Daily Roshni News

بلیک ہول خلا کو گھسیٹتے ہیں

بلیک ہول خلا کو گھسیٹتے ہیں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کائنات میں کہیں بہت دور ایک ایسا منظر پیش آ رہا ہے جسے انسان نے ایک صدی پہلے صرف تخیل میں ہی ثابت کیا تھا۔ ایک بلیک ہول خاموشی سے گیس نگل رہا ہے مگر اس عمل میں وہ صرف مادہ ہی نہیں کھینچ رہا بلکہ خود خلا اور وقت کو بھی اپنے ساتھ موڑ رہا ہے۔ سائنس دان پہلی بار اس عمل کو براہ راست دیکھ چکے ہیں اور یہ منظر اتنا واضح ہے کہ اس نے آئن اسٹائن کے نظریے کو نئے اعتماد کے ساتھ زندہ کر دیا ہے۔

بلیک ہول کو عام طور پر ایک انتہائی گہرا گڑھا سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ خلا میں موجود ایسا خطہ ہے جہاں کششِ ثقل حد سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے اور جب کوئی بلیک ہول تیزی سے گھوم رہا ہو تو اس کی شدید کششِ ثقل صرف چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی بلکہ اپنے گرد موجود خلا اور وقت کو بھی گھمانے لگتی ہے۔ خلا اور وقت کو ہم عام طور پر ساکن اور غیر متحرک سمجھتے ہیں مگر آئن اسٹائن کے مطابق یہ دونوں ایک لچکدار چادر یا فیبرک کی طرح ہیں جو کمیت کے اثر سے مڑ سکتے ہیں۔

اسی اثر کو فریم ڈریگنگ کہا جاتا ہے اور اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نہایت بھاری اور تیزی سے گھومنے والی شے موجود ہو تو وہ اپنے قریب موجود خلا کو بھی گھسیٹنے لگتی ہے۔ جیسے پانی میں گھومتی ہوئی کسی بڑے سے بھنور کے آس پاس کا پانی خود بخود گھومنے لگتا ہے۔ بالکل ایسے ہی بلیک ہول کے قریب موجود گیس اور روشنی غیر معمولی راستوں پر خم کھانے لگتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں پانی نہیں بلکہ خلا اور وقت خود حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں فریم ڈریگنگ کا سب سے واضح اور براہ راست مشاہدہ ایک خاص فلکیاتی واقعے کے دوران سامنے آیا جسے ٹائیڈل ڈسرپشن ایونٹ یا AT2020afhd کہا جاتا ہے۔ اس واقعے میں ایک تیزی سے گھومتے عظیم الجثہ بلیک ہول نے ایک ستارے کو چیر کر اس کا ملبہ نگلنا شروع کیا اور اسی عمل کے دوران سائنس دانوں نے دیکھا کہ خلا اور وقت واقعی مڑ رہے ہیں۔ ایکس رے اور ریڈیو شعاعوں میں آنے والی باقاعدہ اور ہم آہنگ تبدیلیوں سے پتا چلا کہ بلیک ہول کے گرد موجود گیس کی قرص اور اس سے نکلنے والی توانائی کی دھاریں ایک ساتھ ڈول رہی ہیں۔ یہ حرکت دراصل لینسے تھرنگ پریسیشن کی علامت ہے اور یہ وہی اثر ہے جس کی پیش گوئی آئن اسٹائن نے عمومی اضافیت میں کی تھی۔ اس تحقیق کو سائنسی جریدے سائنس ایڈوانسز Science Advances میں شائع کیا گیا اور اسے اب تک کا سب سے مضبوط ثبوت سمجھا جا رہا ہے کہ گھومتا ہوا بلیک ہول اپنے اردگرد خلا اور وقت کو واقعی اپنے ساتھ گھسیٹ سکتا ہے۔

گویا سائنس دانوں نے ایک تیزی سے گھومتے بلیک ہول کے گرد روشنی اور مادے کے ان بگڑے ہوئے راستوں کو نہایت باریکی سے ناپا، وقت کے ساتھ ان کی حرکت میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا گیا اور پھر ان کا موازنہ آئن اسٹائن کی مساوات سے کیا گیا اور نتیجہ حیران کن تھا کیونکہ مشاہدہ تقریباً مکمل طور پر نظریے سے میل کھا رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلا اور وقت محض تخیلاتی پس منظر نہیں رکھتے بلکہ شدید کششِ ثقل کے سامنے نہایت واضح اور فعال کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ دریافت اس لیے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ یہ کسی کمپیوٹر سمیولیشن یا بالواسطہ اندازے پر مبنی نہیں بلکہ یہ ایک براہ راست مشاہدہ تھا جو دور دراز خلا میں وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ سائنس دانوں نے دیگر تمام ممکنہ وضاحتوں کو جانچ کر مسترد کیا اور آخرکار یہی نتیجہ سامنے آیا کہ خلا واقعی بلیک ہول کے ساتھ گھوم رہا ہے جیسا کہ ایک صدی پہلے پیش گوئی کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ کائنات میں موجود تمام بلیک ہول مادے اور خلا کو ایک ہی انداز میں نہیں گھسیٹتے کیونکہ اس کا دارومدار ان کی کمیت اور گردش پر ہوتا ہے۔ وہ بلیک ہول جو گھوم نہیں رہے یا بہت آہستہ گھوم رہے ہیں، صرف اپنی کششِ ثقل کے ذریعے مادے کو نسبتاً سیدھی سمت میں اپنی طرف کھینچتے ہیں اور صورت میں فریم ڈریگنگ نہ ہونے کے برابر ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وہ بلیک ہول جو تیزی سے گھومتے ہیں انہیں گھومنے والے یا اسپن رکھنے والے بلیک ہول کہا جاتا ہے اور ایسے بلیک ہول اپنے اردگرد خلا اور وقت کو بھی حرکت میں لے آتے ہیں۔ اس قسم کے بلیک ہولز کے قریب موجود گیس اور مادہ صرف اندر کی طرف نہیں گرتے بلکہ ان کے گرد مڑے ہوئے اور گھومتے ہوئے راستوں پر بھی چلنے لگتے ہیں اور اسی وجہ سے فریم ڈریگنگ کا نمایاں اثر صرف اُن بلیک ہول کے آس پاس دیکھا جا سکتا ہے جو بہت زیادہ کمیت رکھتے ہیں اور تیز رفتاری سے گردش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ نسبتاً پر سکون یا ساکن بلیک ہول اس اثر کا واضح مظاہرہ نہیں کرتے۔

کائنات میں فریم ڈریگنگ صرف بلیک ہول تک محدود نہیں بلکہ اصولی طور پر ہر گھومنے والی کمیت خلا اور وقت کو معمولی حد تک اپنے ساتھ گھسیٹتی ہے۔ سورج بھی اپنی گردش کی وجہ سے اپنے قریب موجود خلا پر نہایت کمزور سا اثر ڈالتا ہے اور حتیٰ کہ زمین اور دوسرے سیارے بھی یہی کام کرتے ہیں مگر ان کی کمیت اور رفتار اتنی زیادہ نہیں کہ یہ اثر آسانی سے مشاہدے میں آ سکے بلکہ اسے ناپنے کے لیے انتہائی حساس آلات درکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بلیک ہول کی بے پناہ کمیت اور تیز گردش خلا اور وقت کو اس شدت سے مروڑ دیتی ہے کہ اس کا اثر دور دراز خلا سے بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور اسی فرق کی وجہ سے فریم ڈریگنگ بلیک ہول کے قریب ایک نمایاں اور قابلِ مشاہدہ حقیقت بن جاتی ہے۔

فریم ڈریگنگ کے کامیابی کے ساتھ مشاہدے کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے جو علم فلکیات کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بلیک ہول وہ جگہ ہیں جہاں کششِ ثقل اور کوانٹم طبیعیات کو ایک دوسرے سے ملنا چاہیے تھا لیکن اب تک یہ دونوں نظریات الگ الگ ہی کامیاب رہے ہیں اور یوں انتہائی حالات میں کائنات کی ایک مکمل تصویر ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔ چنانچہ ہر ایسی درست پیش گوئی جو مشاہدے سے ثابت ہوتی ہو، ہمیں اس حتمی اور متحدہ نظریے کے قریب لے جاتی ہے جو ہمیں شدید حالات میں قوانین قدرت کے طرز عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل بنائے گا۔

طبیعیات دانوں کے لیے یہ لمحہ محض ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ فکری اور جذباتی فتح بھی ہے کہ ایک ایسا نظریہ جو ایک صدی پہلے ایک انسان نے صرف کاغذ پر نقش کیا تھا، آج جدید آلات کے سامنے مشاہداتی طور پر بھی ثابت بھی ہو رہا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انسانی عقل اور تجسس وقت کی رکاوٹوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں اور جیسے جیسے ہماری آنکھیں کائنات کو بہتر انداز میں دیکھنے لگیں گی، یہ خاموش بلیک ہول ہمیں ایسے پوشیدہ راز دکھاتے رہیں گے جو کبھی صرف تخیل میں ہی سوچے جا سکتے تھے۔

(ڈاکٹر احمد نعیم)

Loading