Daily Roshni News

سورۃ النصر:      (حصہ اوّل)

سورۃ النصر:      (حصہ اوّل)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تعارف، نزول اور تاریخی، فکری و روحانی پس منظر

قرآنِ مجید کی بعض سورتیں حجم میں مختصر مگر معنی میں سمندر ہوتی ہیں۔ سورۃ النصر ان ہی میں سے ایک نہیں بلکہ اپنی نوعیت کی منفرد ترین سورۃ ہے۔ یہ صرف ایک تاریخی اعلان نہیں، نہ محض فتح کی بشارت ہے، اور نہ ہی وقتی کامیابی کا بیان؛ بلکہ یہ وحیِ الٰہی کی زبان میں **نبوی مشن کے اختتام، دعوت کی تکمیل، اور امت کی ذمہ داریوں کے تعین** کا نہایت سنجیدہ اور باوقار اعلان ہے۔ اس سورۃ کو اگر سطحی انداز میں پڑھا جائے تو یہ محض خوش خبری محسوس ہوتی ہے، مگر اگر اسے نزول کے ماحول، نبی کریم ﷺ کی باطنی کیفیت، اور صحابہؓ کی فہم کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ قرآن کی سب سے پراثر اور لرزا دینے والی سورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ حصہ اوّل اسی گہرے فہم کی بنیاد فراہم کرتا ہے، تاکہ آگے آنے والی تفسیری تحلیل محض الفاظ کی شرح نہ ہو بلکہ ایک مکمل فکری سفر بن جائے۔

1۔ سورۃ کا جامع تعارف

(الف) نام: “النصر” — محض مدد نہیں، فیصلہ کن مداخلت

عربی زبان میں “نصر” اس مدد کو کہتے ہیں جو کمزوری، انتظار اور طویل جدوجہد کے بعد ایسے وقت آئے کہ حالات کا دھارا بدل جائے۔ قرآن میں جہاں بھی “نصر” کا لفظ آیا ہے، وہاں انسانی قوت، تعداد یا حکمتِ عملی ثانوی حیثیت رکھتی ہے، اور اصل فاعل صرف اللہ ہوتا ہے۔

سورۃ النصر کا نام ہی اس بات کا اعلان ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ انسانی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ براہِ راست ربّانی فیصلہ ہے۔ اس نام میں یہ پیغام مضمر ہے کہ جب نصر آتی ہے تو انسان کا کام صرف جھک جانا رہ جاتا ہے۔

(ب) قرآن میں مقام اور ترتیب کی حکمت

یہ سورۃ قرآنِ مجید میں ۱۱۰ویں نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے سورۃ الکافرون اور اس کے بعد سورۃ المسد ہے۔ یہ ترتیب محض عددی نہیں بلکہ معنوی ربط رکھتی ہے:

* سورۃ الکافرون: حق و باطل کے درمیان حتمی اعلانِ براءت

* سورۃ النصر: حق کے غلبے اور دعوت کی تکمیل کا اعلان

* سورۃ المسد: باطل پر اصرار کرنے والوں کے انجام کی تصویر

یوں سورۃ النصر قرآن کے دعوتی بیانیے میں **فیصلہ کن موڑ** کی حیثیت رکھتی ہے۔

(ج) تین آیات — مگر ایک مکمل عہد کا اختتام

یہ سورۃ صرف تین آیات پر مشتمل ہے، لیکن یہ تین آیات کم و بیش تئیس سالہ نبوی جدوجہد کا نچوڑ ہیں۔ قرآن کا یہ اسلوب بار بار سامنے آتا ہے کہ عظیم حقائق کو مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا جائے، تاکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کیا جا سکے، نہ کہ محض پڑھنے پر۔

2۔ مکی یا مدنی؟ بحث، قرائن اور راجح مؤقف

اگرچہ بعض اقوال میں سورۃ النصر کے مکی ہونے کا ذکر ملتا ہے، مگر جمہور مفسرین، محدثین اور مؤرخین کے نزدیک یہ **مدنی سورۃ** ہے۔ اس رائے کے حق میں متعدد مضبوط قرائن موجود ہیں:

  1. سورۃ میں اجتماعی طور پر لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کا ذکر ہے، جو مکی دور میں ممکن نہ تھا۔

  2. اس کا تعلق فتح کے بعد کے حالات سے ہے، جبکہ مکی دور جدوجہد اور مظلومیت کا دور تھا۔

  3. اس کا اسلوب مکی سورتوں کی شدت اور استدلال سے مختلف، اور مدنی سورتوں کی سنجیدگی سے قریب تر ہے۔

یہ مدنی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سورۃ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نازل ہوئی، مگر اس کے باوجود اس میں ریاستی فخر یا سیاسی غلبے کا کوئی ذکر نہیں۔

3۔ نزول کا تاریخی پس منظر: فتح کے بعد کی خاموشی

(الف) فتحِ مکہ: ظاہری کامیابی، باطنی امتحان

فتحِ مکہ وہ مرحلہ تھا جس کے بعد عرب میں اسلام کی حقانیت پر کوئی عملی اعتراض باقی نہ رہا۔ وہ شہر جہاں سے نبی کریم ﷺ کو نکالا گیا، وہی شہر آپ ﷺ کے قدموں میں تھا۔ مگر قرآن نے اس فتح کو جشن، نعروں یا فخر کے ساتھ بیان نہیں کیا۔

یہاں سورۃ النصر نازل ہوئی، جس نے فتح کو ایک **آزمائش** بنا دیا۔

(ب) قبائلی عرب کا نفسیاتی بدلاؤ

عرب قبائل برسوں یہ دیکھتے رہے کہ قریش اور محمد ﷺ کے درمیان کشمکش کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ فتحِ مکہ کے بعد یہ کشمکش ختم ہو گئی۔ اب لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔

یہ قبولیت محض خوف یا مفاد کی بنیاد پر نہ تھی، بلکہ ایک اجتماعی فکری تبدیلی تھی، جسے قرآن نے نہایت وقار سے بیان کیا۔

4۔ نبی کریم ﷺ کی باطنی کیفیت: خوشی نہیں، جھکاؤ

یہاں سورۃ النصر کی اصل روح سامنے آتی ہے۔ عام انسانی نفسیات کے برعکس، نبی کریم ﷺ کے اندر اس سورۃ کے نزول کے بعد:

* شکر کے ساتھ گہری سنجیدگی پیدا ہو گئی

* استغفار کی کثرت ہو گئی

* عبادت میں جھکاؤ اور خشوع بڑھ گیا

یہ سب اس بات کا عملی ثبوت تھا کہ یہ سورۃ دراصل **اختتامِ ذمہ داری** کا اعلان ہے۔

5۔ صحابہؓ کی فہم: فتح یا وداع؟

حضرت عمرؓ کے دربار میں سورۃ النصر پر ہونے والی گفتگو تاریخِ تفسیر کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ جب نوجوان صحابہؓ نے اسے فتح کی بشارت کہا تو حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ یہ رسول ﷺ کے دنیاوی مشن کے اختتام کا اعلان ہے۔

حضرت عمرؓ نے اس رائے کی تصدیق کی۔ یہ فہم ہمیں بتاتی ہے کہ سورۃ النصر کو محض خوش خبری سمجھنا صحابہؓ کے فہم کے خلاف ہے۔

6۔ سورۃ النصر اور نبوی مشن کا خلاصہ

اگر پورے نبوی سفر کو ایک نظر میں دیکھا جائے تو سورۃ النصر اس کا نچوڑ ہے:

* طویل صبر * شدید مخالفت * ہجرت * مددِ الٰہی * قبولیتِ عامہ * پھر عاجزی اور استغفار    یہ ترتیب ہمیں سکھاتی ہے کہ اسلامی کامیابی کا اختتام ہمیشہ **جھکنے پر** ہوتا ہے۔

7۔ فکری و روحانی پہلو: کامیابی کے بعد اصل امتحان

دنیا کی تحریکیں فتح کے بعد طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں، مگر قرآن فتح کے بعد انسان کو اللہ کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ یہی سورۃ النصر کا انقلابی پہلو ہے۔

یہ سورۃ ہمیں بتاتی ہے کہ: * کامیابی مقصد نہیں، ذمہ داری ہے * غلبہ انجام نہیں، آغازِ محاسبہ ہے * اصل فتح وہ ہے جو انسان کو غرور سے بچا لے

حصہ اوّل کا جامع خلاصہ

یہ حصہ واضح کرتا ہے کہ سورۃ النصر:

* محض فتحِ مکہ کی خبر نہیں

* نبوی مشن کے اختتام کا باوقار اعلان ہے

* امت کو عاجزی، تسبیح اور استغفار کا راستہ دکھاتی ہے

یہی بنیاد اگلے حصے میں آیات کی تفسیری تحلیل کو معنوی گہرائی عطا کرے گی، جہاں ہر آیت کو اس تاریخی، فکری اور روحانی پس منظر میں کھول کر بیان کیا جائے گا۔

(حصہ دوم)   سورۃ النصر:

آیات کی تفسیری تحلیل — معنوی تدریج، فکری ربط اور روحانی اشارے

سورۃ النصر کا اصل حسن اس کی آیات کے باہمی ربط اور تدریجی پیغام میں پوشیدہ ہے۔ یہ سورۃ محض تین آیات پر مشتمل ہونے کے باوجود قرآنِ مجید کے دعوتی، فکری اور روحانی نظام کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔ اگر اسے سرسری طور پر پڑھا جائے تو یہ فتح کی خوش خبری محسوس ہوتی ہے، مگر جب آیات کو ان کے ترتیب وار نزول، لفظی انتخاب، اور پس منظر کے ساتھ دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ سورۃ دراصل **اوج کے لمحے میں احتساب، کامیابی کے مقام پر عاجزی، اور غلبے کے بعد بندگی** کا اعلان ہے۔

یہ حصہ دوم سورۃ النصر کی آیات کو الگ الگ نہیں بلکہ ایک مسلسل اور مربوط پیغام کے طور پر کھولتا ہے، تاکہ قاری یہ سمجھ سکے کہ قرآن فتح کے لمحے میں انسان کو کہاں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔

تمہیدی نکتہ: آیات کی ترتیب کیوں اہم ہے؟

قرآن کی ہر سورۃ میں آیات کی ترتیب وحیِ الٰہی کے تحت ہے۔ سورۃ النصر میں یہ ترتیب غیر معمولی معنوی وزن رکھتی ہے:

  1. پہلے مدد اور فتح کا اعلان

  2. پھر اس فتح کا ظاہری نتیجہ (لوگوں کا اسلام میں داخل ہونا)

  3. آخر میں بندے کے لیے حکم (تسبیح اور استغفار)

یہ ترتیب واضح کرتی ہے کہ کامیابی کے تین مراحل ہوتے ہیں: **عطاء، ظہور، اور جواب دہی**۔

آیت اوّل: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ

1۔ “إِذَا” — وقت کا تعین نہیں، یقین کا اعلان

آیت کا آغاز “إِذَا” سے ہوتا ہے، جو عربی زبان میں مستقبل کے کسی یقینی واقعے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں نہ “اِنْ” ہے اور نہ کوئی شرطی شک، بلکہ قطعی یقین ہے کہ یہ واقعہ ہو کر رہے گا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ: * مدد کا آنا مشکوک نہیں * تاخیر ناکامی نہیں * وقت اللَّهِ  کے اختیار میں ہے دعوتِ نبوی کے طویل اور کٹھن مراحل کے بعد یہ لفظ اہلِ ایمان کے دلوں میں یقین کو مضبوط کرتا ہے۔

2۔ “نَصْرُ اللَّهِ” — مدد کی نسبت

یہاں “نصر” کو براہِ راست اللَّهِ  کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس میں کئی فکری پہلو پوشیدہ ہیں: * فتح انسانی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں * تعداد، طاقت اور حکمتِ عملی اصل سبب نہیں یہ نسبت انسان کو غرور سے بچاتی ہے، کیونکہ جس کامیابی کا مالک وہ خود نہ ہو، اس پر فخر کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

3۔ “وَالْفَتْحُ” — بند دروازوں کا کھل جانا

“فتح” کا لفظ عربی میں بند چیز کے کھلنے کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ محض مکہ کی فتح نہیں بلکہ:  * دلوں کے بند دروازوں کا کھلنا * دعوت کے راستوں کا ہموار ہونا * حق کے لیے ماحول کا سازگار بن جانا   اس لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ اصل فتح زمین نہیں، دل ہوتے ہیں۔

آیت اوّل کا مجموعی پیغام

پہلی آیت میں انسان کو یہ سکھایا گیا ہے کہ: * کامیابی کا وقت اللہ مقرر کرتا ہے * مدد کا منبع صرف وہی ہے * فتح کا تصور مادی دائرے سے کہیں وسیع ہے یہ آیت دراصل انسان کی نیت اور نظریے کو درست کرتی ہے، تاکہ آگے آنے والی کامیابی اسے گمراہ نہ کر دے۔

آیت دوم:     وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا

1۔ “وَرَأَيْتَ” — مشاہدہ، خبر نہیں

یہاں “کہا جائے گا” یا “بتایا جائے گا” نہیں بلکہ “تم دیکھو گے” کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبولیت کوئی افواہ یا نظری بات نہیں بلکہ ایک نمایاں اور واضح حقیقت ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں وہ منظر دیکھا جس کا خواب مکی دور میں محض ایمان کا سہارا تھا۔

2۔ “النَّاسَ” — صرف عرب نہیں، انسان

یہاں “قوم”، “قبائل” یا “عرب” نہیں بلکہ “الناس” کہا گیا ہے۔ یہ لفظ سورۃ النصر کے پیغام کو عالمگیر بنا دیتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ: * اسلام کسی نسل یا خطے تک محدود نہیں * فتحِ مکہ محض علاقائی واقعہ نہیں * دعوت کا دائرہ پوری انسانیت ہے

3۔ “يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ” — جبر نہیں، داخل ہونا

یہاں لفظ “داخل ہونا” استعمال ہوا ہے، جو رضا، شعور اور قبولیت کی علامت ہے۔ اس میں زبردستی، خوف یا دباؤ کا کوئی تصور نہیں۔ یہ آیت اس قرآنی اصول کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ دین کی اصل قوت اخلاق، دلیل اور کردار میں ہے، نہ کہ طاقت میں۔

4۔ “أَفْوَاجًا” — انفرادی نہیں، اجتماعی تبدیلی

“افواجاً” کا مطلب ہے گروہ در گروہ، فوج در فوج۔ یہ لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قبولیت محض چند افراد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تبدیلی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اجتماعی قبولیت ہمیشہ فرد کی اصلاح کے بعد آتی ہے۔ سورۃ النصر ہمیں بتاتی ہے کہ: * طویل صبر کے بعد معاشرہ بدلتا ہے * حق آہستہ آہستہ غالب آتا ہے * اصل انقلاب خاموش ہوتا ہے

آیت دوم کا مجموعی پیغام

دوسری آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ: * دعوت کی کامیابی کا معیار عددی نہیں بلکہ معنوی ہے * قبولیت کی بنیاد جبر نہیں بلکہ شعور ہے * اجتماعی تبدیلی اللہ کے دین سے وابستہ ہو کر آتی ہے یہ آیت پہلی آیت میں بیان کی گئی مدد کا عملی ظہور دکھاتی ہے۔

آیت سوم:     فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

1۔ “فَسَبِّحْ” — نتیجہ نہیں، ردِ عمل

یہاں “پس” کا لفظ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ حکم پہلی دو آیات کا منطقی نتیجہ ہے۔ یعنی جب مدد آ جائے اور لوگ دین میں داخل ہوں تو بندے کا ردِ عمل کیا ہو؟

جواب ہے: تسبیح۔ یہ تسبیح فتح پر جشن نہیں بلکہ اپنی کمی اور ربّ کی عظمت کا اعتراف ہے۔

2۔ “بِحَمْدِ رَبِّكَ” — شکر اور پاکیزگی کا امتزاج

حمد میں شکر بھی ہے اور تعریف بھی۔ یہاں تسبیح کو حمد کے ساتھ جوڑ کر بتایا گیا کہ: * کامیابی پر شکر لازم ہے * مگر شکر کے ساتھ عاجزی بھی ضروری ہے یہ امتزاج انسان کو غرور سے محفوظ رکھتا ہے۔

3۔ “وَاسْتَغْفِرْهُ” — اوج پر بھی توبہ

یہ حکم سورۃ النصر کا سب سے انقلابی پہلو ہے۔ فتح، قبولیت اور غلبے کے بعد استغفار کا حکم بتاتا ہے کہ: * انسان کبھی کامل نہیں * کامیابی کے بعد بھی لغزش کا امکان رہتا   ہے * اصل حفاظت توبہ میں ہے

4۔ “إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا” — امید کا دروازہ

آیت کا اختتام اللہ کی صفتِ توّاب پر ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ: * بندہ اگر جھکے تو قبولیت یقینی ہے * توبہ کمزوری نہیں بلکہ کمال ہے

آیت سوم کا مجموعی پیغام

تیسری آیت انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ: * کامیابی کے بعد سب سے بڑا عمل عبادت ہے

* فتح کے بعد اصل کام محاسبہ ہے * ربّ کی طرف رجوع ہی حقیقی حفاظت ہے یہ آیت پوری سورۃ کا اخلاقی اور روحانی نتیجہ ہے۔

آیات کا باہمی ربط: ایک مکمل فکری سفر

سورۃ النصر کی تینوں آیات مل کر ایک مکمل دعوتی اور روحانی سفر پیش کرتی ہیں:

  1. مدد اور فتح — عطا

  2. قبولیت اور غلبہ — ظہور

  3. تسبیح اور استغفار — جواب دہی

یہ ترتیب انسان کو اوج پر پہنچا کر واپس بندگی میں لے آتی ہے۔

حصہ دوم کا جامع خلاصہ

اس حصے میں ہم نے دیکھا کہ سورۃ النصر:

* فتح کو غرور نہیں بننے دیتی

* کامیابی کو احتساب میں بدل دیتی ہے

* بندے کو اوج پر بھی جھکنا سکھاتی ہے

یہی وہ پیغام ہے جو سورۃ النصر کو محض تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ہر زمانے کے لیے زندہ ہدایت بناتا ہے۔ اگلے حصے میں ہم نبی کریم ﷺ کے عملی اسوہ اور امتِ مسلمہ کے لیے سورۃ النصر کی روشنی میں واضح رہنمائی پیش کریں گے، تاکہ یہ سورۃ کتاب سے نکل کر زندگی کا حصہ بن سکے۔

(حصہ سوم)   نبوی اسوہ، امت کی اجتماعی ذمہ داریاں اور عصرِ حاضر میں اطلاق

سورۃ النصر کا تیسرا اور آخری پہلو وہ ہے جہاں قرآن تاریخ سے نکل کر زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ اگر حصہ اوّل نے ہمیں پس منظر دیا، اور حصہ دوم نے آیات کی معنوی گہرائی کو کھولا، تو یہ حصہ سوم اس سوال کا جواب ہے کہ **جب نصرت، فتح اور قبولیت حاصل ہو جائے تو پھر کیا؟** قرآن کا کمال یہی ہے کہ وہ انسان کو کسی موڑ پر بے سمت نہیں چھوڑتا۔ سورۃ النصر بھی کامیابی کے بلند ترین مقام پر پہنچا کر انسان کو اس کے اصل مقام—بندگی—کی طرف واپس لے آتی ہے۔

یہ حصہ نبی کریم ﷺ کے عملی اسوہ، صحابہؓ کے طرزِ عمل، اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کو سورۃ النصر کی روشنی میں تفصیل سے بیان کرتا ہے، تاکہ یہ سورۃ صرف تلاوت کی حد تک نہ رہے بلکہ فہم، فکر اور عمل کا حصہ بن جائے۔

1۔ نبی کریم ﷺ کا عملی ردِ عمل: فتح کے بعد کی خاموش عبادت

(الف) فتح کا لمحہ اور نبوی رویّہ

انسانی تاریخ میں شاذ ہی کوئی مثال ملتی ہے کہ کوئی قائد اپنی زندگی میں مکمل کامیابی دیکھے، اپنے نظریے کو غالب ہوتا دیکھے، اور اس کے باوجود اس کے اندر فخر یا تسلط کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں فتحِ مکہ اور اس کے بعد کے ایام ایسے ہی تھے۔ سورۃ النصر کے نزول کے بعد آپ ﷺ کے طرزِ عمل میں جو تبدیلی آئی، وہ خود اس سورۃ کی عملی تفسیر بن گئی۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ:

* آپ ﷺ کی زبان پر استغفار کی مقدار بڑھ گئی

* آپ ﷺ کثرت سے یہ دعا کرتے کہ اللہ کی پاکی اور حمد بیان کریں

* آپ ﷺ کی نمازوں میں خشوع اور گریہ میں اضافہ ہو گیا

یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ کامیابی کے بعد نبی ﷺ نے اپنے آپ کو مزید اللہ کے سامنے جھکا دیا۔

(ب) استغفار: کامیابی کے بعد کیوں؟

یہ سوال فطری ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معصوم ہیں، اور مشن مکمل ہو چکا، تو استغفار کی اتنی کثرت کیوں؟ اس کا جواب سورۃ النصر کے اندر موجود ہے۔ استغفار یہاں گناہ کی معافی سے زیادہ **کمالِ بندگی** کی علامت ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ:

* انسان اپنی جدوجہد کو کبھی کامل نہ سمجھے

* کامیابی کے بعد بھی اپنی کوتاہیوں کا احساس باقی رکھے

* ہر لمحہ اللہ کی طرف رجوع میں رہے

یہی وہ مقام ہے جہاں نبی ﷺ امت کے لیے عملی معیار قائم کرتے ہیں۔

2۔ صحابہؓ کا اجتماعی فہم اور طرزِ عمل

(الف) فتح کے بعد صحابہؓ کا مزاج

صحابہؓ نے سورۃ النصر کو محض خوش خبری کے طور پر نہیں لیا۔ ان کے اندر بھی ایک سنجیدگی، خاموشی اور فکری بیداری پیدا ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ:

* یہ عروج عارضی ہے * اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے * کامیابی کے بعد لغزش کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فتح کے بعد صحابہؓ کی زندگیاں مزید سادہ ہو گئیں، دنیا سے بے رغبتی بڑھ گئی، اور عبادات میں اخلاص مزید گہرا ہو گیا۔

(ب) قیادت کا تصور

سورۃ النصر نے صحابہؓ کے ذہن میں قیادت کا جو تصور پیدا کیا، وہ طاقت یا غلبے پر مبنی نہیں تھا بلکہ: * خدمت * جواب دہی * خوفِ الٰہی  پر قائم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں قیادت ایک امانت سمجھی گئی، نہ کہ اعزاز۔

3۔ امتِ مسلمہ کے لیے اجتماعی اصول

(الف) کامیابی کا معیار

سورۃ النصر امت کو یہ اصول دیتی ہے کہ کامیابی کو ان چیزوں سے نہ ناپا جائے:

* عددی اکثریت * سیاسی طاقت * عسکری غلبہ بلکہ کامیابی کا اصل معیار یہ ہو:

* اخلاقی بلندی * عدل کا قیام * بندگی میں اضافہ

اگر یہ عناصر موجود نہ ہوں تو فتح، فتح نہیں بلکہ آزمائش بن جاتی ہے۔

(ب) دینی غلبے کے بعد زوال کیوں آتا ہے؟

تاریخِ مسلمہ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے سورۃ النصر کے آخری حکم—تسبیح اور استغفار—کو نظر انداز کیا، زوال نے جنم لیا۔ یہ سورۃ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ: * غرور زوال کی پہلی سیڑھی ہے * خود احتسابی کا ختم ہونا تباہی کی علامت ہے * اللہ سے غفلت کامیابی کو وبال بنا دیتی ہے

4۔ فرد کے لیے سورۃ النصر کا پیغام

(الف) ذاتی کامیابیوں کا معاملہ

اگر کوئی فرد اپنی زندگی میں: * علم حاصل کرے * مقام پائے * اثر و رسوخ حاصل کرے تو سورۃ النصر اس سے یہ سوال کرتی ہے کہ: **کیا اس کامیابی نے تمہیں مزید جھکا دیا ہے یا مزید بلند کر دیا ہے؟** اگر کامیابی کے بعد عبادت بڑھے، اخلاق نرم ہو، اور دل میں خوفِ الٰہی آئے، تو یہ نصرت ہے؛ ورنہ محض ظاہری فتح ہے۔

(ب) عبادت اور توبہ کا تسلسل

یہ سورۃ فرد کو یہ سکھاتی ہے کہ: * کامیابی کے بعد عبادت کم نہیں ہوتی * سہولت کے زمانے میں توبہ زیادہ ضروری ہوتی ہے * اصل استقامت عروج پر ظاہر ہوتی ہے

5۔ عصرِ حاضر میں سورۃ النصر کا اطلاق

(الف) دینی تحریکیں اور ادارے

آج جب دینی تحریکیں یا ادارے کسی حد تک قبولیت حاصل کرتے ہیں، تو سورۃ النصر ان کے لیے آئینہ ہے۔ یہ ان سے پوچھتی ہے: * کیا قبولیت کے ساتھ عاجزی بڑھی؟ * کیا قیادت میں احتساب پیدا ہوا؟ * کیا مقصد بندگی رہا یا طاقت؟ اگر ان سوالات کے جواب منفی ہوں، تو کامیابی خطرے میں ہے۔

(ب) اجتماعی سطح پر امت

امتِ مسلمہ آج زوال کا شکار ہے، مگر اس زوال کی جڑیں بھی سورۃ النصر میں بیان کر دی گئی ہیں۔ جب امت نے فتح کو حق سمجھ لیا اور توبہ کو چھوڑ دیا، تو نصرت اٹھا لی گئی۔ یہ سورۃ ہمیں واپس اسی نقطے پر بلاتی ہے جہاں سے نصرت آتی ہے: عاجزی، تسبیح اور استغفار۔

6۔ سورۃ النصر بطور آخری نصیحت

یہ محض اتفاق نہیں کہ سورۃ النصر کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کی سورۃ کہا جاتا ہے۔ یہ سورۃ درحقیقت: * ایک داعی کے لیے وصیت ہے * ایک امت کے لیے نصیحت ہے * ایک تحریک کے لیے معیار ہے یہ ہمیں بتاتی ہے کہ: * انجام، آغاز سے زیادہ اہم ہے * آخری کیفیت اصل کامیابی ہے * اللہ کے سامنے جھک جانا ہی سب سے بڑی فتح ہے

حصہ سوم کا جامع خلاصہ

سورۃ النصر کا یہ آخری حصہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ: * نبوی اسوہ کامیابی کے بعد مزید بندگی ہے * امت کے لیے اصل چیلنج فتح نہیں، اس کا درست استعمال ہے * ہر زمانے میں نصرت کا راستہ عاجزی سے گزرتا ہے یوں سورۃ النصر تین مختصر آیات میں انسان کو عروج سے واپس بندگی تک کا مکمل سفر طے کرا دیتی ہے۔ یہی اس سورۃ کا کمال ہے، اور یہی قرآن کا زندہ پیغام۔

Loading