Daily Roshni News

*مریخ پر وقت تیز چلتا ہے*

*مریخ پر وقت تیز چلتا ہے*

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)آپ نے یہ بات تو اکثر سنی ہو گی کہ اگر آپ مریخ پر ہوتے تو آپ کا وزن کم ہوتا کیونکہ وہاں کششِ ثقل زمین کے مقابلے میں کمزور ہے مگر ایک بات آپ نے شاید کبھی نہ سنی ہو کہ اگر آپ مریخ پر ہوتے تو آپ ذرا جلدی بوڑھے بھی ہو رہے ہوتے۔ یہ بات سننے میں عجیب لگتی ہے کیونکہ ہم عموماً عمر کے بڑھنے کو دنوں یا مہینوں اور سالوں کے گزرنے سے جوڑتے ہیں لیکن اصل حقیقت اس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔

نظامِ شمسی میں مریخ کا ایک سال زمین کے تقریباً ایک اعشاریہ آٹھ سال کے برابر ہوتا ہے یعنی مریخ کو سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں زمین کے مقابلے میں تقریباً دوگنا وقت لگتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مریخ پر وقت سست ہو جاتا ہے۔ سال دراصل وقت ناپنے کا ایک پیمانہ ہے اور یہ کائنات میں وقت کی رفتار کو ظاہر نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص زمین پر ساٹھ سال میں بوڑھا ہوتا ہے تو وہ مریخ پر بھی اتنا ہی بوڑھا ہو گا چاہے کیلنڈر پر مریخی سالوں کی گنتی کم ہی کیوں نہ ہو۔ سادہ اعدادوشمار سے ظاہر کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک انسان زمین پر 60 سال کی عمر میں بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہی انسان مریخ پر تقریباً 32 سال کی عمر میں اتنا ہی بوڑھا ہو جائے گا۔ عمر جسم کے اندر چلنے والے حیاتیاتی عمل سے جڑی ہوتی ہے اور حیاتیاتی افعال کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سورج کے گرد کتنے چکر لگے یا کیلنڈر پر کتنے صفحے پلٹے گئے۔

اس سے آگے چلیں تو وقت کا ایک اور تصور بھی سامنے آتا ہے جو ہماری عمومی سوچ سے باہر ہے۔ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق وقت ہر جگہ ایک جیسا نہیں چلتا بلکہ جہاں کششِ ثقل طاقتور ہوتی ہے وہاں وقت سست ہو جاتا ہے اور جہاں کششِ ثقل کمزور ہو وہاں وقت نسبتاً تیز چلتا ہے۔ یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں بلکہ حساس گھڑیوں سے ناپا جانے والا حقیقی فرق ہے۔

مریخ کی کمیت زمین کے مقابلے میں بہت کم ہے اور اسی لیے اس کی سطحی کششِ ثقل بھی کہیں کمزور ہے۔ اس کمزور کششِ ثقل میں خلاء اور وقت کا خم زمین کے مقابلے میں کم بنتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مریخ کی سطح پر رکھی ہوئی گھڑیاں زمین کی گھڑیوں کے مقابلے میں تھوڑا سا تیز چلتی ہیں۔ ریاضیاتی حساب کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مریخ پر رکھی گھڑی زمین پر موجود گھڑی کے مقابلے میں ایک دن میں اوسطاً تقریباً 477 مائیکرو سیکنڈ آگے ہو جاتی ہے۔ اگرچہ سننے میں یہ فرق بہت ہی معمولی ہے مگر حقیقت میں موجود ہے۔

اگر زمین اور مریخ کو ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ زمین مریخ کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ کمیت رکھتی ہے اور اسی لیے اس کی کششِ ثقل بھی کہیں زیادہ مضبوط ہے جبکہ مریخ کی کم کمیت کی وجہ سے اس کی سطحی کششِ ثقل زمین سے تقریباً تین گنا کم ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور نسبتاً کم موثر پہلو یہ ہے کہ زمین اپنے مدار میں مریخ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے اور نظریہ اضافیت کے مطابق زیادہ رفتار بھی وقت کو معمولی سا سست کرتی ہے۔ یوں مریخ پر وقت دو وجوہ سے زمین سے آگے نکلتا ہے جن میں ایک کمزور کششِ ثقل اور دوسری نسبتاً سست مداری رفتار شامل ہیں۔ اگرچہ یہ فرق روزمرہ زندگی میں محسوس کئے جانے کے قابل نہیں لیکن انتہائی حساس ایٹمی گھڑیاں اس فرق کو ایک کائناتی حقیقت کے طور پر ظاہر کر سکتی ہیں۔

گویا زمین پر ایک سیکنڈ اور مریخ پر ایک سیکنڈ بالکل ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ مریخ کا ایک سیکنڈ زمین کے سیکنڈ کے مقابلے میں ذرا سا چھوٹا ہے۔ یہ فرق ایک انسان کے لیے بے معنی ہو سکتا ہے مگر خلائی جہازوں کے سفر کے دوران درست رہنمائی اور سگنلز کی مناسب ہم آہنگی جیسے عوامل سمیت دونوں پڑوسی سیاروں کے درمیان درست فاصلوں کے حساب کتاب میں بھی یہ معمولی سا فرق فیصلہ کن بن جاتا ہے۔

اگر اس تصور کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھیں تو بات مزید دلچسپ ہو جاتی ہے۔ مریخ پر رہنے والا انسان کیلنڈر کے لحاظ سے شاید کم سالوں میں اپنی زندگی گزار کر جلدی بوڑھا ہو جائے گا مگر طبیعیات کی نظر میں اس کی گھڑی ہر دن زمین کی گھڑی سے ذرا آگے نکل رہی ہو گی۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ مریخ پر آپ ہلکے بھی ہوں گے اور بظاہر کم سالوں میں زیادہ بوڑھے بھی دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی ساتھ وہاں وقت بھی تھوڑا تیز بہہ رہا ہو گا۔

کائنات ہمیں بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ وقت کوئی جامد چیز نہیں بلکہ ایک لچکدار حقیقت ہے جو کمیت اور کششِ ثقل کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور مستقبل میں جب انسان مریخ پر باقاعدہ بستیاں بسائے گا تو اسے یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کائنات میں سفر کے ذریعے ہم صرف سیارے ہی نہیں بدل رہے بلکہ ایک ایسے راستے پر قدم رکھ رہے ہیں جہاں وقت کی رفتار کے فرق کو نظر انداز نہیں کیا

Loading