آمین۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

