Daily Roshni News

کراچی میں 1950ء کی دہائی میں کیکر کے بیج کا اسپرے کیا گیا تھا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کراچی میں 1950ء کی دہائی میں کیکر کے بیج کا اسپرے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی میں جابجا کیکر کے درخت نظر آتے تھے ۔مگر پھر ایندھن کی ضرورت اور امکانات کی تعمیر نے اسے ناپید کردیا۔

یاد رہے کہ کیکر کے درخت بنا پانی کے نمو پاتے اور موسم کی شدت کو قابو میں رکھنے میں مددگاررہتے ہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی تک کراچی کا موسم انتہائی معتدل رہا کرتا تھا۔ نہ شدید سردی ہوتی تھی اور نہ ہی گرمی کی شدت محسوس کی جاتی تھی کچھ لوگوں کے بقول جون جولائی میں موسم آبرآلود رہا کرتا تھا اور اکثر پھوار یا ہلکی بوندا باندی معمول کی بات تھی۔

 اگر آج بھی کراچی اور اس کے گردونواح میں کیکر کے بیجوں کا فضائی اسپرے کیا جائے تو امید ہے کافی بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ خصوصاً ملیر ندی، لیاری ندی کے کناروں پر درخت لگائے جائیں تو بھی کراچی کے موسم کی شدت کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

اس کی علاوہ کیکر اور پنجاب کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔

ہر حویلی میں جانوروں کے چارہ ڈالنے والی “کھرلی” کے ساتھ کیکر ہونا ضروری تھا اور ہر گلی جو گاؤں سے باہر جاتی تھی اپنے اردگرد کیکر رکھتی تھی۔ اگر آپ کو ایسی کوئی سڑک اب بھی دیکھنی ہے تو سیالکوٹ گجرانوالہ، نارووال شکرگڑھ روڈ یا جنوبی پنجاب کے کسی روڈ کو دیکھ لیں۔

آج گرمی کی بڑھتی لہر میں کیلر بہت یاد آتا ہے۔

سیانوں کو کچھ معلوم نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ کیکر لگا کر گرمی ختم کرنا جانتے تھے۔ آج ہمیں سب کچھ معلوم ہے لیکن کیکر لگا نہیں پا رہے۔

Loading