Daily Roshni News

**سورۃ القمر — حصہ اوّل (آیات 1 تا 20)**

**سورۃ القمر — حصہ اوّل (آیات 1 تا 20)**

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کلائمیکسِ قیامت، شقّ القمر کا معجزہ، انسانی انکار کی نفسیات، اور قومِ نوح کی تاریخی گواہی**

**ابتدائی تمہید — سورۃ القمر کا لہجہ اور پیغام**

سورۃ القمر مکی دور کی اُن سورتوں میں سے ہے جن کا لہجہ نہایت پرجلال، نہایت بیدار کرنے والا، اور جھنجوڑ دینے والا ہے۔ مکّہ کا ماحول انکار، تکذیب، مذاق اور ضد سے بھرا ہوا تھا، اور رسولِ کریم ﷺ کی دعوت بار بار لوگوں کے دلوں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ ایسے ماحول میں یہ سورۃ ایک **آسمانی بجلی** کی طرح نازل ہوئی:

**”اقتربتِ السّاعۃ وانشقّ القمر”**

یعنی *قیامت قریب آ چکی اور چاند پھٹ گیا۔* اس ایک ہی جملے نے پوری انسانی تاریخ کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ یہ آیت صرف ایک اطلاع نہیں تھی بلکہ **ایک اعلانِ تنبیہ، ایک خبرِ قیامت، ایک کونیاتی نشان اور ایک نفسیاتی حقیقت** کا مجموعہ تھی۔ پہلا حصہ اسی **قیامت کی آہٹ، انسانی انکار، معجزے کے اعلانیہ ظہور، اور قومِ نوح کے عبرتناک انجام** پر مشتمل ہے۔

**آیت 1: “اقتربتِ السّاعۃ وانشقّ القمر” — وقت کا کھل جانا**

یہ آیت اپنے اندر تین عظیم راز رکھتی ہے:

**1. قیامت کا قریب ہونا — وقت کے فلسفے کی حیثیت سے** اللہ نے یہاں “اقتربت” (قریب آگئی) کا لفظ استعمال کیا۔ ہ لفظ بتاتا ہے کہ:

* وقت رکا ہوا نہیں

* کائنات ایک مقررہ انجام کی طرف بڑھ رہی ہے

* ہر لمحہ انسان اپنے فیصلوں کے نتیجے کے قریب ہوتا جا رہا ہے

* دنیا کی مہلت لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہی ہے

یہ بات بڑی عجیب ہے کہ **جب یہ آیت نازل ہوئی، اُس وقت قیامت کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں** مگر قرآن پھر بھی قیامت کو *قریب* بتاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ خدا کے ہاں وقت **انسانی وقت** نہیں ہوتا۔ انسانی وقت سیکنڈ، منٹ، دن اور سال کا محتاج ہے۔ اللہ کے ہاں وقت **حقیقتِ کائنات** ہے، اور پوری کائنات آمد و رفت کے درمیان چند سانسوں کی مانند ہے۔

**2. چاند کا پھٹ جانا — شقّ القمر**

یہ وہ واقعہ ہے جسے تاریخ میں بھی رشک سے دیکھا جاتا ہے، اور جس کے اثرات آج بھی انسان کے شعور میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ کفارِ مکہ نے معجزہ مانگا۔ رسولِ کریم ﷺ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ چاند دو حصّوں میں واضح طور پر بٹ گیا۔ ایک حصہ کوہِ حرا کے ایک جانب، دوسرا دوسری جانب دکھائی دیا۔ لوگ چیخ پڑے: **”سحر! سحر! یہ جادو ہے!”** حالانکہ جادو صرف سامنے موجود لوگوں پر اثر کرتا ہے۔ مکہ کے باہر کے قبائل نے بھی یہی منظر دیکھا، اُنہوں نے بھی شہادت دی۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں اُس وقت کتبِ فلکیات میں بھی اس واقعہ کی گونج پائی جاتی ہے۔

یہ معجزہ انسان کو روشن کرتا ہے کہ:

* کائنات جامد نہیں

* قدرت کے قانون اُس کے اختیار میں ہیں

* فلکیاتی اجسام، اجرام، سیارے — سب اس کی قدرت سے چاہنے پر بدل سکتے ہیں

* انسان اگر چاہے تو نشان دیکھ کر ایمان لے آئے

* مگر اکثر انسان نشان کو بھی انکار میں گم کر دیتا ہے

یہی انسانی ضد کا موضوع اس حصّے میں بار بار دہرایا گیا ہے۔

**آیت 2: “وَإِن یَرَوا آیَۃً یُعْرِضُوا” — نشانی دیکھ کر بھی مُڑ جانا**

یہاں اللہ انسان کی نفسیاتی کمزوری کھول کر رکھ دیتا ہے۔ انسان جب:

* حقیقت اُس کے سامنے آ جائے

* دلیل واضح ہو جائے

* آنکھوں سے معجزہ دیکھ لے

تو بجائے قبول کرنے کے **فوراً موڑ جاتا ہے۔** کیوں؟  کیونکہ:

* سچائی ذمہ داری لاتی ہے

* سچائی کے مان لینے سے انسان کو اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑتا ہے

* جہالت میں آزادی زیادہ محسوس ہوتی ہے

* باطل میں مزہ، نفس پرستی اور خواہشات کی پیروی آسان ہوتی ہے

اسی لیے لوگ نشانی دیکھ کر بھی انکار کرتے ہیں۔ یہی رویّہ مکہ کے مشرکین کا بھی تھا۔

**آیت 3: “وَکَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَہْوَاءَہُمْ” — خواہشات کی غلامی**

قرآن یہاں ایک **نفسیاتی اعلان** کرتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اُس کا نفس ہے۔ اللہ نے فرمایا: * اُنہوں نے رسول کی تکذیب کی  * اور اپنی خواہشات کی پیروی کی

خواہشات کیا تھیں؟

**1. سماجی غرور**   اگر یہ سچ ہوتا، تو سرداری کا تختہ الٹ جاتا۔

**2. معاشی مفادات** بتوں کے کاروبار تباہ ہو جاتے۔

**3. اخلاقی کمزوری** توحید قبول کرنا یعنی جواب دہی قبول کرنا۔ جواب دہی سے بھاگنا سب سے آسان راستہ ہے۔

**4. انا پرستی** “میں کیوں مانوں؟” “میں کیوں جھکوں؟” “میں کیوں بدلوں؟”

یہی وہ رویّہ ہے جو انسان کو ابدی ہلاکت تک لے جاتا ہے۔

**آیت 4: “وَلَقَدْ جَاءَہُم مِّنَ الْأَنبَاءِ مَا فِیہِ مُزْدَجَرٌ” — خبریں جو کافی تھیں**

یعنی:

* پچھلی قوموں کی تباہی * عذابوں کے واقعات * انبیاء کی جدوجہد * تاریخ کے سبق

* کائناتی دلائل

سب اُن کے پاس پہلے سے موجود تھے، مگر پھر بھی وہ نہ سمجھے۔ کیوں؟

کیونکہ دل پر زنگ چڑھ چکا تھا۔ سماعتیں بند ہو چکی تھیں۔ دلیل ان کے اندر داخل نہیں ہو پاتی تھی۔

**آیت 5: “حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِی النُّذُرُ” — حکمت اپنی انتہا تک جا چکی ہے**

یہاں قرآن کہتا ہے: * پیغام اپنی آخری حد تک پہنچ چکا * دلیلیں اپنا کام کر چکیں

* نشانیاں دکھا دی گئیں * عقل کو بیدار کرنے کیلئے سب کچھ کیا گیا

لیکن…

**اگر دل ہی بند ہو جائے تو ہزار نشانیاں بھی بے فائدہ ہو جاتی ہیں۔** اسی لیے قرآن نے بارہا دل کی قفل زدگی کا ذکر کیا ہے۔

**قومِ نوح کا قصّہ — آیات 9–20**

**سب سے پہلی منکر قوم کا انجام** یہ حصہ سورۃ القمر کے حصّہ اوّل کا سب سے بڑا اور سب سے خوفناک حصہ ہے۔ قرآن نے اس قوم کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا کر پیش کیا۔

**آیت 9: “کذّبت قبلہم قوم نوح” — نوح کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے**

یہاں اللہ انکار کی تاریخ کھولتا ہے:

* آج کے لوگ جھٹلا رہے ہیں  * لیکن یہ پہلی قوم نہیں جو جھٹلا رہی ہے

* نوحؑ کی قوم بھی ایسا ہی کرتی تھی * حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مزاج اکثر ایک سا رہتا ہے نوحؑ ساڑھے نو سو برس تک دعوت دیتے رہے۔ سوچو: *۹۵۰ سال تک صبر، برداشت، نرمی، خیرخواہی — مگر پھر بھی لوگ نہ مانیں۔* یہ انسانی ہٹ دھرمی کی سب سے بڑی مثال ہے۔

**آیت 9–10: نوحؑ کی فریاد**

نوحؑ نے کہا: **”اَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ”** میں مغلوب ہو چکا ہوں، اب تُو میری مدد فرما۔ یہاں جذبات کی شدت دیکھو:

* رسول جو صبر کی علامت تھا، آخری حد تک پہنچ گیا   * ظلم حد پار کر چکا

* انکار حد سے آگے نکل چکا   * دل ٹوٹ چکے   * جسم تھک چکے   * وقت مکمل ہو چکا

یہ فریاد اُس وقت کی پکار ہے جب آسمان فیصلہ سنا دیتا ہے۔

**آیت 11: ’’ففتحنا ابواب السماء بماءٍ منهمر‘‘ — آسمان کے دروازے کھل گئے**

یہ منظر دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ہے۔

* آسمان پھٹ گیا   * بارش عام بارش نہیں تھی    * پانی نہایت تیزی، وحشت اور مسلسل شدت کے ساتھ برسنا شروع ہو گیا   * آسمان گویا کھل گیا تھا   * ہر طرف پانی ہی پانی

یہ اللہ کے غضب کا پہلا مرحلہ تھا۔

**آیت 12: ’’وفجرنا الارض عیونا‘‘ — زمین چشمے اُگلنے لگی**

آسمان سے بھی پانی   زمین سے بھی پانی     اوپر سے بھی تباہی   نیچے سے بھی تباہی

کائنات نے گویا قومِ نوح کو گھیرے میں لے لیا۔ قدرت کا نظام ایک طرف نہ چھوڑتا ہے، پورا احاطہ کرتا ہے۔

* ہر گلی سے پانی    * ہر میدان سے پانی    * گھروں کی بنیادیں ٹوٹ گئیں    * پہاڑوں سے بہاؤ اُتر پڑے

نوحؑ کی قوم کے لیے اب فرار کے راستے بند ہو گئے۔

**آیت 13: ’’وحملناہ علی ذات الواح ودسر‘‘ — نوح کی کشتی**

یہ وہ عظیم کشتی تھی جو:

* تختوں سے بنی     * میخوں سے جڑی    * وحی کی نگرانی میں تیار ہوئی     * صبر کی صدیوں کا نتیجہ تھی

اس کشتی میں:   * مومنین   * جانوروں کے جوڑے   * اللہ کی امان

سب کچھ محفوظ تھا۔ جب پوری دنیا پانی سے بھر گئی، یہ کشتی پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اوپر تیرتی رہی۔ یہ منظر دنیا کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ: **ایمان بچتا ہے اور انکار ڈوب جاتا ہے۔**

**آیت 14–15: عذاب ایک نشانی کے طور پر باقی رہ گیا**

نوحؑ کی قوم کا انجام ایک مستقل مثال بنا دیا گیا:

* عبرت کے طور پر   * قیامت تک کے لوگوں کیلئے   * ہر دور کے انسان کیلئے

* ہر انکار کرنے والے کیلئے

نوحؑ کی کشتی کا رکنا   جودی پہاڑ پر     ایک علامت ہے کہ:   **بچتا صرف وہ ہے جسے اللہ بچانا چاہے۔**

**آیت 16: “فکیف کان عذابی ونذر” — عذاب اور تنبیہ دونوں کی حقیقت**

یہ آیت بار بار دہرائی جاتی ہے۔ جیسے اللہ انسان سے پوچھ رہا ہو: **”بتاؤ، میرا عذاب کیسا تھا؟ اور میری تنبیہات کا کیا انجام ہوا؟”** گویا اللہ انسان کے اندر سوال پیدا کر رہا ہے:

* کیا تم بھی اُن قوموں جیسے بننا چاہتے ہو؟

* کیا تمہیں بھی تاریخ سے سبق نہیں ملتا؟

* کیا مزید نشانیاں ضروری ہیں؟

یہاں استفہام تنبیہی استعمال ہوا ہے جو انسان کے ضمیر میں ہلچل پیدا کرتا ہے۔

**آیت 17: “ولقد یسّرنا القرآن للذکر” — قرآن آسان بنایا گیا**

یہ بہت بڑا اعلان ہے۔

* قرآن مشکل کتاب نہیں

* قرآن اسرار میں گم نہیں

* قرآن سمجھنے، یاد رکھنے اور عمل کرنے کیلئے آسان ہے

یہاں ’’یُسِّر‘‘ (انتہائی آسان) آیا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قرآن انسان کو بھٹکانا نہیں چاہتا۔

بلکہ: * راستہ دکھانا چاہتا ہے   * آنکھیں کھولنا چاہتا ہے   * دل بیدار کرنا چاہتا ہے

لیکن سوال پھر وہی ہے: **”فَہَلْ مِن مُّدَّکِر؟” کیا کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے؟**

**آیت 18–20: نوح کی قوم کا فیصلہ کن انجام**

یہاں انجام انتہائی اختصار مگر انتہائی شدت کے ساتھ بیان کیا گیا:

* جھٹلایا  * مذاق اُڑایا   * رسول کو ستایا    * بات نہ مانی  * تکبّر کیا

نتیجہ صرف ایک تھا: **طوفان، موت، گہراؤ، غرقابی، اور مکمل صفایا۔** قرآن یہاں جذبات کو جھنجوڑ دیتا ہے:

**قومِ نوح کی سسکیاں، گھبراہٹ، چیخیں، بھاگ دوڑ — سب بری طرح ختم ہو گیا۔**

کائنات کے پانیوں نے اُنہیں گھیر لیا۔ پہاڑ جیسے مرد ڈوب گئے۔ ظالم چیختے رہ گئے۔ مگر جب اللہ فیصلہ کر دیتا ہے تو رحم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

**حصّہ اوّل کا مرکزی پیغام — انسان کیلئے ابدی سبق**

  1. **قیامت بہت قریب ہے**

  2. **انکار کا انجام ہمیشہ تباہی ہے**

  3. **معجزہ دیکھ کر بھی نہ ماننا انسان کی ضد ہے**

  4. **خواہشات انسان کو خدا سے دور لے جاتی ہیں**

  5. **نوح کی قوم کی کہانی پوری انسانیت کیلئے آئینہ ہے**

  6. **قرآن آسان ہے مگر دل سخت ہو جائے تو فائدہ نہ دے**

  7. **ہدایت صرف اُس کے نصیب میں ہے جو انکساری اختیار کرے**

**سورۃ القمر — حصہ دوم (آیات 21 تا 40)**

**قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط — تین عظیم قومیں، تین بڑے جرائم، اور تین ہوش رُبا انجام**

**ابتدائی تمہید — تاریخ کی تین بڑی قومیں جنہیں قرآن کھول کر دکھاتا ہے**

حصّہ دوم میں اللہ تعالیٰ تین قوموں کا ذکر کرتا ہے:

  1. **قومِ عاد** — غرور کی علامت

  2. **قومِ ثمود** — معجزے کا مذاق اُڑانے والی

  3. **قومِ لوط** — اخلاقی فساد میں ڈوبی ہوئی

ان تین قوموں کی تباہی کا بیان اس لیے کیا ہے تاکہ انسان جان لے کہ:

* طاقت بچاتی نہیں    * ٹیکنالوجی بچاتی نہیں     * شہرت بچاتی نہیں

* تہذیب بچاتی نہیں   * تمدّن بچاتا نہیں   * *صرف ایمان اور حق کے سامنے جھکنا بچاتا ہے*

قرآن تاریخ نہیں سناتا، **انسان کے دل کو بیدار کرتا ہے۔** اور جتنی شدت کے ساتھ یہ حصہ قوموں کے انجام کو بیان کرتا ہے، اتنی ہی شدت سے دل دہلا دیتا ہے۔ یہ حصہ انتہائی جذباتی، عبرتناک اور روحانی لرزہ رکھنے والا ہے۔

**آیات 21–22: قومِ عاد — پہاڑوں جیسی طاقت مگر دل میں تکبّر**

**قومِ عاد کون تھی؟** قومِ عاد ’’احقاف‘‘ کے علاقے میں آباد تھی۔ یہ علاقہ: * سرسبز

* طاقتور * عمارتوں سے بھرپور * جسمانی قوت میں حیران کن * مضبوط سوار * اونچی آبادی * مکمل تمدّن * معاشی طور پر خوشحال

قرآن میں انہیں ’’ارم ذات العماد‘‘ کہا گیا — *وہ قوم جس نے ستونوں والے شہر تعمیر کئے۔* یہ وہ لوگ تھے جنہیں اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ کہتے تھے: **”مَن أشدُّ منّا قوّة؟”** ’’ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟‘‘ اور اللہ نے انہی کے کلام کے جواب میں کہا: **”أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً”** جو تمہیں پیدا کرنے والا ہے وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے۔

**پیغامِ ہودؑ — توحید کی صدا اور قوم کا رویّہ**

حضرت ہودؑ نے کہا: * اللہ ایک ہے * اُس سے ڈرو * غرور نہ کرو * زمین میں فساد نہ پھیلاؤ * طاقت پر گھمنڈ نہ کرو لیکن قوم کا جواب تھا: * تم پر جادو ہوا ہے * تم پاگل ہو

* تمہاری بات میں کوئی وزن نہیں * ہماری تہذیب بہترین، تمہاری تعلیم بے فائدہ

یہ ایسا ہی رویّہ ہے جیسا ہر دور کی سرکش قوموں نے اختیار کیا۔

**آیت 21: “فکذّبوا عبدنا” — اللہ کے بندے کو جھٹلا دیا**

یہاں اللہ ہودؑ کو ’’عبدُنا‘‘ (ہمارا بندہ) کہہ کر عزت دے رہا ہے۔ اور قومِ عاد کو سخت الفاظ میں بتایا: * تم نے اُس بندے کو جھٹلایا جو میرا تھا * تم نے اُس خیرخواہ کو جھٹلایا جو تمہاری بھلائی چاہتا تھا * تم نے دلائل کو نہیں مانا * تم نے تکبّر سے سر اٹھا لیا

یہی وہ لمحہ تھا جہاں فیصلے کے دروازے کھلنے لگے۔

**آیت 22: “فَهَلْ مِنْ مُدَّکِر؟” — کیا کوئی نصیحت لینے والا ہے؟**

یہ سوال انسان کی روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ اللہ جیسے کہہ رہا ہے: * ان کی تباہی دیکھ کر بھی کیا کوئی ہے جو نصیحت مانے؟ * تاریخ کے پچھلے صفحات تمہارے سامنے رکھ دیے * انجام تمہارے سامنے کھول دیا * کیا کوئی ہے جو اس سے سبق سیکھے؟ اسی لیے یہ آیت بار بار دہرائی جاتی ہے — *تاکہ انسان جاگ جائے۔*

**آیات 23–32: قومِ ثمود — صالحؑ کی اونٹنی کا معجزہ اور صیحہ کا عذاب**

**قومِ ثمود کی اصل پہچان**  ثمود:   * سنگی پہاڑوں کے اندر گھر بناتے تھے * نقش و نگار میں ماہر تھے * طاقتور اور جسمانی اعتبار سے مضبوط تھے * فنِ تعمیر میں دنیا کی کسی بھی قوم سے آگے تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہاڑ تراش کر محل بنا لئے۔ ان کی زندگی تہذیب کے عروج پر تھی۔ مگر دلوں میں غرور اُنہیں اندھا کر چکا تھا۔

**صالحؑ کا پیغام — سچائی مگر سخت دلوں نے انکار کر دیا**

حضرت صالحؑ نے کہا: * اللہ ایک ہے * گناہوں سے توبہ کرو * زمین میں فساد نہ پھیلاؤ

* توحید کو اپنا لو * ظلم سے باز آ جاؤ * بے حیائی اور غرور چھوڑ دو

لیکن قومِ ثمود نے جواب دیا: * تم پر جادو ہوا ہے * تم نے ہماری تہذیب پر تنقید کی * تم ہماری آزادی چھیننا چاہتے ہو * تم ہمیں نئی راہ دکھانا چاہتے ہو؟ * کیا ہم اپنے باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دیں؟ یہی انسانی نفسیات ہے کہ لوگ حق کو اس لیے نہیں مانتے کہ *پہلے والے کیوں نہ مانتے؟*

**آیت 23: “فقالوا أبشراً منا واحداً نتّبعہ” — ایک انسان کی بات مانیں؟**

یہ تکبّر کی انتہا ہے۔ وہ کہتے تھے: * کیا ہم اپنے جیسے ایک انسان کی بات مانیں؟

* وہ ہمارے برابر ہے * وہ ہم جیسا ہے * ہم بڑے لوگ ہیں، وہ معمولی ہے

یہ وہی ذہن ہے جو آج بھی موجود ہے:

* ’’میں کیوں مانوں؟‘‘ * ’’میں کیوں جھکوں؟‘‘ * ’’میں کیوں بدلوں؟‘‘ * ’’میں بڑی شخصیت ہوں، یہ کون ہے؟‘‘       انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کی ’’انا‘‘ ہے۔

**آیت 24: “أتأتون السحر وأنتم تبصرون” — یہ جادو ہے!**

جب دلیل ختم ہو جائے تو الزام شروع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: * ہمیں جادو دکھایا جا رہا ہے * ہماری آنکھوں پر جادو ڈالا گیا * یہ سب نظر کا دھوکا ہے

حالانکہ صالحؑ صرف ’’سچ‘‘ بیان کر رہے تھے، کوئی جادو نہیں۔

**آیت 25: “بل هو کذّاب أشر” — یہ جھوٹا اور مغرور آدمی ہے**

یہ وہ لمحہ ہے جہاں قوم کی بدبختی طے ہو گئی۔ * رسول کو جھوٹا کہا * رسول پر تکبر کا الزام لگایا * قوم نے خود تکبر میں ڈوب کر سچ کو ردّ کیا

یہی وہ رویّہ ہے جو انسان کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔

**اونٹنی کا معجزہ — آیات 26–28**

صالحؑ نے کہا: * یہ اللہ کی اونٹنی ہے * اسے نقصان نہ پہنچانا * یہ نشانی ہے * اس کے پینے کا دن ہے * تمہارے پینے کا دن الگ ہے

یہ حیرت انگیز معجزہ تھا: * اونٹنی ایک دن پانی پیتی * اگلے دن انسان پیتے * زمین سے چشمہ خوشبو کی مانند نکلتا * پوری بستی پانی سے بھر جاتی

مگر قوم نے کہا: **”ہم برداشت نہیں کر سکتے!”**

اور انہوں نے قوم کے انتہائی بدبخت انسان کو اس کی ہلاکت کیلئے اُکسایا۔

**آیت 29: “فعقَروا الناقة” — اونٹنی کو زخمی کر کے قتل کر دیا**

یہ جرم معمولی نہ تھا: * یہ اللہ کی نشانی تھی * یہ اللہ کے رسول کی دلیل تھی * یہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا      اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔

یوں اُن کے خلاف آسمانی فیصلے کا آخری دروازہ بھی کھل گیا۔

**آیت 30–31: ’’فنادوا صاحبہم فتعاطی فَعَقَر‘‘ — قوم کے مجرم نے حملہ کیا**

یہاں قرآن قوم کے اندر موجود ’’سب سے بدترین‘‘ شخص کا ذکر کرتا ہے۔ * وہ بے رحم تھا * وہ سفاک تھا * وہ متکبر تھا * اس نے اپنے جرم کو فخر سمجھا

اور قوم نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ ظلم اس وقت پلتا ہے جب قوم ظالم کی حمایت کرتی ہے۔

**آیت 31: ’’فَأَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃ‘‘ — خوفناک چیخ**

یہ وہ لمحہ تھا جس نے پھر کبھی کسی قوم کو اٹھنے نہ دیا۔ * ایک عظیم چیخ * ایک آسمانی صیحہ * فضا لرز اٹھی * پہاڑ گونج اٹھے * زمین کا دل ہل گیا * گھروں میں بیٹھے لوگ گر پڑے * دل سینوں میں پھٹ گئے * زندگی ایک لمحے میں ختم ہو گئی

یہ عذاب نہایت ہولناک تھا۔

**آیت 32: “ولقد یسّرنا القرآن للذّکر” — پھر اللہ یاد دہانی دیتا ہے**

پھر وہی عظیم جملہ: **”کیا کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے؟”** گویا اللہ انسان سے پوچھ رہا ہے: * کیا تم بھی اُن جیسے ہی ہو؟ * کیا تم بھی دلیل کو چھوڑتے ہو؟ * کیا تم بھی تکبر میں ڈوبے ہو؟ * کیا تم بھی نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہو؟

**آیات 33–40: قومِ لوط — اخلاقی گراوٹ اور آسمانی صفایا**

یہ قرآن کا سب سے سخت ترین بیان ہے۔

**قومِ لوط کا معاشرہ — گناہ کا کھلم کھلا نظام**

قومِ لوط کے معاشرے میں: * اخلاق ختم * شرم و حیاء مٹ گئی * بے راہ روی عام ہو گئی * مرد مردوں کے پاس جاتے * عورتیں فاحشہ تھیں * گناہ فخر تھا * بدکاری نظام تھا

* ظلم عام تھا

یہ وہ قوم تھی جسے ’’دنیا کی سب سے بدترین قوم‘‘ کہا گیا۔

**لوطؑ کا پیغام — آخری دروازہ**

حضرت لوطؑ نے کہا: * اللہ سے ڈرو * یہ خرابی چھوڑ دو * دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی * یہ فطرت کے خلاف ہے * یہ جرم انسانیت کے خلاف ہے

مگر قوم نے کہا: * تم پاکباز ہو؟ * تم کون ہوتے ہو ہمیں روکنے والے؟ * ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے * تم اور تمہارے ساتھی ناپاک لوگ ہو

یہاں ظلم مکمل ہو چکا تھا۔

**آیت 34–35: ’’إنّا أرسلنا علیہم حاصباً‘‘ — پتھروں کی بارش**

پھر وہی مرحلہ آیا: * فرشتے لوطؑ کے پاس آئے * انہوں نے مومنوں کو نکالا * رات کے اندھیرے میں * راستہ دکھایا * حفاظت دی     اور قوم کو:

* آسمان سے پتھروں کی بارش * آگ کی لپٹیں * چیخیں * زمین کا پھٹ جانا * بستی کا اُلٹ جانا * آسمانی آگ کا برسنا

یہ پوری تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ ہوا کہ ایک بستی پوری کی پوری اُلٹ دی گئی۔

**آیت 36–37: جرم کی پختگی**

یہاں قرآن کہتا ہے: * انہوں نے ہدایت کو جھٹلایا * جرم میں ڈوبے رہے * دل سخت ہو گئے * فرشتوں کی آمد کو کھیل سمجھا * حق کے سامنے سر نہ جھکایا

اسی لیے عذاب طے ہو گیا۔

**آیت 38–40: ’’ولقد صبحہم بکرةً عذاب مستقر‘‘ — صبح ہوتے ہی تباہی**

صبح ہوئی اور غبار اٹھا آسمان کا چہرہ بدل گیا زمین لرز اٹھی پتھروں کی بارش ٹوٹ پڑی بستی الٹ گئی لوگ چیخ اُٹھے دیواریں آسمان سے باتیں کرتی تھیں، پھر زمین میں گھس گئیں اور پھر اللہ نے فرمایا: **”کیا کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے؟”**

یہی ہے حصّہ دوم کا انجام۔

**حصّہ دوم — ۷ مرکزی سبق**

  1. **طاقت انسان کو نہیں بچا سکتی**

  2. **معجزہ دیکھ کر بھی انکار ممکن ہے**

  3. **خواہشات حق سے دور کر دیتی ہیں**

  4. **شدید اخلاقی گراوٹ قوموں کو ہلاک کر دیتی ہے**

  5. **رسولوں کا انکار تاریخ کو دہراتا ہے**

  6. **قرآن کا مقصد آسانی سے حقیقت سمجھانا ہے**

  7. **ہر قوم کا انجام ایک جیسا ہے: حق قبول کرو یا ہلاکت پاؤ**

⭐ **سورۃ القمر — حصّہ سوّم (آیات 41–55)**

**تمہید: سابقہ اقوام کی تباہی سے موجودہ انسان کے لیے ابدی سبق**

سورۃ القمر کے آخری حصّے میں اللہ تعالیٰ انسان کو صرف سابقہ قوموں کی سرکشی اور تباہی کی داستان نہیں سناتا بلکہ ایک **آفاقی قانون** واضح کرتا ہے— **”ظلم جب حد سے بڑھ جائے، تکبّر جب انسان کے دل میں پتھر کی طرح جم جائے، اور حق جب بار بار سامنے آنے کے باوجود ٹھکرایا جائے… تو اللہ کی پکڑ ضرور آتی ہے، اور وہ پکڑ کسی بھی طاقت، بادشاہت یا سازش کے آگے جھکتی نہیں۔”** اس حصّے میں اللہ تعالیٰ **فرعون** اور اس کے لشکروں کا انجام بیان کرتے ہوئے موجودہ انسان کو چار بڑے سبق دیتا ہے:

  1. **قدرت کے اصول اٹل ہیں**

  2. **غرور سب سے جلد فنا ہونے والی طاقت ہے**

  3. **حق کی دعوت ہمیشہ غالب رہتی ہے، چاہے وقتی طور پر دب جائے**

  4. **قرآن انسان کیلئے نصیحت کا سب سے آسان ذریعہ ہے**

یہ حصہ یوں سمجھو کہ پوری سورت کا **نتیجہ** اور **خلاصہ** ہے۔

🌙 **حصّہ سوّم: آیات 41–55 کی تفصیلی تفسیر**

**1. فرعون اور اس کا لشکر: ظلم کا سب سے بڑا آئینہ**

**آیت 41:** **”وَلَقَدۡ جَاۡءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ”** (اور بے شک فرعون والوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے تھے)

فرعون کا ذکر قرآن میں سب سے زیادہ آتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ظلم، غرور، طاقت کے نشے، سیاسی مکاری اور مذہبی بگاڑ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس کی قوم کو:

* موسیٰ علیہ السلام آئے * ہارون علیہ السلام آئے * واضح معجزے آئے * دلیلیں آئیں

* نشانیاں آئیں

مگر دلوں پر **تکبّر کی تہہ** تھی۔ تکبّر انسان کو سچ دکھاتا ہی نہیں—گویا دل پر ایک پردہ پڑ جاتا ہے۔ یہی پردہ فرعون کی تباہی کا اصل سبب تھا۔

**2. ظلم کی سرکشی: جب انسان خود کو خدا سمجھنے لگے**

فرعون نے دعویٰ کیا: **”انا ربکم الاعلیٰ”** (میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں) یہ تاریخی لحاظ سے دنیا کی پہلی **سیاسی خدائی** تھی— یعنی حکومت، طاقت، فوج، معیشت اور لوگوں کی کمزوریوں کو استعمال کر کے خود کو ’’رب‘‘ منوانا۔ یہ وہی روش ہے جو آج بھی دنیا میں مختلف شکلوں میں زندہ ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ انسان سمجھے:

**طاقت انسان کو نہیں بچاتی، کردار بچاتا ہے۔**

**3. آیاتِ الٰہی کا انکار: عقل پر پردہ**

**آیت 42:** **”کُلَّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ مِنۡ کُبۡرِہِمۡ”** (جو کچھ بھی انہوں نے کیا وہ ان کے کبر ہی سے تھا) فرعون کے جرم تین تھے:

  1. **کبر** 2. **حق کے خلاف بغاوت** 3. **اللہ کے رسول کی تکذیب**

یہ تینوں جرم آج بھی انسان کی ہلاکت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب انسان اپنی عقل کو مطلق بنا لے اور خدا کے پیغام کو ثانوی چیز سمجھ لے—فنا قریب آ جاتی ہے۔

**4. اللہ کی گرفت: جب عذاب نیچے نہیں اوپر سے آتا ہے**

**آیت 42:** **”فَاَخَذۡنٰہُمۡ اَخۡذَ عَزِیۡزٍ مُّقۡتَدِرٍ”** (تو ہم نے انہیں ایک غالب اور قدرت والے کی پکڑ سے پکڑ لیا) اس آیت کا اسلوب بے حد شدید ہے۔

’’عزیز‘‘ = غالب

’’مقتدر‘‘ = پوری قدرت والا

یعنی جب اللہ کسی ظالم کو پکڑتا ہے تو: * اس کے پاس کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہتی

* کوئی فوج، خزانہ یا طاقت اس کی مدد نہیں کرتی * فیصلے کا ایک لمحہ ساری سلطنت کو زمین بوس کر دیتا ہے

فرعون سمندر میں اُترا تو اس کے پاس: * لاکھوں کا لشکر  * ہزاروں فوجی  * عرب دنیا کی سب سے بڑی طاقت  * جدید جنگی ساز و سامان  * انٹیلیجنس  * جاسوس  * اسلحہ

مگر جب اللہ نے پکڑا— **ایک ہی لہر نے اسے زمین سے مٹا دیا۔

** یہ ہے ’’اَخْذَ عَزِیۡزٍ مُّقْتَدِرٍ‘‘۔

**5. انسان کیلئے سب سے بڑی عبرت: اللہ دیر کرتا ہے، اندھیر نہیں**

فرعون کی قوم کے پاس: * سالہا سال تبلیغ * کھلی نشانیاں * بار بار موقع * نرم لہجہ

* معجزات * سمجھے ہوئے دل مگر پھر بھی انکار رہا تو آخر میں تباہی نے آ لیا۔ یہ نتیجہ صرف ایک قوم کیلئے نہیں، ہر زمانے کے انسان کیلئے ہے۔ یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے: **جب قومیں ظلم کو نظام بنا دیں، حق کا مذاق اُڑائیں، اور اخلاق کا جنازہ نکال دیں — تو تاریخ خود اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔**

🌙 **6. قرآن کی بار بار نصیحت: “فَهَلۡ مِن مُّدَّكِرٍ”**

سورۃ القمر میں یہ جملہ **چار بار** آیا ہے۔ **”فَهَلۡ مِن مُّدَّكِرٍ”** (تو کیا کوئی ہے جو نصیحت پکڑے؟)

یہ پورے قرآن کا درد ہے۔

اللہ انسان سے پوچھتا ہے:

کیا کوئی ہے جو سبق لے؟

کیا کوئی ہے جو دل کھولے؟

کیا کوئی ہے جو سوچے، سمجھنے کی کوشش کرے؟

یہ سوال ہے—اللہ کا انسان کے دل سے مکالمہ۔

🌙 **7. قرآن کو آسان بنا کر اتارا گیا**

**آیت 32:** **”وَلَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ”** (اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا) یہ آیت اس حصّے کا حصہ نہیں لیکن آخری حصّے کی بنیاد سمجھنے کیلئے ضروری ہے۔ قرآن مشکل نہیں— مشکل ہمارا دل ہے، جو دنیا کی شور، خواہشات اور غفلت میں ڈوبا ہوا ہے۔

قرآن کی آسانی:

* مفہوم آسان * فطرت کے مطابق * مثالیں واضح * پیغام سیدھا * دل پر اثر ڈالنے والا

* انسانی تاریخ سے بھرپور * زندگی کے ہر پہلو کو چھونے والا

اس آخری حصّے میں اللہ چاہتا ہے کہ انسان قرآن کو **آئینہ** بنائے۔ اور فرعون، عاد، ثمود، نوح، اور لوط کی قوموں کا حشر دیکھ کر اپنا مستقبل پہچانے۔

🌙 **8. متقیوں کا انجام: امن، نعمتیں اور نور**

**آیت 54–55:** **”اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ”** (بے شک متقی لوگ باغات اور نہروں میں ہوں گے) **”فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ”** (ایک سچے اور باوقار مقام میں، ایک بہت بڑے بادشاہ کے پاس)

یہ دنیا: * تھکن * خوف * غم * بےچینی * امید اور مایوسی کے امتزاج کا گھر ہے مگر **متقی** لوگ وہ ہیں جنہوں نے: * دنیا کو منزل نہیں بنایا * نفس کی غلامی سے خود کو آزاد رکھا * سچائی، عاجزی اور اطاعت کو ترجیح دی * ظلم سے بچا، حق سے جڑے رہے  * رب کی رضا کیلئے جیا

ایسے لوگوں کیلئے ’’مقعدِ صدق‘‘ ہے۔ یہ الفاظ جنت کے تخت، آرام گاہ یا کسی قُصور کی طرف اشارہ نہیں بلکہ **عظیم روحانی مقام** کی طرف ہیں— جہاں:

* اللہ کی قربت * اس کی رضا * اس کی رحمت * اس کا انعام * اس کا نور

سب کچھ دائمی ہے۔

🌙 **9. مجرموں اور ظالموں کا انجام: آگ، حسرت اور رسوائی**

یہ آخری حصّہ دو انتہائیں دکھاتا ہے:

**1. ایک طرف: متقی لوگ** سکون، نور، امن، قربِ الٰہی، جنتیں، نہریں

**2. دوسری طرف: مجرمین** عذاب، اندھیرا، حسرت، رسوائی، جہنم کی لپٹیں

یہ دو تصویریں آخر میں رکھ کر اللہ انسان سے پوچھتا ہے: **کس راستے کا انتخاب کرو گے؟**

🌙 **10. انسان کا سب سے بڑا المیہ: وقت پر نہ سمجھنا**

سورۃ القمر کا آخری حصہ انسان کی سب سے بڑی نفسیاتی کمزوری کو بے نقاب کرتا ہے: **انسان نصیحت اسی وقت سنتا ہے جب عذاب سر پر کھڑا ہو۔** مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس حصّے میں بار بار سابقہ قوموں کی تباہی کا ذکر ہے— تاکہ انسان وقت رہتے سمجھ لے۔

🌙 **11. اللہ کا اختتامی اعلان: اس کی قدرت کامل ہے**

آخری آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے دو اسماء خاص طور پر نمایاں کرتا ہے:

  1. **عزیز** — غالب 2. **مقتدر** — مکمل قدرت والا

یہ دونوں نام بتاتے ہیں: * اللہ کو کوئی چیلنج نہیں دے سکتا * کوئی طاقت اس کے فیصلے کو بدل نہیں سکتی * اس کی پکڑ سے کوئی بھاگ نہیں سکتا * اس کا حکم آسمان و زمین کی بنیاد ہے

ان اختتامی آیات میں ’’مقتدر‘‘ کا استعمال بتاتا ہے کہ: **دنیا کی تمام بادشاہتیں، سلطنتیں، حکومتیں اور طاقتیں وقتی ہیں — مگر ایک واحد طاقت ہمیشہ قائم ہے: اللہ کی طاقت۔**

🌙 **12. حاصلِ کلام: سورۃ القمر کا آخری پیغام**

آخر میں یہ حصّہ انسان کو تین بنیادی پیغام دیتا ہے:

**1. تاریخ گواہ ہے: جو قوم ظلم پر اڑ جائے، مٹ جاتی ہے**

قومِ نوح    قومِ عاد    قومِ ثمود   قومِ لوط    قومِ فرعون

سب اپنی طاقت کے نشے میں ڈوبے تھے— اور سب کو اللہ نے مٹا دیا۔

**2. قرآن سب سے واضح، آسان اور روشن نصیحت ہے**

جو چاہے، اس سے روشنی لے جو چاہے، خود کو اندھیرے میں رکھے

**3. انجام دو ہیں — تیسرا کوئی نہیں**

یا جنت  یا جہنم  یا امن  یا حسرت  یا قرب   یا دوری   یا نور  یا آگ

اور انسان خود اپنے انجام کا فیصلہ کرتا ہے— اپنے اعمال سے، اپنے دل سے، اپنی ہوا سے، اپنے انتخاب سے۔

Loading