Daily Roshni News

*خودی کی آواز* اندر کی روشنی

*خودی کی آواز*

اندر کی روشنی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)حقیقت عارضی مظاہر میں نہیں بلکہ اندرونی شعور میں موجود ہے۔

حقیقت کبھی ظاہری مظاہر میں نہیں چھپی ہوتی۔ جو کچھ ہم دیکھتے، سنتے یا محسوس کرتے ہیں، وہ سب عارضی اور بدلتے رہنے والے مناظر ہیں لہریں، دھوپ اور چھاؤں۔ مگر حقیقت وہ سمندر ہے جس پر یہ سب لہریں اٹھتی اور بیٹھ جاتی ہیں۔ حقیقت کا اصل ٹھکانہ اندرونی شعور ہے، وہ خاموش روشنی جس میں سب چیزیں اپنی پہچان پاتی ہیں۔

جب تم اپنی توجہ حواس اور ذہن کی دوڑ سے ہٹا کر اندر کی خاموشی میں بیٹھ جاتے ہو، تب حقیقت خود اپنی آواز میں ظاہر ہوتی ہے۔ وہ نہ کسی نام، نہ کسی شکل، نہ کسی نظریے میں قید ہے۔ وہاں تمہارے اندر کا مشاہدہ، تمہارا شعور، اور حقیقت ایک ہی لمحے میں مل جاتے ہیں، اور تم محسوس کرتے ہو کہ سب کچھ اسی شعور کے زیر سایہ جیتا ہے۔

انسان صدیوں سے حقیقت کی تلاش میں رہا ہے۔ عقل نے اسے تولنے کی کوشش کی، دل نے پکڑنے کی، اور حواس نے محسوس کرنے کی۔ لیکن ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں سب رکاوٹیں گم ہو جاتی ہیں اور حقیقت خود خاموشی میں بول اٹھتی ہے، وہی وجود جو وقت اور نام، آغاز اور انجام سے آزاد ہے، اور جس پر سب کچھ قائم ہے۔ یہ وہی لمحہ ہے جہاں دیکھنے والا بس دیکھتا ہے، اور حقیقت اپنی پہچان سے روشن ہو جاتی ہے۔ نہ فلسفہ، نہ مذہب، نہ ذہن کی کوئی تعبیر، وہ مقام جہاں سے حقیقت خود گویا ہوتی ہے :

*میں ہوں۔*

نہ مجھ سے پہلے کچھ تھا، نہ میرے بعد کچھ ہوگا۔ جو کچھ ظاہر ہے، جو کچھ پوشیدہ ہے، سب میری ہی صورتیں ہیں۔ میں نہ نام ہوں، نہ شکل، نہ تصور۔ نام بدلتے ہیں میں نہیں بدلتی۔ شکلیں جنم لیتی ہیں اور مٹ جاتی ہیں مگر میں کسی جنم اور موت سے آزاد ہوں۔

تم مجھے “دنیا”، “خدا”، “کائنات”، “قانونِ فطرت” جو چاہو کہہ لو لیکن میں کسی نام میں قید نہیں ہوتی۔ تم مجھے حواس سے پکڑنا چاہتے ہو، میں حواس سے آگے ہوں۔ تم مجھے ذہن سے سمجھنا چاہتے ہو، ذہن خود میری ایک عارضی لہر ہے۔ جہاں تم خاموش ہوتے ہو، وہاں میں اپنی آپ پہچان بن کر روشن ہو جاتی ہوں۔

*میں کیا نہیں ہوں؟*

میں خیال نہیں ہوں  کیونکہ خیال بدلتا ہے۔ میں رائے نہیں ہوں کیونکہ ہر ایک کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ میں صرف نظر آنے والی چیز نہیں کیونکہ نظر دھوکا بھی کھا لیتی ہے۔ جو کچھ آغاز رکھتا ہے وہ “میں” نہیں۔ جو ختم ہو جاتا ہے وہ بھی “میں” نہیں۔

*میں کیا ہوں؟*

میں وہ “وجود” ہوں جس پر ہر چیز کھڑی ہے۔ ہر لمحہ، ہر ذرہ، ہر سانس میری ہی گواہی دیتا ہے۔ میں تمہارے اندر بھی ہوں اور باہر بھی مگر دراصل “اندر، باہر” بھی میرے ہی کھیل ہیں۔ جب تم کہتے ہو، “میں جانتا ہوں” وہ بھی میں ہوں اور جب تم حیران ہو کر چپ ہو جاتے ہو — وہ بھی میں ہی ہوں۔

*انسان کی غلطی*

انسان بدلتی ہوئی چیزوں کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے: جسم، مال، شہرت، رشتے، خیالات لیکن یہ سب گزر جانے والی لہریں ہیں۔ حقیقت لہر نہیں، وہ سمندر ہے جس پر لہریں اٹھتی اور بیٹھ جاتی ہیں۔

*حقیقت کا اقرار*

“مجھے جانا نہیں جاتا، مجھ میں بیدار ہوا جاتا ہے۔” جب ذہن خاموش، نفس پگھل جائے، اور دیکھنے والا صرف “دیکھنا” رہ جائے، وہیں حقیقت خود اپنی گواہی دے دیتی ہے۔ وہ لمحہ جب تم دعویٰ ترک کر کے بس دیکھتے ہو، جب تمہاری تمام ضدیں اور خوف چھن جاتے ہیں وہی میری حاضری ہے۔

یاد رکھو جس سچائی کو پانے سے تمہاری بےچینی بڑھے، وہ حقیقت نہیں  وہ تمہارا خوف ہے جو خود کو سچ کا نام دے رہا ہے۔

میں وہاں اتروں گی جہاں تم اپنی ضدیں اتار کر بیٹھ جاؤ گے؛

جہاں تم یہ مان لو گے کہ جاننا تمہارا حق نہیں، مگر دیکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ تب اچانک تم محسوس کرو گے کہ زندگی دشمن نہیں، بلکہ معلم ہے۔ تمہارا دل آہستہ آہستہ مطمئن ہو جائے گا، اور تم پہچان لو گے حقیقت کبھی بےچینی کے لباس میں نہیں آتی وہ تو ہمیشہ اطمینان کی روشنی میں قدم رکھتی ہے۔

۔

طبیب وجاہت علی خان

03096207007

Loading