Daily Roshni News

سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر2

سلسلہ عظیمیہ

اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی )نام مولانا جلال الدین رومی ( 2604 – 672ھ) کاہے۔ [131]

  1. حضرت فرید الدین عطار (513ھ – 627 )

2.بہاؤ الدین زکریا ( 0578-661ھ)

3 قطب الدین بختیار کاکی (0583-633ھ)،

4بابا فرید گنج شکر (0584-0659)

5 علی احمد صابری کلیری (وصال 690ھ)

6 نظام الدین اولیان ( 0631 – 725ھ)

7 محی الدین ابن عربی (560-2638) نے بھی اس صدی کو رونق بخشی۔ آٹھویں، نویں اور دسویں صدی کے اولیائے کرام :

آٹھویں اور نویں صدی میں بھی بہت سے اولیائے کرام گزرے، جن میں سے چند یہ ہیں:

بو علی شاہ قلند ر (2602 – 725)

  1. نصیر الدین چراغ دہلوی (2675 – 755ھ) بندہ نواز گیسو دراز (021 – 825ھ)

3۔حافظ شیرازی (0729 – 791ھ)

 5۔ شاہ رکن عالم ( وصال 735هـ )

6 زین الدین خراسانی (757ھ – 2838)

7عبد الرحمن جامی (0817-2898)

8 عبد القدوس گنگوی ( 861ھ – 945ھ)،

9و شاه نعمت الله ولی (0725 – 820)

10 عبد الکریم جیلی ( 0767-2805)

11 خواجہ باقی بالله (1971-01012)

12 مجدد الف ثانی (2971-1034 )

کیاں ہورہی اور بارہویں صدی ہجری کے صوفی بزرگ :

ان صدیوں کے نمایاں صوفیائے کرام یہ ہیں: 1 شیخ عبد الحق محدث دہلوی (0958-1052هـ)

2 بابا بلھے شاہ (1091ھ – 1181ھ)

.3 بری امام (01026 – 1117ھ)

  1. 4. میاں میر (0938-1045ھ)،

  2. شاہ عبد الطیف بھٹائی (1165ھ)

.6 کچل سرمست (01152-1242ھ)

  1. شاہ ولی اللہ دہلوی (01114 – 1176ھ)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی” چهار شنبه 4 شوال 1114ھ کو پیدا ہوئے ۔ سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقی سے ملتا ہے۔

روایات کے مطابق پیدائش سے پہلے ہی والد کو خواب میں پیدائش کی بشارت ہو چکی تھی۔ شاہ صاحب حدیث، فقہ، تصوف، فلسفہ اور دیگر شرعی علوم میں گہری معلومات رکھتے تھے۔ خصوصا تصوف کے متعلق آپ نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اپنے رسالہ ” الانتباه في سلاسل اولیاء اللہ ” میں کئی سلاسل طریقت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اس رسالے کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں

واضح رہے کہ امت محمدیہ کوجو نعمتیں عطا کئی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف سلسلوں کے ذریعے اس کا ربط آنحضور سی ایم کے ساتھ صحیح اور ثابت ہے اگر چہ معتقد مین اور متاثرین کے درمیان بعض امور میں اختلاف ہوئے ہیں۔” [132

تیرہویں صدی ہجری کے چند صوفیائے کرام :اس صدی میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159ھ۔1239ھ) کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ حضرت شاہ ولی اللہ کے بڑے صاحبزادہ تھے۔ آپ حدیث اور فقہ میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔ آپ نے تصوف کے پرچار کے لئے تحریر و تقریر دونوں ذرائع کا استعمال کیا۔ [133]

تیرہویں صدی ہجری کے ایک ممتاز صوفی بزرگ حضرت امداد اللہ مہاجر کمی (1233ھ۔ 1317ھ) ہیں۔ آپ کی ولادت ہندوستان میں سہارنپور کے ضلع نانوتہ میں ہوئی۔ آپ نے ایک عرصہ تک ہندوستان میں رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیئے۔ عمر کا آخری حصہ مکہ مکرمہ میں گزرا، و ہیں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔

آپ کی تصانیف میں مثنوی مولانا روم پر فارسی زبان میں حاشیہ ، غذائے روح، جہاد اکبر، مثنوی تحفہ العشاق ارشاد مرشد، ضیاء القلوب، وحدة الوجود، فیصلہ ہفت مسئله، گلزار معرفت، مرقومات امدادیه اور مکتوبات شامل ہیں۔

بر صغیر کے ایک اور صوفی بزرگ غوث علی شاہ قلندر پانی پتی (وصال 1297ھ) ہیں۔ ایک کتاب ذکرہ خوشیہ ” میں آپکے ملفوظات کو جمع کیا گیا ہے۔ حضرت غوث علی شاہ قلند را تصوف میں روحانی تربیت کے طریقہ کار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں میر پنجہ کش صاحب دہلوی سے ہم نے مشق خط کی تھی۔ اس وقت ان کی نقل یاد آئی ہے۔ میر صاحب کا دستور تھا کہ جب کوئی لڑکا ان کی خدمت میں حاضر ہو تاتو اول روز اس کے ہاتھ سے ایک وصلی (تحریر) لکھواتے اور اپنے پاس رکھ لیتے۔

جب کوئی شاگرد شکایت کرتا کہ حضرت اتنی مدت گزری لیکن میرا خط درست نہیں ہوا تو اس کی پہلی لکھی ہوئی وصلی نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اس سے مقابلہ کرو کتنا فرق ہوا ہے۔

جب وہ پہلی تحریر دیکھتا تو بین فرق معلوم ہوتا اور شاگرد کی تسکین ہو جاتی۔ ایسا ہی حال طالبان طریق کا ہے کہ جب تعلیم بتدریج حاصل ہوتی ہے تو امتیاز حال نہیں ہوتا اور طالب کو منتقلی طلب بدستور رہتی ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی کچھ حاصل نہیں ہوا حالانکہ مرد کامل کی صحبت اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ اگر اس میں بھی وصلی لکھی جاتی تو ہم بھی لکھوار کھتے، آج مقابلہ ہو جاتا لیکن تبدیل خیالات میں کچھ فرق ہوا یا نہیں پہلے کی نسبت خود ہی کمی بیشی معلوم ہوتی ہو گی۔ رہا انکشاف اگر اس کو منظور ہے تووہ بھی ہو جائے گا “۔ [134]

چودہویں صدی ہجری کے چند عارفان حق:اس صدی کے عارفان حق میں ایک نمایاں نام حضرت بابا تاج الدین ناگپوری (وصال 1344ھ) کا ہے۔ بابا تاج الدین بچپن اور لڑکپن میں نہایت ذہین طالب علم تھے ۔ پندرہ سال کی عمر میں قرآن پاک، اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی

Loading